اتر پردیش پولیس نے پچھلے سال پانچ اکتوبر کو ہاتھرس جانے کے راستے میں کیرل کے ایک صحافی صدیق کپن سمیت چار نوجوانوں کو گرفتار کیا تھا۔ ان پر الزام لگایا تھا کہ ہاتھرس گینگ ریپ اورقتل معاملے کے مدنظر فرقہ وارانہ تشدد بھڑ کانے اور سماجی ہم آہنگی کو متاثر کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ یوپی سرکار نے دعویٰ کیا تھا کہ کپن صحافی نہیں، بلکہ انتہا پسند تنظیم پی ایف آئی کے ممبر ہیں۔
نئی دہلی : اتر پردیش کے متھرا کی ایک مقامی عدالت نے کیرل کے صحافی صدیقی کپن اور تین دیگر لوگوں کو امن و امان کو خراب کرنے کے الزام سے منگل کو بری کر دیا، کیونکہ پولیس اس معاملے کی جانچ طے چھ مہینے میں پورا نہیں کر پائی۔ دفاعی فریق کے وکیل نے مذکورہ جانکاری دی۔
انتہا پسند تنظیم پاپولر فرنٹ آف انڈیا(پی ایف آئی)کے ساتھ تعلق ہونے کے شبہ میں کپن اور ان کے مبینہ ساتھیوں کو پانچ اکتوبر، 2020 کو گرفتار کیا گیا تھا۔ یہ لوگ ہاتھرس میں ایک خاتون کے ساتھ ہوئے گینگ ریپ اور قتل کے معاملے میں اس کے گاؤں جا رہے تھے۔
دفاعی فریق کے وکیل مدھوبن دت چترویدی نے بتایا کہ سب ڈویژنل مجسٹریٹ رام دت رام نے منگل کو ملزمین عتیق الرحمن ، عالم، صحافی صدیقی کپن اور مسعود احمد کوالزام سے بری کر دیا۔انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، وکیل نے بتایا کہ سی آر پی سی کی دفعہ 116(6)کے تحت کارر وائی کی طے حد ہونے کی وجہ سے سب ڈویژنل مجسٹریٹ نے الزام رد کر دیے۔
دفاعی فریق کے وکیل مدھوبن دت چترویدی نے کہا کہ پانچ اکتوبر 2020 کو گرفتاری کے بعد انہیں سب ڈویژنل مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا گیا تھا، جہاں سے انہیں عدالتی حراست میں بھیج دیا گیا تھا۔عدالتی حراست کے دوران عدالت نے امن و امان کو خراب کرنےکے معاملے کی شنوائی کی اور پولیس کی جانب سے پیش کی گئی رپورٹ کی بنیاد پر سی آر پی سی کی دفعہ111 کے تحت نوٹس بھیجا۔
جیل میں بھیجے گئے نوٹس میں ان سے پوچھا گیا کہ انہیں ایک ایک لاکھ روپے کے نجی بانڈ اور دو گارنٹر سے یکساں رقم کا مچلکہ بھر ضمانت کیوں نہ دے دی جائے۔وہیں ملزمین نے خود پر لگے الزامات سے انکار کیا۔
وکیل نے کہا، ‘میں نے سب ڈویژنل مجسٹریٹ کی عدالت میں عرضی دائر کر ان سے گزارش کی ہے کہ ملزمین کے خلاف معاملے کو رد کر دیا جائے، کیونکہ پولیس متعینہ چھ مہینے کی مدت میں کوئی ثبوت پیش نہیں کر پائی۔ اس کے بعد عدالت نے آج تکنیکی بنیاد پر ملزمین کو بری کر دیا۔’
انہوں نے کہا، ‘عدالت نے سی آر پی سی کی دفعہ116(6) کے تحت معاملہ بند کر دیا۔’دراصل اس دفعہ میں کہا گیا ہے کہ جانچ شروع ہونے سے چھ مہینے کے اندر جانچ پوری کی جانی چاہیے اور اگر جانچ پوری نہیں کی جاتی تو جانچ کو رد مانا جائےگا۔
معلوم ہو کہ صدیق کپن اور تین دیگر کی گرفتاری کے دو دن بعد یوپی پولیس نے ان کے خلاف سیڈیشن اور یواے پی اے کے تحت مختلف الزامات میں معاملہ درج کیا تھا۔
یو اے پی اے کے تحت درج معاملے میں الزام لگایا گیا تھا کہ کپن اور ان کے شریک سفر ہاتھرس گینگ ریپ اور قتل معاملے کے مد نظر فرقہ وارانہ دنگے بھڑ کانے اور سماجی ہم آہنگی کو متاثرکرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ کپن عدالتی حراست میں ہیں۔
پولیس نے بعد میں اس معاملے میں چار اور لوگوں کے خلاف معاملہ درج کیا۔ اس سال اپریل میں پولیس نے متھرا کی مقامی عدالت میں کپن سمیت تمام آٹھ لوگوں کے خلاف چارج شیٹ دائر کی تھی۔