نیوز چینل ترنگا ٹی وی کی کنسلٹنگ ایڈیٹر برکھا دت نے کہا کہ چینل کے پرموٹر اور کانگریسی رہنما کپل سبل نے جنوری 2019 میں چینل کے ملازمین کی تقرری کرتے وقت کم از کم دو سال کی مدت کار دینے کی بات کہی تھی، اب وہ اس سے پیچھے ہٹ رہے ہیں۔
برکھا دت اور کپل سبل (فوٹو : فیس بک / پی ٹی آئی)
نئی دہلی: سوموار کو سینئر صحافی اور ترنگا ٹی وی کی کنسلٹنگ ایڈیٹر برکھا دت نے کانگریسی رہنما اور چینل کے پرموٹر کپل سبل اور ان کی بیوی پرملا سبل پر چینل کے تقریباً 200 ملازمین کی تنخواہ روکنے اور ان کو بنا مناسب معاوضہ دئے نوکری سے نکالنے کا الزام لگایا ہے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ سبل فیملی نے چینل کی خاتون ملازمین کے ساتھ قابل اعتراض زبان کا استعمال بھی کیا۔
غور طلب ہے کہ جنوری 2019 میں یہ چینل ہارویسٹ ٹی وی کے نام سے شروع ہوا تھا، لیکن ایک مہینے کے اندر اس کا نام بدلکر ترنگا ٹی وی کر دیا گیا۔ چینل کے ملازمین کا کہنا ہے کہ چینل کی براڈ کاسٹنگ جلدہی بند ہونے والی ہے، حالانکہ سوموار شام تک اس کی براڈ کاسٹنگ جاری تھی۔
برکھا کے الزام
سینئر صحافی برکھا دت نے سوموار کو ٹوئٹر پر سبل اور ان کی بیوی پر لیبر نارمس کی خلاف ورزی اور غیر اخلاقی سلوک کرنے کے سنگین الزام لگائے۔ انہوں نے کہا کہ چینل میں ‘ ڈراؤنا ‘ ماحول ہے۔ اسٹاف کے ساز و سامان ضبط کر لئے گئے ہیں اور ان کو بنا چھ مہینے کی تنخواہ دئے نکالا جا رہا ہے۔
برکھا نے آگے لکھا کہ بڑی تعداد میں ملازمین نے دوسرے آفر اور نوکریاں چھوڑکر چینل جوائن کیا تھا کیونکہ سبل نے ان کو کم از کم 2 سال کی مدت کار کی یقین دہانی کرائی تھی۔
انہوں نے الزام لگایا کہ سبل کی بیوی اور چینل کی اہم فنانسر پرملا سبل نے صحافیوں کے ذریعے چھ مہینے کی تنخواہ مانگے جانے پر توہین آمیز تبصرے کیے۔ ان کے مطابق صحافیوں کی مانگ پر میٹ فیکٹری چلانے والی پرملا نے کہا، ‘ میں نے مزدوروں کو ایک پیسہ دئے بنا فیکٹری بند کر دی، 6 مہینے کی تنخواہ مانگنے والے یہ صحافی کون ہوتے ہیں۔ ‘
برکھا نے سوال اٹھا یاکہ کروڑوں روپے کمانے والے سبل صحافیوں کو نکالتے وقت اس شعبے کے اصول کیوں نہیں ماننا چاہتے ہیں۔
انہوں نے آگے لکھا کہ ان کو بتایا گیا ہے کہ اسٹاف کو نکالنے کے لئے سبل فیملی نے نریندر مودی حکومت کی مبینہ مداخلت کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ حالانکہ برکھا کا کہنا ہے کہ چینل کے کام کاج سے مرکزی حکومت کا کوئی لینا-دینا نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ جہاں ایک طرف چینل بند ہو رہا ہے، وہیں سبل فیملی چھٹیاں منانے لندن گئی ہوئی ہیں۔
برکھا نے یہ بھی الزام لگایا کہ اسٹاف کے حقوق کے لئے کھڑے ہونے کی وجہ ان کو ہتک عزت کی دھمکی دی گئی اور وہ ای میل ڈلیٹ کرنے کے لئے کہا گیا جہاں انہوں نے سبل اور بھگوڑا قرار دیے گئے کاروباری وجئے مالیا کے درمیان موازنہ کیا تھا۔
دت نے کہا کہ وہ اسٹاف کے حقوق کے لئے کھڑی رہیںگی اور اس لڑائی کو قانونی شکل سے لڑنے میں بھی ان کی مدد کریںگی۔ انہوں نے آگے یہ بھی لکھا کہ سبل فیملی خاتون ملازمین کے لیے گالی کا استعمال کرتے تھے اور نیشنل وومین کمیشن کو اس پر از خود نوٹس لینا چاہیے۔اس پر نیشنل وومین کمیشن کی صدر ریکھا شرما نے جواب دیتے ہوئے برکھا سے اس بارے میں تفصیلی جانکاری ای میل کرنے کو کہا ہے۔
اپنی بات ختم کرتے ہوئے برکھا نے کہا کہ 200 ملازمین کی زندگی ان کو نہیں دی گئی تنخواہ پر منحصر کرتی ہے۔ وہ امید کرتی ہیں کہ ایڈیٹرس گلڈ اس پر نوٹس لےکر اسٹاف کے حق کی حفاظت کرےگی۔چینل کے کچھ ملازمین نے حال ہی میں اس کے احتجاج میں مظاہرہ کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کو ایک مہینے کی تنخواہ لےکر استعفیٰ دینے کے لئے کہا گیا ہے۔ کچھ ملازمین نے بقایا تنخواہ کو لےکر پریس کلب آف انڈیا کے سامنے مظاہرہ بھی کیا تھا۔
سبل نے مودی حکومت پر لگائے تھے الزام
جنوری میں جئے پور لٹریچر فیسٹیول میں بولتے ہوئے سبل نے این ڈی اے حکومت پر الزام لگایا تھا کہ وہ ان کا چینل بند کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ انہوں نے
کہا تھا، ‘ میں ہارویسٹ نام کے ایک چینل کو فنانس کرنا چاہتا ہوں۔ ہم اب لائسنس لینا چاہتے ہیں پر حکومت ہمیں لائسنس نہیں دینا چاہتی۔ ہمیں لائسنس مل گیا تھا لیکن اس دوپہر یہ بند ہو گیا۔ ‘
ان کا دعویٰ تھا کہ مودی حکومت نے سروس پرووائیڈر کو ان کا چینل براڈ کاسٹ نہ کرنے کو کہا تھا۔
انہوں نے کہا، ‘ یہ سب ہو رہا ہے… میں بتاتا ہوں کہ کیسے احتجاج کو دبایا جا رہا ہے، کیسے لوگوں کو بولنے نہیں دیا جا رہا، کیسے لوگوں کو بولنے کی آزادی نہیں دی جا رہی-جو ہمارا بنیادی حق ہے۔ ‘
فنڈ کا وعدہ کیا گیا تھا، جو پورا نہیں ہوا
لوک سبھا انتخاب سے ٹھیک پہلے لانچ کیا گیا یہ چینل پوری طرح سے پرملا سبل کے ذریعے فنڈ کیا جا رہا تھا۔ اس نے مین اسٹریم کے نیوز چینلوں پر بی جے پی کو مل رہے زیادہ سے زیادہ وقت کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی۔سبل نے اس میں کافی رقم لگائی تھی اور اسٹاف کو یقین دلایا تھا کہ ان کے پاس تقریباً 40 کروڑ روپے ہیں، جس سے دو سال تک کی تنخواہ دی جا سکتی ہے۔ چینل کو لمبے وقت تک چلانے کے لئے مختلف ذرائع سے 300 کروڑ روپے جمع کرنے کی بات ہوئی تھی، لیکن لوک سبھا انتخاب میں کانگریس کے خراب مظاہرہ کے بعد یہ چیلنجنگ ہو گیا۔
جن لوگوں کے ذریعے چینل کو فنڈ مہیا کروایا جانا تھا، اس میں ایک سابق مرکزی وزیر کا بھی نام ہے، جن کو اپنے ایک صنعت کار دوست سے یہ پیسہ ملنے والا تھا۔ کانگریس پارٹی کے ایک دوسرے ممبر، جو خود صنعت کار ہیں، کو بھی چینل میں پیسے لگانے تھے، لیکن ایسا نہیں ہوا۔چینل سے جڑے ایک ذرائع نے
آوٹ لک میگزین سے بات کرتے ہوئے کہا، ‘ 23 مئی کو بی جے پی والی این ڈی اے حکومت کی اقتدار میں واپسی کے ساتھ ہی کمپنی میں مشکلیں شروع ہو گئیں۔ سرمایہ کاروں نے ہاتھ پیچھے کھینچ لیا اور موجودہ سرمایہ کاروں نے آگے پیسہ لگانے سے انکار کر دیا۔ ‘
دی وائر کی طرف سے برکھا دت کے الزامات کے بارے میں کپل اور پرملا سبل، دونوں کو سوال بھیجے گئے ہیں۔ ان کا جواب آنے پر اس کو رپورٹ میں جوڑا جائےگا۔