بی جے پی کی حلیف جماعت ناگا پیپلز فرنٹ کے رہنما اور منی پورسے آنے والے دو لوک سبھا ایم پی میں سے ایک لورہو ایس فوزے کا کہنا ہے کہ وہ ایوان میں اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد پر بحث کے دوران منی پور پر بولنا چاہتے تھے لیکن انہیں بی جے پی کے لوگوں نے بولنے سے منع کر دیا تھا۔
نئی دہلی: لوک سبھا کی باہری منی پور انتخابی حلقے سےرکن پارلیامنٹ لورہو ایس فوزے کا کہنا ہے کہ وہ اپوزیشن کی طرف سے لائی گئی تحریک عدم اعتماد پر بحث کے دوران ایوان میں منی پور پر بولنا چاہتے تھے، لیکن ‘اتحاد میں ان کے دوستوں،بالخصوص بی جے پی نے انہیں غیر رسمی طور پر نہ بولنے کی صلاح دی۔’
فوزے بی جے پی کی حلیف جماعت ناگا پیپلز فرنٹ (این پی ایف) کے رہنما ہیں۔ انہوں نے یہ تبصرہ سنیچر کو دی ہندو سے بات چیت میں کیا۔
منی پور میں 100 سے زیادہ دنوں سے جاری نسلی تصادم میں فوزے کے انتخابی حلقہ میں کافی تشدد ہوا ہے۔ انھوں نے اخبار کو بتایا کہ وہ اپنے ووٹروں اور ہندوستان کے لوگوں کو بتانا چاہتے تھے کہ اس تشدد کو روکاجانا چاہیے اور حکومت حالات کومعمول پر لانے اور امن وامان قائم کرنے کے لیےگمبھیر ہے۔
انہوں نے کہا کہ منی پور میں زیادہ تر متاثرین، بالخصوص کُکی—زو برادری کے، ان کے حلقے سے تھے، ساتھ ہی ان کے انتخابی حلقے میں آنے والے تین دیگر اضلاع کے کچھ حصوں میں میتیئی کے لوگ بھی رہتے تھے۔
فوزے نے کہا کہ وہ جانتے ہیں کہ بنیادی طور پر منی پور کے مسئلے پر عدم اعتماد کی تحریک آنے والی ہے اور وہ اس پر ایوان میں بات کرنا چاہتے تھے۔ ‘میں الگ الگ لوگوں سے بات کر رہا تھا۔ اتحادی گروپ کے میرے دوستوں نے، بالخصوص بی جے پی نے کہا کہ وزیر داخلہ (امت شاہ) منی پور پر بہت کچھ بولیں گے اور اس لیے صلاح ہے کہ آپ نہ بولیں۔’
فوزے نے کہا کہ اس کے بعد انہوں نے باضابطہ طور پر اسپیکر سے بات کرنے کا موقع نہیں مانگا کیونکہ’میں جانتا تھا کہ اگر میں چاہوں تو بھی مجھے ایسا کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی’۔
فوزے نے مزید کہا کہ جب انہوں نے منی پور کے واحد دوسرے لوک سبھا ایم پی–انر منی پور سیٹ سے بی جے پی کے ایم پی آر کے رنجن سنگھ سے اس بات کا تذکرہ کیا،، تو انہوں نے بتایا کہ ’انہیں بھی نہ بولنے کا مشورہ دیا گیا تھا‘۔
آر کے رنجن سنگھ مرکزی حکومت کی وزارت خارجہ میں وزیر مملکت ہیں۔ اخبار کی جانب سے رابطہ کرنے پر ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں ملا۔
فوزے نے مزید کہا،’دراصل چونکہ ہم ہی منی پور کے لوگوں کی نمائندگی کررہے ہیں، ہمیں بولنے کے لیے کہا جانا چاہیے تھا۔ اس سے ہمارےلوگوں میں بھروسہ پیدا ہوتا کیونکہ انتخابات آ رہے ہیں اور ہمارے لوگوں کے لیےیہ جاننا ضروری ہے کہ حکومت منی پور کے لوگوں کے مسائل سے نمٹنے میں گمبھیر ہے۔’
فوزے نے مزید کہا کہ این پی ایف اس اتحاد کو فی الوقت برقرار رکھے گا۔ ‘مختلف سیاسی مجبوریوں کی وجہ سے ہم حکومت کے ساتھ اتحاد میں تھے اور مستقبل کے لیے کوئی بھی فیصلہ پارٹی ہی کر سکتی ہے۔’
ایوان میں منی پور پر وزیر اعظم نریندر مودی کے ریمارکس پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے فوزے نے کہا کہ یہ بہت دیر سے آیا اور اتنا کافی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم نے اپنا زیادہ وقت شمال–مشرقی خطے کی ترقی کے بارے میں بات کرنے اور مختلف سیاسی جماعتوں، ‘خاص طور پر کانگریس’ کے خلاف الزامات لگانے میں صرف کیا اور وہ سمجھتے ہیں کہ یہ باتیں تحریک عدم اعتماد کے لیے اہم ہو سکتی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا، ‘لیکن پوری عدم اعتماد کی تحریک منی پور پر تھی۔ میرے خیال میں انہیں (پی ایم کو) پہلے منی پور پر بات کرنی چاہیے تھی اور پھر منی پور میں امن اور حالات کومعمول پر واپس لانے کے لیے اپنی تجویز یا منصوبے پر کچھ اور وقت دینا چاہیے تھا۔’
فوزے نے یہ بھی کہا، ‘ہم صرف امید کرتے ہیں کہ حکومت لوگوں کی جذباتی ضروریات پر ردعمل ظاہر کرنے میں کچھ زیادہ حساس ہوگی۔ ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ حکومت جلد ہی کچھ ایسا کرے، جو حالات کومعمول پر لائے یا کم از کم تشدد کو روکے۔’
اس سے قبل جولائی میں فوزے نے منی پور کے وزیر اعلیٰ این بیرین سنگھ کی تنقید کرتے کہا تھا کہ وہ عوام کا اعتماد کھو چکے ہیں اور ان کی قیادت میں ریاست میں جاری تشدد کا حل تلاش کرنا ممکن نہیں ہے۔
اپوزیشن نے بنایا نشانہ
پارلیامنٹ میں تحریک عدم اعتماد لانے والے کانگریس کے رکن پارلیامنٹ گورو گگوئی نے سنیچر کو کہا کہ انہوں نے منی پور کے ارکان پارلیامنٹ سے بات کرنے کی گزارش کی تھی، لیکن نریندر مودی اور امت شاہ نے ایسا نہیں ہونے دیا۔
گگوئی نے ٹوئٹر پر لکھا، ‘مجھ سمیت پارلیامنٹ میں سب نے منی پور پر بات کی، لیکن بی جے پی نے منی پور کے دو ایم پی کو بولنے نہیں دیا۔ میں نے لوک سبھا اسپیکر سے منتیں کی تھیں لیکن پی ایم مودی اور وزیر داخلہ شاہ میں اتنا صبروتحمل نہیں تھا کہ وہ دو منٹ کے لیے بھی منی پور کے ایم پی کی بات سن سکتے۔’
मणिपुर से भाजपा सांसद को रिक्वेस्ट करने के बाद भी संसद में बोलने नहीं दिया गया। यह न सिर्फ़ दुर्भाग्यपूर्ण है बल्कि पूरे मणिपुर का अपमान है।
भाजपा की विभाजनकारी राजनीति ने पहले मणिपुर में आग लगाई। जब हिंसा भड़की तब उसे उसके हाल पर छोड़ दिया गया। अभी भी हिंसा जारी है।
ऐसे समय… pic.twitter.com/DJIHpzL46G
— Jairam Ramesh (@Jairam_Ramesh) August 12, 2023
کانگریس کے جنرل سکریٹری جے رام رمیش نے ٹوئٹر پر ایک رپورٹر سے آر کے رنجن سنگھ کی بات چیت کا ویڈیو کلپ شیئر کیا اور لکھا، ‘منی پور کے بی جے پی ایم پی کو درخواست کرنے کے بعد بھی پارلیامنٹ میں بولنے کی اجازت نہیں دی گئی۔’ یہ نہ صرف شرمناک ہے بلکہ پورے منی پور کی توہین ہے۔’
انہوں نے مزید کہا، ‘بی جے پی کی تقسیم کی سیاست نے سب سے پہلے منی پور میں آگ لگائی۔ جب تشدد پھوٹ پڑا، تو اسے اس کی حالت پرچھوڑ دیا گیا۔ اب بھی تشدد جاری ہے۔ ایسے وقت میں منی پور سے اپنے ہی رکن پارلیامنٹ اور وزیر مملکت برائے امور خارجہ کو بولنے سے روکنا بی جے پی کے لیے شرمناک ہے۔’
راجیہ سبھا میں بند کیا گیا تھا میزورم کے ایم پی کا مائیک
قابل ذکر ہے کہ فوزے کے بیان سے پہلے یہ بات سامنے آئی تھی کہ جمعرات کو امت شاہ کے منی پور سے متعلق دعوے پر راجیہ سبھا میں سوال اٹھانے پر میزورم کے ایم پی کے ونلالوینا کا مائیک اسپیکر جگدیپ دھن کھڑکی جانب سے بند کر دیا گیا تھا۔
انڈین ایکسپریس نے بتایا تھا کہ میزو نیشنل فرنٹ کے ایم پی ونلالوینا کا مائیکروفون اس وقت بند کر دیا گیا، جب انہوں نے یہ کہنے کی کوشش کی کہ ‘منی پور میں قبائلی لوگ میانمار سے آئے ہیں’ کہنا غلط ہے۔
میزورم سے راجیہ سبھا کے واحد رکن ونلالوینا بدھ کو مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کی تقریر میں دیے گئے ایک بیان پر بات کر رہے تھے، جہاں شاہ نے منی پور میں ہونے والے تشدد کو میانمار کی مبینہ ‘گھس پیٹھ’ سے جوڑا تھا۔ شاہ نے کہا تھا کہ میانمار میں 2021 میں فوجی بغاوت کے بعد کُکی ڈیموکریٹک فرنٹ نامی تنظیم نے فوجی قیادت کے خلاف لڑائی شروع کر دی تھی اور گھس پیٹھ کی وجہ سےمیتیئی آبادی میں بے چینی پیدا ہوئی۔
ریاست کے تمام کُکی ایم ایل اے نے اس بیان پر برہمی کا اظہار کیا ہے اور شاہ سے کہا ہے کہ وہ مبینہ غیر قانونی دراندازوں کی تفصیلات اور تشدد میں ان کے ملوث ہونے کے ثبوت دیں۔