مہ جبیں کے مطابق اپنی رینک کے حساب سے ایڈمنسٹریٹو اور پولیس سروس سے لےکراپنی پسند کے ہر محکمے میں ان کی تقرری ہو سکتی تھی ،لیکن انہوں نے اپنے شوہر کے محکمہ میں افسر بننا منتخب کیا جس میں وہ پچھلے آٹھ سالوں سے بطور کلرک کام کر رہی تھیں۔
مہ جبیں کی کہانی ایک بار پھر ثابت کرتی ہے کہ ایک عورت کے اندر جدو جہد کا کیسا جذبہ ہوتا ہے اور اگر وہ ایک بار طے کر لے تو اپنا مقام حاصل کر ہی لیتی ہے۔ سال 2008 میں شوہر کی موت کے بعد مہ جبیں کو شوہر کی جگہ پر پٹنہ ضلع کے رجسٹری آفس میں کلرک کی نوکری ملی۔ اس کے بعد انہوں نے تمام در پیش چیلنج کے درمیان اپنے بیٹے کی پرورش کرتے ہوئے بی پی ایس سی کی مین اگزام کی تیاری کی اور پہلی ہی کوشش میں کامیاب رہیں۔
آج مہ جبیں اپنے شوہر کے محکمے میں ہی افسر بن چکی ہیں۔ وہ فی الحال بہار کے ویشالی ضلع کے ہیڈکوارٹر ہاجی پور میں ڈپٹی رجسٹرار ہیں۔گزشتہ سال بی پی ایس سی کی جس 56ویں سے 59ویں مین اگزام میں انہوں نے کامیابی حاصل کی تھی اس میں ان کا اہم موضوع لاء اینڈ سوشل ویلفیئر اور انتھروپالوجی تھا۔ مہ جبیں کے مطابق یہ امتحان ان کے لئے بی پی ایس سی کا پہلا اور آخری امتحان تھا۔ مہ جبیں یوں تو ریزرو کٹیگری سے آتی ہیں لیکن 313 رینک کے ساتھ انہوں نے جنرل کٹیگری میں کامیابی حاصل کی۔
مہ جبیں کے مطابق اپنی رینک کے حساب سے ایڈمنسٹریٹو اور پولیس سروس سے لےکراپنی پسند کے ہر محکمے میں ان کی تقرری ہو سکتی تھی لیکن انہوں نے اپنے شوہر کے محکمہ (رجسٹرار سروس) میں افسر بننا منتخب کیا جس میں وہ پچھلے آٹھ سالوں سے بطور کلرک کام کر رہی تھیں۔
تبادلوں کے درمیان جاری رکھی تیاری
مہ جبیں نے 1994 میں بھاگلپور کے ماؤنٹ کارمیل انگلش میڈیم اسکول سے اپنی اسکولی تعلیم مکمل کی۔اس کے کچھ سالوں بعد انہوں نے 2004 میں فاصلاتی نظام تعلیم سے بیچلر آف فزیوتھراپی کی پڑھائی شروع کی اور اس پڑھائی کے دوران ہی 2005 میں ان کی شادی ہو گئی۔ شادی کے محض تین سالوں بعد ہی 2008 میں ان کے شوہر محمد رضا قدوس کی ایک ٹرین حادثے میں موت ہو گئی جو کہ پٹنہ ضلع کے مسوڑھی میں رجسٹری آفس میں کلرک تھے۔ اس وقت ان کے پاس صرف ایک بیٹا محض 9 مہینے کا تھا۔ اس کے بعد 2009 میں شوہر کے ہی محکمے میں ہی مہ جبیں کو پٹنہ میں ان کی جگہ پر نوکری ہو گئی۔
بیتتے وقت کے ساتھ 2014 میں مہ جبیں کو احساس ہوا کہ ان میں صلاحیت اور اہلیت ہے اور ایسے میں ان کو اور بہتر کیریئر کے لئے کوشش کرنی چاہیے۔ اور پھر انہوں نے بی پی ایس سی کے مین امتحان کی تیاری شروع کی۔ اس دوران ان کی پوسٹنگ آرا میں بھی ہوئی لیکن نئی جگہ کام کرتے ہوئے بھی انہوں نے اپنی تیاری جاری رکھی۔ انہوں نے بیچ بیچ میں چھٹیاں لےکر اپنی تیاری کے لئے ضروری وقت نکالا۔ اپنی تیاری کے دنوں کو یاد کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں؛
میں نے بہت اسٹرگل کیا۔ گھر کی پوری ذمہ داری میرے اوپر تھی پھر بھی میں نے نوکری کرتے ہوئے تیاری کی۔ میرے پرانے شریک کار گواہ ہیں کہ مجھے پانچ منٹ کا بھی ٹائم ملتا تو میں پڑھائی شروع کر دیتی تھی۔
مہ جبیں نے نوکری میں بار بار ہونے والے تبادلوں سے پریشان ہوکر بھی بی پی ایس سی کی تیاری شروع کی تھی۔ وہ کہتی ہیں کہ،
اپنی بوڑھی ماں اور بچے کی ذمہ داری کی وجہ سے وہ تبادلے والی نوکری کرنے کی حالت میں نہیں تھیں۔ مہ جبیں کی جدو جہد اور کامیابی میں ان کی ماں اور بھائی کا بھی اہم رول ہے۔
شوہر کا خواب کیا پورا
اپنی کامیابی کے لئے مہ جبیں اپنے مرحوم والد یاد کرنا نہیں بھولتی ہیں۔ مہ جبیں یاد کرتی ہیں،
جب میں نے میٹرک پاس کیا تب گنی چنی لڑکیاں، خاص طور پر مسلم لڑکیاں، پڑھتی تھیں۔ تب میرے والد نے مجھے انگلش میڈیم اسکول میں پڑھایا۔ آج مجھے لگتا ہے کہ والد نے مجھ پر جو بھروسہ کیا اس کا صلہ میں اپنی کامیابی کے طور پر ان کو دے رہی ہوں۔
قابل ذکر ہے کہ 2007 میں مہ جبیں کے والد کا انتقال ہو گیا تھا۔
مہ جبیں کے مطابق ان کے انگلش میڈیم سے پڑھی ہونے پر مقابلہ جاتی امتحان کی تیاری کروانے والے پنکج یتواری نے بھی حیرانی کا اظہار کیا تھا۔ساتھ ہی بی پی ایس سی میں کامیابی سے ایک طرح سے ان کے شوہر کا خواب بھی پورا ہوا ہے کیونکہ ان کے شوہر دو بار اس امتحان میں پی ٹی سے آگے نہیں بڑھ پائے تھے۔ وہ فخر سے کہتی ہیں،
لوگ آج یہ کہتے ہیں کہ کلرک رضا قدوس کی بیوی ان کے ہی آفس میں رجسٹرار ہے۔ اس سے ان کا بھی نام ہوتا ہے۔
گھر سے الگ اپنے شہر میں ہی ہاسٹل میں رہیں
شوہر کی موت کے بعد مہ جبیں کے مطابق ان کو سسرال سے ہمدردی نہیں ملی۔مدد تو دور مہ جبیں بتاتی ہیں کہ شوہر کی موت کے بعد ملنے والے پیسوں اور نوکری پر اپنا حق جتانے کے لئے سسرال والے اس معاملے کو عدالت تک بھی لےکر گئے تھے۔ اتناہی نہیں مہ جبیں کو ان کے بیٹے سے بھی الگ کرنے کی کوشش کی گئی۔ مہ جبیں کا بیٹا ابھی ان کے ساتھ رہکر ہی پٹنہ کے ایک اسکول میں چوتھی کی پڑھائی کر رہا ہے۔
مہ جبیں کے لئے تیاری کرنا جذباتی طور پر بھی بہت چیلنج بھرا رہا ہے۔ تیاری کے وقت انہوں نے اپنے چھوٹے سے بیٹے کے اپنے کمرے میں داخل ہونے پر پابندی لگا رکھی تھی۔ وہ کہتی ہیں،
میرا بیٹا مجھ سے سوال کرتا تھا کہ ممی تم کو زیادہ پیار مجھ سے ہے یا کتابوں سے؟
اتناہی نہیں مہ جبیں مین امتحان کی تیاری کے لئے اپنے بچےکو اپنی ماں اور بھائی کی ذمہ داری میں چھوڑ کر پٹنہ میں ہی گھر سے الگ ہاسٹل میں رہنے لگیں تھیں۔ ہاسٹل میں وہ تقریباً چار مہینے تک رہیں۔مہ جبیں کو حالانکہ تیاری میں اپنے آفس کے شریک کاروں کا بھی پورا ساتھ ملا مگر وہ بتاتی ہیں کہ مین امتحان میں کامیاب ہونے تک کوئی ان کی تیاری اور لگن کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیتا تھا۔
بطور افسر اپنے مستقبل کے منصوبے کے بارے میں مہ جبیں کہتی ہیں۔میرا محکمہ سیدھے سیدھے عام لوگوں سے روبرو ہوتا ہے۔ میری کوشش ہے کہ لوگوں کو اپنے کام کے لئے ثالث کے پاس نہیں جانا پڑے۔ کام کے لئے ان کو چکر نہیں کاٹنا پڑے۔ میں یہ کوشش بھی کر رہی ہوں کہ لوگ اپنا مسئلہ لےکر میرے پاس آئیں۔ ساتھ ہی میں اپنے ماتحت کام کرنے والوں کو اپنی خدمات دینے کے لئے راغب کر رہی ہوں۔
(منیش شانڈلیہ پٹنہ میں مقیم آزاد صحافی اور مترجم ہیں۔)