پچھلے ہفتے، دی وائر کے رپورٹر یاقوت علی منی پور کے بشنو پور ضلع پہنچے تھے، جہاں رات کو مقامی میتیئی لوگوں سے بات چیت کے دوران فائرنگ میں ایک گولی ان کے پاس سے گزر گئی۔
امپھال: منی پور میں تقریباً تین ماہ سے جاری تشدد کے درمیان یہاں کے لوگوں کی زندگی میں کرفیو، خوف اور غیر یقینی کی کیفیت عام ہو گئی ہے۔
فی الحال (28 جولائی) امپھال میں صبح 5 بجے سے شام 6 بجے تک کرفیو میں نرمی دی گئی ہے۔ لیکن شام 6 بجے کے فوراً بعد صورتحال کشیدہ ہو جاتی ہے۔ رات بھر فائرنگ اور بموں کی آوازیں آتی رہتی ہیں۔
مقامی لوگ فوری طور پر صحافیوں کو خبردار کرتے ہیں کہ وہ ‘سرحدوں’ کے قریب نہ جائیں۔ یہ سرحدیں کیا ہیں؟ یہ سرحدیں وہ علاقے ہیں جواس تنازعہ میں شامل میتیئی اور کُکی برادریوں کے ذریعے متعین کیے گئے ہیں۔ دونوں ہی برادریوں کے افراد کو اب ایک دوسرے کے علاقوں میں جانے کی اجازت نہیں ہے۔
کرفیو کے اوقات کے بعد منی پور کے ان علاقوں میں دی وائر یہ دیکھنے پہنچا کہ وہاں اس وقت کیاحالات ہیں۔
رات 9 بجے تک امپھال کی سڑکوں پر میرا پائی بیس کے علاوہ کوئی نظر نہیں آتا ہے۔ یہ خواتین نگرانی رکھتی ہوئی نظر آتی ہیں۔
اس رپورٹر اور ایک بھروسے مند ڈرائیور نے بشنو پور ضلع کی ‘سرحد’ تک کاسفر شروع کیا، اس دوران ہماری گاڑی کو امپھال سے بشنو پور تک دو بار روکا گیا- ایک بار میرا پائی بیس اور ایک بار مقامی لوگوں کے ذریعے۔ ان لوگوں نے ہماری گاڑی کوبوٹ (ڈکی) سمیت پورا چیک کیا۔
بشنو پور کے قریب کچھ مقامی لوگوں نے، جو نشے میں تھے، ایک بار پھر ہماری گاڑی کو روکا۔ یہ ٹیم کُکی اکثریتی علاقے سے گزرنے والی ہر گاڑی کو مستعدی سے چیک کرتی نظر آئی۔
آنے جانے والی گاڑیوں کی جانچ کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ پہاڑوں پر جا رہے ہیں یا وہاں سے آ رہے ہیں۔ وادی میں میتیئی پہاڑیوں سے آنے والی گاڑیوں کو چیک کرتے ہیں جبکہ کُکی پہاڑیوں کی طرف جانے والی گاڑیوں کو چیک کرتے ہیں۔
جیسے ہی ہم تیراکھونگ شانگ بی کے علاقے کے قریب پہنچے تو کچھ مقامی لوگوں نے ہماری گاڑی کو روک لیا جنہوں نے ہمیں فوراً لائٹس بند کرنے کو کہا کیونکہ آس پاس کے علاقے میں فائرنگ ہو رہی تھی۔
اس جگہ ایک چھوٹی سی جھونپڑی میں تقریباً بیس عورتیں بیٹھی ہوئی تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ میرا پائی بیس ہیں۔ ایک خاتون جس نے اپنا نام سناہنبی بتایا نے کہا،’ریاست میں این بیرین سنگھ کی بی جے پی کی حکومت آنے کے بعد ہم نے سوچا کہ ہماری تمام پریشانیاں اور شکایتیں سنی جائیں گی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔’
سناہنبی نے کہا کہ وہ اب بھی بیرین سنگھ سے موجودہ بحران کو حل کرنے کی اپیل کریں گی۔
اس بات چیت کے دوران فائرنگ کی آوازیں آتی رہیں اور اس جگہ کی تمام لائٹس بند کر دی گئیں۔
اس کے بعد ایک اور خاتون سناٹومبی نے ریاست میں انٹرنیٹ پر پابندی پر سوال اٹھایا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر میتیئی کے لوگوں کو انٹرنیٹ تک رسائی حاصل ہوتی تو ظلم وجبر کی مزید کہانیاںسامنےآتیں۔مہینے بھرپہلے پولیس نے کسانوں کو تحفظ فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا اور انہیں کھیتی شروع کرنے کی ترغیب دی تھی۔ جو لوگ دھان لگانے گئے تھے، انہیں کُکی دہشت گردوں نے پکڑ لیا اوروہ تب سے لاپتہ ہیں۔
سناتومبی نےریاستی اور مرکزی حکومتوں کے تئیں مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ‘امت شاہ منی پور آئے لیکن انہوں نے ہماری شکایتیں نہیں سنیں۔ کئی بارہم نے میڈیا سمیت سب کے سامنے اپنے دکھ کا اظہار کیا لیکن کوئی مدد نہیں ملی۔
اس گروپ میں ایک خاتون ایسی تھیں، جو ہندی میں بات کر سکتی تھیں۔ انھوں نے کہا، ‘ہمارے پاس ہتھیار نہیں ہیں، لیکن ہم پھر بھی لڑنے کے لیے تیار ہیں۔’
بالکل اسی وقت ایک گولی بغل سے نکلی۔ ہم سب اکٹھے ہوگئے، زمین پرجھک گئے یا لیٹ گئے۔ عورتیں خاموش بیٹھی رہیں۔ کچھ لوگ یہ سوچ کر سڑک کے دوسری طرف چلے گئے کہ دکانوں کی شٹرکی آڑ میں وہ بچے رہیں گے۔
بغیر کوئی لائٹ آن کیے میں گاڑی کے پاس واپس آیا اور ہم وہاں نکل گئے۔ فائرنگ اب بھی ہو رہی تھی۔ اگلے دو کلومیٹر تک ہم نے گاڑی کی لائٹ آن نہیں کیں۔
اس قسم کا غیر متعینہ تشدد کافی خوف پیدا کردیتا ہے۔ اتنا کہ امپھال میں پوری رات باہر گزارنا مشکل ہے۔ ہم چار گھنٹے بعد لوٹ آئے۔
واپسی کے دوران، ایک شخص نے ہم سے کہا، ‘… لیڈروں سے کہنا کہ منی پور میں امن قائم کریں۔’
(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)