10 دسمبر، 2018 کو دئے ایک فیصلے میں میگھالیہ ہائی کورٹ کے جسٹس سدیپ رنجن سین نے وزیر اعظم سے گزارش کی تھی کہ پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے آنے والے ہندو، سکھ، جین، بودھ، پارسی، عیسائی، کھاسی، جینتیا اور گارو لوگوں کو بنا کسی سوال یا دستاویزوں کے شہریت دی جائے۔
میگھالیہ ہائی کورٹ (فوٹو: وکی پیڈیا)
نئی دہلی: میگھالیہ ہائی کورٹ کی بنچ نے اپنے سنگل بنچ کے اس فیصلے کو بدل دیا ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ ہندوستان کو تقسیم کے دوران ہی ہندو راشٹر بنا دیا جانا چاہیے تھا لیکن یہ سیکولر ملک بنا رہا۔چیف جسٹس محمد یعقوب میر اور جسٹس ایچ ایس تھنگ کیو نے فیصلہ دیا ہے کہ جسٹس سدیپ رنجن سین کا خیال قانونی طور پر غلط ہے اور آئینی اقدار کے مطابق نہیں ہے۔
بار اینڈ بیچکے مطابق، عدالت نے اپنے حکم میں لکھا ہے، اس معاملے پر سنجیدگی سے غور و فکر کے بعد ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ 10 دسمبر، 2018 کو دیا گیا فیصلہ قانونی طور پر غلط ہے اور آئینی اصولوں کے مطابق نہیں ہے۔ اس لئے، اس میں جو بھی رائے دی گئی اور ہدایت جاری کئے گئے، پوری طرح بےمعنی ہیں۔ اس لئے ان کو پوری طرح سے ہٹایا جاتا ہے۔ ‘
دوسرے ملکوں سے آئے لوگوں کو شہریت دئے جانے کے متعلق جسٹس سین کے فیصلے میں جو باتیں کہی گئی تھیں، ان کے متعلق بنچ نے کہا ہے،’یہ تو مدعا ہی نہیں تھا اور اس میں ملک کے سیکولر کرداراور آئین کے اہتماموں کو ٹھیس پہنچانے والی باتیں ہیں۔’واضح ہو کہ گزشتہ سال 10 دسمبر کو
جسٹس سین نے ایک فیصلہ سناتے ہوئے وزیر اعظم، وزیر داخلہ، وزیرقانون اور رکن پارلیامان سے ایسا قانون نافذ کرنے کے لئے کہا تھا جن کے تحت پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے ہندوستان میں رہنے آئے مختلف مذہبوں اور کمیونٹی کے لوگوں کو شہریت دی جا سکے۔رہائشی تصدیق نامہ سے جڑے ایک معاملے پر سنائے گئے اس فیصلے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ہندوستان کو تقسیم کے وقت ہی ہندو راشٹربنا دیا جانا چاہیے تھا۔ اس میں لکھا تھا،’پاکستان نے خود کو اسلامی ملک قراردیا تھا۔ چونکہ ہندوستان مذہب کی بنیاد پر منقسم ہوا تھا، اس کو ہندو راشٹر ہوجانا چاہیے تھا مگر یہ ایک سیکولر ملک بنارہا۔’
جسٹس سین کے اس فیصلے کو لےکر تنازعہ ہو گیا تھا۔ بعد میں انہوں نے ایک بیان جاری کرکے کہا تھا وہ شدت پسند نہیں ہیں اور تمام مذاہب کی عزت کرتے ہیں۔ اب بنچ نے کہا ہے کہ اس فیصلے کی ہدایت بےمعنی ہیں۔ بنچ نے گزشتہ سال دسمبر میں دئے گئے فیصلے کو خارج کر دیا ہے۔جسٹس سین کے حکم کو لےکر
سپریم کورٹ میں بھی ایک اپیل دائر کی گئی تھی۔ سپریم کورٹ کے سامنے اس معاملے میں ایک پی آئی ایل بھی زیر التوا ہے۔ میگھالیہ ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ سپریم کورٹ میں زیر التوا عرضی ڈویژن بنچ کے سامنے فوراً آئے معاملے میں فیصلہ سنانے سے کوئی روک نہیں لگتی۔