بی جے پی کے سابق ایم ایل اے راگھویندر پرتاپ سنگھ کے ‘مسلم لڑکیاں لاؤ ، نوکری پاؤ’والے بیان کو بی ایس پی سربراہ مایاوتی نے نفرت پھیلانے والا بتایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے جرائم پیشہ اور سماج دشمن عناصر قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر معاشرے میں زہر گھول رہے ہیں، حکومت کو ان کے خلاف سخت کارروائی کرنی چاہیے۔

تصویر بہ شکریہ: فیس بک
نئی دہلی: بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) کی سربراہ اور اتر پردیش کی سابق وزیر اعلیٰ مایاوتی نے منگل (28 اکتوبر) کو بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے سابق ایم ایل اے راگھویندر پرتاپ سنگھ کے اس بیان پر سخت تنقید کی، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’10 مسلم لڑکیاں لاؤ اور نوکری پاؤ’۔
اسے ‘ہیٹ اسپیچ’ قرار دیتے ہوئے مایاوتی نے کہا کہ یہ اتر پردیش سمیت دیگر ریاستوں میں فرقہ وارانہ اور ذات پات کی نفرت کو ہوا دینے کی کوشش ہے۔
کچھ ‘شرارتی عناصر’ کے ذریعہ کھیلے جا رہے ‘زہریلے اور پرتشدد کھیل’ کا حوالہ دیتے ہوئے مایاوتی نے الزام لگایا کہ کچھ ‘مجرم اور سماج دشمن عناصر’ تبدیلی مذہب اور نام نہاد ‘لو جہاد’ کی مخالفت کے نام پر قانون کو اپنے ہاتھ میں لے رہے ہیں۔
انہوں نے ایکس پر پوسٹ میں کہا کہ ‘مسلم لڑکی لاؤ، نوکری پاؤ’ کے تازہ ترین نفرت انگیز بیان کے ساتھ ساتھ یوپی اور اتراکھنڈ اور دیگر ریاستوں میں بھی تبدیلی مذہب، لو جہاد اور نہ جانے اور کیا کیا نفرت انگیز نام دے کراور اس کے خلاف قانون کو ہاتھ میں لے کر فرقہ وارانہ اور ذات پات پر مبنی نفرت، عداوت، بدامنی، انتشار اور لوگوں کے جان و مال اور مذہب پر خطرہ بن جانے کا شرارتی عناصر کا یہ زہریلا اور پرتشدد کھیل انتہائی قابل مذمت ہے۔
بی ایس پی سربراہ مایاوتی نے سابق بی جے پی ایم ایل اے پر اپنے حملے کو تیز کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے ‘سماج دشمن عناصر’ ایک مہذب اور آئینی حکومت کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ انہیں تحفظ دینے کے بجائے ان کے خلاف سخت کارروائی کی جانی چاہیے۔
مایاوتی نے کہا،’اس طرح کے مجرمانہ، انارکی اور سماج دشمن عناصر ایک مہذب اور آئینی حکومت کے لیے کھلا چیلنج اور خطرہ ہیں۔ حکومتوں کو ان کی حوصلہ افزائی اور تحفظ کے بجائے ریاست کے کروڑوں لوگوں کے مفادات اور فلاح و بہبود کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسے افراد کے خلاف سخت قانونی کارروائی کرنی چاہیے اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانا چاہیے۔ یہ وسیع تر عوامی اور قومی مفاد میں ہے۔’
ان کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب بی جے پی کے سابق ایم ایل اے راگھویندر پرتاپ سنگھ نے اتر پردیش کے سدھارتھ نگر میں ایک جلسہ عام کے دوران مبینہ طور پر کہا تھا کہ ‘اگر دو لڑکی گئی ہیں تو کم از کم 10 مسلم لڑکیاں لاؤ،اس کو ہندو بناؤ’۔
اس کے بعدسنگھ نے مجمع میں موجود نوجوانوں سے پوچھا، ’ کتنے نوجوان تیار ہیں، ہاتھ اٹھاؤ‘۔ نوجوانوں نے ہاتھ اٹھاکر اپنی رضامندی ظاہر کی۔
‘دوپر دس سے کم منظور نہیں ہے۔ شادی ہم کرائیں گے۔ اور ہم اعلان کرتے ہیں کہ جو کوئی لائے گا اسے کھانے پینے لائق نوکری بھی دلائیں گے۔’ بی جے پی کے سابق ایم ایل اے کے اس متنازعہ بیان پر جلسہ عام میں تالیاں گونج رہی تھیں۔
لو جہاد کی سیاست
قابل ذکر ہے کہ نام نہاد ‘لو جہاد’ کی اصطلاح ہندوتوا گروپوں نے وضع کی ہے، جن کا مقصد، ان کے مطابق، ہندو لڑکیوں کو مسلم برادریوں میں شادی کرنے سے روکنا ہے۔ ان کا مؤقف ہے کہ مسلمان مرد ہندو لڑکیوں سے شادی کرنے اور انہیں اسلام قبول کرنے کی سازش کر رہے ہیں، اور یہ کہ غیر ملکی فنڈنگ کے ذریعے اس کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔
ان کا یہ بھی دعویٰ رہتاہے کہ اس طرح تبدیلی مذہب کروا کر مسلمان اس ملک میں ہندوؤں کو اقلیت بنانا چاہتے ہیں۔
‘لو جہاد’ کی اصطلاح سب سے پہلے سناتن پربھات اور ہندو جنجاگرتی سمیتی نے 2009 میں ایک سازشی تھیوری کے طور پر استعمال کی تھی، اور بعد میں اسے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) اور وشو ہندو پریشد نے اپنالیا تھا۔ 2014 کے بعد یہ مختلف ریاستوں میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومتوں کا مرکزی ایجنڈا بن گیا۔ اب تک، گجرات، اتر پردیش، مدھیہ پردیش، اور ہریانہ ان اہم ریاستوں میں شامل ہیں جنہوں نے اس مسئلے پر قانون بنائے ہیں۔
اگرچہ اس طرح کی شادیاں اور ان سے متعلق تنازعات میڈیا میں گاہے بگاہے سامنے آتے رہتے ہیں، لیکن ایسے واقعات کی تعداد کے بارے میں کوئی درست اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں۔ تاہم، دائیں بازو کے گروپوں نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ نام نہاد ‘لو جہاد’ کے بہانے گرفتاریاں بھی ہوتی رہیں۔
غور طلب ہے کہ 2020 میں اس وقت کے مرکزی وزیر مملکت برائے امور داخلہ جی کشن ریڈی نے کہا تھا کہ موجودہ قوانین کے تحت ‘لو جہاد’ کی اصطلاح کی تعریف نہیں کی گئی ہےاور اس وقت تک مرکزی ایجنسیوں کے ذریعہ ‘لو جہاد’ کا کوئی معاملہ رپورٹ نہیں کیا گیا تھا۔