بی بی سی کے دہلی اور ممبئی کے دفاتر میں محکمہ انکم ٹیکس کی کارروائی کی مذمت کرتے ہوئے کئی میڈیا اداروں نے اسے صحافتی اداروں کو ڈرانے اور دھمکانے کے لیے سرکاری ایجنسیوں کا غلط استعمال قرار دیا ہے۔
نئی دہلی: منگل کو بی بی سی کے دہلی اور ممبئی دفاتر پر انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ کے ‘سروے’ پر ایڈیٹرس گلڈ آف انڈیا، پریس کلب آف انڈیا، ڈی جی پب جیسے میڈیا اداروں کے ساتھ ساتھ بی بی سی دہلی کے سابق بیورو چیف نے گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
گلڈ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ حکومت کی تنقید کرنے والے خبر رساں اداروں کو ڈرانے اور ہراساں کرنے کے لیے سرکاری ایجنسیوں کے استعمال کےچلن پر فکر مند ہے۔
EGI is deeply concerned about the IT “surveys” being carried out at the offices of BBC India. Is distressed by the continuing trend of government agencies being used to intimidate and harass news organisations that are critical of ruling establishment. pic.twitter.com/hM7ZkrdOiq
— Editors Guild of India (@IndEditorsGuild) February 14, 2023
قابل ذکر ہے کہ بی بی سی کے دفاتر میں محکمہ انکم ٹیکس کی یہ کارروائی بی بی سی کی ڈاکیومنٹری ، جس پر ہندوستان میں کافی تنازعہ ہوا تھا، کے ٹیلی کاسٹ ہونے کے چند ہی ہفتے بعد ہوئی ہے۔
معلوم ہو کہ بی بی سی کی دستاویزی فلم ‘انڈیا: دی مودی کویسچن‘ میں بتایا گیا ہے کہ برطانوی حکومت کی جانب سے کرائی گئی تحقیقات (جو اب تک غیر مطبوعہ رہی ہے) میں تشدد کے لیے نریندر مودی کو براہ راست ذمہ دار پایا گیا تھا۔
اس کے ساتھ ہی وزیر اعظم نریندر مودی اور ملک کے مسلمانوں کے درمیان کشیدگی پر بھی بات کی گئی ہے۔ اس میں فروری اور مارچ 2002 کے مہینوں میں گجرات میں بڑے پیمانے پر ہونے والے فرقہ وارانہ تشدد میں ان کے کردار کے بارے میں کیے گئے دعووں کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔
دو حصوں پر مشتمل دستاویزی فلم کی پہلی قسط 2002 کے گجرات دنگوں کی بات کرتی ہے، اور مودی اور ریاست کی بی جے پی حکومت کو تشدد کے لیے براہ راست ذمہ دار ٹھہراتی ہے۔ دوسری قسط میں، مرکز میں مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد–خصوصی طور پر 2019 میں ان کے دوبارہ ااقتدار میں آنے کے بعد–مسلمانوں کے خلاف تشدد اوران کی حکومت کے ذریعے لائے گئے امتیازی قوانین کے بارے میں بات کی گئی ہے۔
حکومت نے20 جنوری کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئٹر اور یوٹیوب کو ‘انڈیا: دی مودی کویسچن’ نامی دستاویزی فلم کے لنکس بلاک کرنے کی ہدایت دی تھی۔
اس سے قبل وزارت خارجہ نے دستاویزی فلم کو ‘پروپیگنڈے کا حصہ’ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا تھا اور کہا تھا کہ اس میں معروضیت کا فقدان ہے اور یہ نوآبادیاتی ذہنیت کی عکاسی کرتی ہے۔
تاہم، بی بی سی اپنی ڈاکیومنٹری پر قائم ہےاور اس کا کہنا ہے کہ کہ کافی تحقیق کے بعد یہ ڈاکیومنٹری بنائی گئی ہے ،جس میں اہم ایشوز کو غیر جانبداری کے ساتھ اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ چینل نے یہ بھی کہا کہ اس نے اس پر حکومت ہند سے جواب مانگا تھا، لیکن حکومت نے کوئی جواب نہیں دیا۔
اس دوران ملک کی مختلف ریاستوں کے کیمپس میں دستاویزی فلم کی نمائش کو لے کر تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے۔
گلڈ کے بیان میں اس بات کا ذکرکیا گیا ہے کہ کیسے ‘سروے’ اس کو لے کر ہوئے تنازعہ کے بعدسامنے آئے ہیں۔ اس نے کہا ، دستاویزی فلم کی نشریات نے سیاسی ہلچل مچا دی تھی، جہاں حکومت نے گجرات تشدد پر غلط اور متعصب رپورٹ کہتے ہوئے بی بی سی کی تنقید کی تھی اور اس کی آن لائن اسکریننگ پر پابندی لگانے کی کوشش کی تھی۔
گلڈ نے اس طرح کے پچھلے واقعات کو یاد کیا جب 2021 میں نیوز کلک، نیوز لانڈری، دینک بھاسکر اور بھارت سماچار کے دفاتر میں ایسے’سروے ‘کیے گئے تھے۔ اس نے کہا، اس طرح کے چھاپے اور سروے صرف اس وقت ہی کیے گئے جب خبر رساں اداروں کی طرف سے حکومت کے خلاف تنقیدی رپورٹنگ کی گئی۔
گلڈ نے کہا کہ یہ چلن آئینی جمہوریت کو کمزور کرتا ہے۔ اس نے اپنے پرانےمطالبے کا اعادہ کرتے ہوئے کہاکہ حکومتیں اس بات کو یقینی بنائیں کہ اس طرح کی تحقیقات طے شدہ اصولوں کے مطابق ہوں اور اسے آزاد میڈیا کو ڈرانے اور ہراساں کرنے کا ہتھیار نہ بنایا جائے۔
The Press Club is deeply concerned that the government’s action on an international broadcasting network will damage the reputation and image of India as the world’s largest democracy. We urge the govt to restrain its agencies from misusing their powers to intimidate the media pic.twitter.com/h41vQjeWVs
— Press Club of India (@PCITweets) February 14, 2023
پریس کلب آف انڈیا نے بھی اس کارروائی کو حالیہ دنوں میں سرکاری ایجنسیوں کے ذریعے میڈیا ‘خاص طور پر میڈیا کے ان حصوں کے خلاف جن کو حکومت اپنا دشمن اور تنقیدی مانتی ہے’ پر حملوں کی ایک سیریز بتاتے ہوئے ‘سخت مذمت’ کی ہے۔
اس نے ایک بیان میں کہا، ‘یہ انتہائی بدقسمتی کی بات ہے کیونکہ یہ حالیہ واقعہ انتقامی کارروائی کا ایک واضح معاملہ معلوم ہوتا ہے، جو بی بی سی کی جانب سے گجرات دنگوں پر ایک دستاویزی فلم کےنشر کیے جانے کے چند ہفتوں کے اندر کی گئی ہے۔ یہ دستاویزی فلم، جو ان چھاپوں کی فوری وجہ معلوم ہوتی ہے، پہلے ہی یوٹیوب اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارم پربین کی جا چکی ہے۔
پریس کلب نے کہا کہ ایک بین الاقوامی نشریاتی نیٹ ورک پر اس طرح کی کارروائی سے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے طور پر ہندوستان کی ساکھ اور امیج کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ساتھ ہی حکومت سے اپیل کی کہ وہ ‘میڈیا کو ڈرانے اور پریس کی آزادی کو روکنے کے لیے اپنے اختیارات کا غلط استعمال نہ کرے’۔
भारत में #BBC कार्यालयों में आयकर 'सर्वे' पर DIGIPUB का बयान। pic.twitter.com/wYJOfUbxkl
— DIGIPUB News India Foundation (@DigipubIndia) February 15, 2023
ڈیجیٹل میڈیا براڈکاسٹروں کی ایک یونین ڈی جی پب نے بھی بی بی سی کے دفاتر کے ‘سروے’ پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
اس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ بی بی سی کی دستاویزی فلم آنے کے چند دنوں کے اندر ہونے والی یہ کارروائی تشویشناک ہے اور یہ ایک آزاد اور منصفانہ آواز پر حملے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ یہ نہ صرف ایک مضبوط جمہوریت کے طور پر ہندوستان کی عالمی امیج کو داغدار کرتا ہے بلکہ دوست ممالک کے درمیان دوستانہ تعلقات کو بھی خراب کر سکتا ہے۔
اس میں مزید کہا گیا ہے، ‘اس طرح کے چھاپے ہمیشہ ان میڈیا اداروں کو نشانہ بناتے رہے ہیں جو اسٹیبلشمنٹ کے خلاف خبریں شائع کرتی ہیں۔ اس طرح کے اقدامات کے ذریعے حکمراں جماعت اظہار رائے کی آزادی کے آئینی حقوق ، پریس کی آزادی اور شہریوں کے معلومات کے حق کے بارے میں جاننے کے ناقابل تنسیخ حق کو محدود کرنا چاہتی ہے۔
اگر حکومت جمہوری اقدار کی پاسداری کا دعویٰ کرتی ہے اور ہندوستان کے عالمی موقف کے بارے میں سنجیدہ ہے تو اسے میڈیا کو فعال طور پر سخت سوالات پوچھنے کے قابل بنانا چاہیے، چاہے ان سوالات کا نتیجہ حکومت کی پالیسی، نیت ، ارادے اور طرز عمل کے بارے میں تنقید ہی کیوں نہ ہو۔
‘خطرناک اورڈرانے والا’
نیشنل الائنس آف جرنلسٹس (این اے جے) اور دہلی یونین آف جرنلسٹس (ڈی یو جے) نے بھی ‘تلاشیوں’ اور ‘سروے’ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا سے اتفاق کرتے ہوئے ایک بیان جاری کیا ہے۔
این اے جے اور ڈی یو جے نے کہا کہ یہ ‘غیر اعلانیہ پریس سنسرشپ کا نیا دور ہے اور ہر قسم کی مزاحمت کو ختم کرنے کے مقصد سے آزادانہ سوچ اور ہر طرح سے آزاد صحافت کو روکا جا رہا ہے’۔
اس نے کہا کہ یہ جمہوریت کے لیے خطرناک اور ڈرانے والا ہے اوراس سے اور زیادہ خطرناک ارادوں کا اشارہ بھی ملتا ہے۔
یہ دھمکانا ہے: بی بی سی دہلی کے سابق بیورو چیف
بی بی سی دہلی کے سابق بیورو چیف اور سینئر صحافی ستیش جیکب نے کہا کہ ‘نام نہاد سروے سرکاری اداروں کے غلط استعمال سے ڈرانے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں’۔
جیکب نے دی وائر سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ بہت ہی تشویشناک ہے کہ نریندر مودی کی قیادت والی مرکزی حکومت اپنی ‘بیہودہ سیاست’ کے تئیں کوئی شرم نہیں رکھتی۔
انہوں نے کہا، ‘مجھےجو بات سب سے زیادہ تشویشناک لگتی ہے وہ یہ ہے کہ مودی حکومت اب اس بات کی پرواہ نہیں کرتی کہ اس طرح کے اقدامات کے بارے میں باہر کیا تاثر پیدا ہو رہا ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ کوئی بھی اس کے سروے ہونے کی بات پر یقین رکھتا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب تمام ہندوستانی چینل اس کے سامنے سر خم کرچکے ہیں، یہ بیہودہ سیاست اور ایک بین الاقوامی نیوز چینل کو خاموش کرنے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں ہے۔
جیکب نے مزید کہا کہ ، یہ المیہ ہے کہ بی جے پی کے بہت سے رہنما محترمہ اندرا گاندھی کی طرف سے لگائی گئی ایمرجنسی کی زیادتیوں کے بارے میں بات کرتے ہیں، جبکہ وہ خود بالکل انہی سیاہ دنوں کی حکومت کی طرح برتاؤ کرتے ہیں۔