اگر راجناتھ سنگھ کو جھوٹ ہی سہی، ساورکر کے معافی نامےکو قابل قبول بنانے کےلیے گاندھی کاسہارا لینا پڑا تو یہ ایک اور بار ساورکر پر گاندھی کی اخلاقی فتح ہے۔ اخلاقی پیمانہ گاندھی ہی رہیں گے، اسی پر کس کر سب کو دیکھا جائےگا۔جب جب ہندوستان اپنی راہ سےبھٹکتا ہے، دنیا کے دوسرے ملک اور رہنماہمیں گاندھی کی یاد دلاتے ہیں۔
‘راجناتھ سنگھ نے کیوں کہا کہ ونایک دامودر ساورکر نے گاندھی کے کہنےپر معافی مانگی؟ اور اسی وقت کیوں کہا؟’،نیوز ریڈرنے پوچھا۔ ان سوالوں کا جواب تو راجناتھ سنگھ ہی دے سکتے تھے، لیکن اس لمحے اس کا جواب صاحب کتاب کو دیناتھا۔
تو اندازہ کرنا ہے راجناتھ سنگھ کےارادے کا۔ اسی وقت کیوں کہا، کسی اور وقت کیوں نہیں، اگر سوال کا مفہوم یہ تھا تو اس کا ایک سیدھا جواب یہ ہے کہ موقع ساورکر پر ایک کتاب کے اجرا کا تھا تو ساورکر پر ہی انہیں کچھ بولنا تھا، اس لیے اس ‘کچھ’ میں وہ یہ بھی بولے۔ لیکن یہ اتنے تک محدود نہیں تھا۔
ہندوستان میں خیالات اور نظریات کی ایک جنگ چل رہی ہے۔قوم /ملک کےتصور کو لےکرجنگ، اپنے ہیروزمنتخب کرنےکی جنگ،آئیڈیل کے انتخاب کی جنگ۔ وہ لمحہ جس میں راجناتھ سنگھ نے یہ کہا، اس جنگ کے بیچ کا ایک لمحہ تھا۔ ساورکر پر کتاب بھی اس جنگ کا ایک ہتھیار ہی تھی۔
نیوز ریڈر کاتجسس لیکن یہی نہیں تھا۔راجناتھ سنگھ نے یہ کیوں کہا کہ گاندھی کے کہنے پر ساورکر نے برطانوی استعمارکو معافی نامہ لکھا تھا، یہ سوال بہت لوگ پوچھ رہے ہیں۔ کیا وہ نہیں جانتے تھے کہ یہ تاریخی سچ نہیں ہے؟ یعنی کیا وہ جانتے تھے کہ وہ جھوٹ بول رہے تھے یا غلط بیانی کر رہے تھے؟
جانکاری کےفقدان میں غلط بول جانا ممکن ہے۔لیکن راجناتھ سنگھ اتنے بزرگ شخص ہیں، اتنی تاریخ تو پڑھی ہی ہوگی۔بالخصوص اپنے آئیڈیل ساورکر کے بارے میں اور اس کے بارے میں جس سے وہ دل سے نفرت کرتے ہیں،لیکن اس دنیاکی وجہ سے جوہندوستان کے باہر کی دنیا ہے، اس نفرت کی جگہ احترام جس کےتئیں اظہار کرتے رہنا پڑتا ہے، یعنی گاندھی، انہیں ان کے بارے میں اتنا پتہ تو ہونا ہی چاہیے تھا کہ وہ جو بولے، وہ نہ بولتے۔
پھر بھی راجناتھ سنگھ جھوٹ کیوں بولے؟ جھوٹ لفط اگر بہت ناگوار لگتا ہے تو پوچھ سکتے ہیں کہ راجناتھ سنگھ نے غلط بیانی کیوں کی۔
اس کا ایک سیدھاساجواب ہے کہ راجناتھ سنگھ یہ جھوٹ اس لیے بولے کہ جھوٹ کے علاوہ راست گوئی کی صلاحیت یا پیش کش یامستعدی ان میں نہیں ہے۔ وہ جس پارٹی یا سنگھ کے ممبریا سیوک ہیں، اس کے لیے جھوٹ ہی فطری ہے۔ کچھ لوگ جھوٹ کوشش کرکے بول پاتے ہے، جھوٹ ان کے بولنے کے انداز سے پکڑا جاتا ہے، لیکن ایسے لوگ ہیں جو بے تحاشہ جھوٹ بولتے ہیں۔
اس سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ جھوٹ ان کے جین میں ہے یا ڈی این اے میں، جیسا کہ آج کل ہر بات پر کہا جاتا ہے۔ جھوٹ کا مسلسل مشق کرتے رہنے سے وہ آسان ہوجاتا ہے۔ صرف ایک معاملے میں جھوٹ بولیں، دوسرے میں سچ، ایسا کرنے سے تذبذب کی حالت ہوتی ہے۔ ہر بات میں جھوٹ کا استعمال جھوٹ کو آپ کی عادت بنا دیتا ہے۔
پھر آپ کی زبان نہیں لٹپٹاتی، آپ بولتے وقت آنکھ نہیں چراتے، آپ کے کان سرخ نہیں ہوتے۔ آپ خوداعتمادی سے جھوٹ بول سکتے ہیں اور سچ بولنےوالوں کے پاؤں اکھاڑ سکتے ہیں۔
ایسےہوشیارجھوٹوں سے ہماری اپنی زندگیوں میں اکثر ملاقات ہوتی ہے۔ وہ کئی بار بےوجہ جھوٹ بول جاتے ہیں۔ بے مقصد۔ پھر ہم حیران ہوتے ہیں کہ آخر اس سے اسے حاصل کیا ہوا۔ لیکن اس کے پیچھے ایک سادہ سی بات ہے۔ جھوٹ کو ایک لمحہ کے لیے بھی چھوڑا نہیں جا سکتا۔ جیسے سچ کی ٹیک ہوتی ہے، جھوٹ کی بھی۔
جھوٹ پریقین کرنا پڑتا ہے، اس کی طاقت اوراقتدار پر۔ اسے پیار کرنا پڑتا ہے۔ جھوٹے لوگ اس لیے جھوٹوں کا سماج بنانا چاہتے ہیں۔ اگر ایک جھوٹا سچوں کے بیچ چلا جائے تو جھوٹ کے آکسیجن کی کمی سے اس کا دم گھٹنے لگتا ہے۔
جھوٹ کےسماج میں بھی خانےہوتے ہیں۔ایک جھوٹ کو بنانے والے،اس کا فعال طور پرمنظم پروپیگنڈہ کرنے والے اور ان کی تعداد بڑی ہے، جو اس جھوٹ میں یقین کرتے ہیں۔ اگر جھوٹ پاپ اور جرم ہے تو دوسرےخانے والوں کا جرم پہلےخانے کے لوگوں سے کم ہے۔
جھوٹ کے پیروکاروں کو روزانہ جھوٹ کی خوراک دیتے رہنی پڑتی ہے۔ یہ ثابت ہو جانے کے بعد کہ وہ جھوٹ ہےاس پر ڈٹے رہنا ہوتا ہے، ڈھٹائی دکھلانی پڑتی ہے۔پیروکاروں کوسمجھانا پڑتا ہے کہ جھوٹ ضروری ہے۔ دھیرے دھیرے جھوٹ پر شرم، جھینپ کی جگہ فخر کا احساس ہونے لگتا ہے۔
پیروکار جانتا ہے کہ رہنما جھوٹ بول رہا ہے لیکن وہ اس بات پر خوش ہوتا ہے کہ وہ کتنی شان سےجھوٹ بول رہا ہے۔ اسے اپنے وجود کے لیے جھوٹ کی ضرورت پڑتی ہے۔
جھوٹ کا ماحول محض ایک جھوٹ سے نہیں بنتا جیسے جنگل صرف ایک طرح کے پیڑ سے نہیں بنتا۔ چھوٹے جھوٹ، بڑے جھوٹ۔ مزیدار جھوٹ، خطرناک جھوٹ۔ جھوٹ کےقسم ہوتے ہیں،تنوع ہوتا ہے ان میں۔
یہ جو تازہ جھوٹ راجناتھ سنگھ نے مشتہر کیا، وہ اتنا خطرناک نہ تھا جتنا وہ جھوٹ تھا جو وزیر داخلہ رہتے ہوئے انہوں نے عمر خالد اور ان کے دوستوں کے بارے میں کہا تھا۔
فروری2016 میں انہوں نے کہا تھا کہ انہیں جانکاری ہے کہ عمر خالد اور اس کےدوستوں کے سرحد پار یعنی پاکستان میں بیٹھےدہشت گردوں سے رشتے ہیں۔ یہ سراسر جھوٹ تھا، لیکن یہ بہت خطرناک جھوٹ تھا۔
ہندوستان کےوزیر داخلہ کےاس ایک جھوٹ نے عمر خالد کو ہمیشہ کے لیےغیرمحفوظ کر دیا۔ آخروزیر داخلہ کے پاس خفیہ جانکاری ہوتی ہے۔ وہ جو بولےگا، کسی ثبوت کی بنیاد پر ہی۔ یہ مان کر اگر کسی نے عمر کو ملک مخالف اور دہشت گرد مان لیا اور ان پر گولی چلا دی تو اس میں جرم راجناتھ سنگھ کے جھوٹ کا ہے۔
لیکن راجناتھ سنگھ کو یہ جھوٹ بولتے ہوئے ذرابھی شرم نہیں آئی۔ وہ یہ جھوٹ اس لیے بولے کہ عمر خالد یا کنہیا جیسےطلباکے خلاف وہ تشدداور نفرت بھڑکانا چاہتے تھے۔ کوئی پوچھتا تو کہتے میرا جھوٹ بولنا ضروری تھا۔ اصل بات تھی ان طلبا کے خلاف نفرت اورتشددبھڑکانا۔ اس کے لیےجھوٹ بولنا پڑا تو کیا غلط کیا؟
اس لیے جو لوگ راجناتھ سنگھ کی مربی تنظیم اور اس کی سیاسی پارٹی کو جانتے ہیں، جس کے راجناتھ سنگھ رکن ہیں، انہیں ان کی تازہ ترین دروغ گوئی پر کوئی حیرانی نہیں ہوئی۔ اس سنگھ کی شاکھاؤں میں، اس کے دانشوروں میں،مطبوعات میں لگاتار دروغ گوئی کی مشق کروائی جاتی ہے۔
یہ اس لیے کہ ان دونوں ہی تنظیموں کی بنیادجھوٹ پرہے۔ اس بڑے جھوٹ پر جو عمارت تعمیر کی گئی ہے، وہ بھی جھوٹ کی اینٹوں سے بنی ہے۔ جو بنیادی جھوٹ ہے، وہ یہ کہ ہندو دنیا کا سب سے اچھا مذہب ہے اور ہندوستان پر پہلا حق ہندوؤں کا ہے۔
اس میں یہ جھوٹ جوڑ لیں کہ ہندوؤں کا مفاد غیر ہندوؤں سے الگ ہی نہیں ہے، بلکہ غیر ہندوؤں کے مفادمیں ہندوؤں کامفاد نہیں ہے۔ ساورکر اس جھوٹ کے موجد ہیں اور ساورکروادی اور سویم سیوک راجناتھ سنگھ اس بنیادی جھوٹ کے محافظ اور پروپیگنڈہ کرنے والوں میں سے ایک ہیں ۔
کچھ لوگ کہہ سکتے ہیں،یہ جھوٹ نہیں نظریہ ہے۔ لیکن نظریہ کی بنیادی تعریف بھی یہی ہے، نظریہ جو انگریزی کی آئیڈیالوجی کا ترجمہ ہے۔ وہ آپ کوسچ کو دیکھنے سے روک دیتی ہے۔
تو ہم صدیوں کے اس سچ کو نظر انداز کرتے ہیں کہ ہندو مسلمان ایک ساتھ رہتے آئے ہیں کہ دونوں میں بہت کچھ مشترک ہے اور مذہب الگ ہونے کے باوجود دونوں کے دنیاوی مفادمختلف اور ایک دوسرے کے خلاف نہیں ہیں۔
ایک کے بھلے کا مطلب دوسرے کا برا نہیں ہے۔ ہندو ایک طرح کے نہیں اور مسلمان بھی ایک طرح کے نہیں۔ یہ تاریخ کی سچائی بھی ہے اور ہماری آج کی زندگی کی بھی۔ لیکن چونکہ ہم ایک‘جھوٹ’یا نظریے میں یقین کرتے ہیں، اس آنکھ کے آگے کے سچ کو ماننے سے انکار کر دیتے ہیں۔
اس نظریے کےتحفظ کے لیے جھوٹ کی تخلیق کرتے رہنا پڑتی ہے۔ ان کے بنا مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف نفرت اور تشدد کا پروپیگنڈہ ممکن نہیں ہوگا۔
اس واقعہ سے آگے بڑھ کر اس پر غور کریں کہ ساورکر کے معافی نامے کو صحیح ٹھہرانے کے لیے گاندھی کا سہارا کیوں لینا پڑا۔ ساورکر اور گاندھی کے ملک، اجتماعی زندگی اورذاتی سلوک کے بارے میں خیالات برعکس ہیں۔
آخر اتنے برسوں سے راجناتھ سنگھ جیسے لوگ یہی کہتے آئے ہیں کہ ساورکر کانظریہ اعلیٰ ترین ہے، ہندوستان کےلیے وہی فلاحی نظریہ ہے اور ہندوستان نے گاندھی کی بات مان کر غلطی کر دی ہے۔ یہ بھی کہ سیکولر ازم ہندوستان کے لیےمضر ہے، عدم تشدد نے ہندوؤں کا بڑا نقصان کیا اور انہیں نامرد بنا دیا۔
پھر آج گاندھی کے سہارے ساورکر کو صحیح ٹھہرانے کی اس کوشش کو کیسےسمجھیں؟ اس کا مطلب یہی ہوا کہ ہندوستان کااخلاقی معیار ابھی بھی گاندھی ہی ہیں۔عام طور پر کسی ناقابل قبول فیصلے کو اخلاقی طور پر درست بنانے کے لیے گاندھی کی شہادت دی جاتی ہے۔
ایک طریقہ کے طور پر ،تاہم یہ ناقص ہے۔گاندھی نے کہا یا بدھ نے کہا اس لیے کوئی بات ٹھیک ہے، اس کی جگہ کوئی اور دلیل کا طریقہ تلاش کرنا چاہیے ۔معافی نامے کوصحیح تھا یاغلط یہ بحث گاندھی نے کہا تھا، اس بات سے اگر ختم ہو جائے تو آر ایس ایس کو اپنا کاروبار بند کر دینا چاہیے۔
بتلانایہ پڑےگا کہ آخر وہ کون سے اخلاقی دلائل ہیں جن کی بنیاد پر معافی نامہ ٹھیک تھا، کون سے سیاسی دلائل اورحکمت عملی ہیں جو اسے صحیح ٹھہراتے ہیں۔ یہ نہیں کہ چونکہ گاندھی نے کہا تھا، اب یہ بحث بند کر دینی چاہیے۔
خود گاندھی نے اس طریقہ سے انکار کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ چھواچھوت شاسترمیں نہیں ہے۔ لیکن آگے یہ کہا کہ اگر شاستر اس کی حمایت کریں تو وہ شاستر کو نہیں مانیں گے۔ تو معاملہ قدروں پر اٹک جاتا ہے۔ آپ کے اقدار کیا ہیں، اس سے آپ کے عقائد کا تعین ہوتا ہے۔
بدھ نے کہا تھا، مارکس نے کہا تھا، رامائن میں لکھا ہے، اس لیے یہ بات ٹھیک ہے، یہ احمقانہ دلیل یا طریقہ ہے۔ اس سے بڑھ کرکندذہنی ہے۔
پھر بھی اگر راجناتھ سنگھ کو جھوٹ ہی سہی، ساورکر کے معافی نامے کو قابل قبول بنانے کے لیے گاندھی کی چھتری لینی پڑی تو یہ ایک اور بار ساورکر پر گاندھی کی اخلاقی فتح ہے۔ اخلاقی پیمانہ گاندھی ہی رہیں گے، اسی پر کس کر سب کو دیکھا جائےگا۔ گاندھی کے آگے سنگھ کی یہ اخلاقی شکست گاندھی کے خلاف نفرت کو اور گہرا کرتی جاتی ہے۔ کھلے عام اسی کے آگے سر جھکانا، جسے گولی مار دی تھی یا جس کے قتل کا جشن منایا تھا، اس کے خلاف نفرت ہی پیدا کرتا ہے۔
اخلاقی معیارگاندھی ہیں، اس کی یاد دنیا ہندوستان کو دلاتی رہتی ہے۔ جب جب ہندوستان بھٹکتا ہے، دنیا کے دوسرےملک اور رہنما ہمیں گاندھی کی یاد دلاتے ہیں۔ 7 سال پہلے امریکہ کے صدر براک اوباما نے ہندوستان کےوزیراعظم کو گاندھی کی دکھلائی راہ سے الگ جانے پر جھڑکی دی اور ابھی پھر امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے پھر ہندوستان کے اسی وزیر اعظم کو گاندھی کے قدروں کی یاد دلائی۔
لیکن یہ بھی دلچسپ ہے کہ اس واقعہ میں گاندھی کا سہارا لینے پر بھی راجناتھ سنگھ کو معلوم ہے کہ ان کے پیروکاراصلی بات سمجھ رہے ہوں گے۔ انہیں پتہ ہے کہ اس سے ان کے پیروکاروں میں گاندھی کا احترام نہیں ہوگا۔
اصلی بات ہے جھوٹ بول کر کسی طرح بچ نکلنا اور آگے کے لیے جگہ بنانا۔
گاندھی کا سہارا لینے کی مجبوری تو وہ سمجھتے ہی ہوں گے۔ ایک دن آئےگا جب ہم اس سے چھٹکارا پا لیں گے، لیکن تب تک رہنماکی مجبوری کو سمجھنا تو پڑےگا۔
پیروکارسمجھتا ہے۔ جیسےآئین کےحلف لینے کی مجبوری وہ سمجھتا ہے۔پارلیامنٹ کی سیڑھی پر متھا ٹیکنے کی مجبوری وہ سمجھتا ہے۔
سر جھکاکر ہی اس کوقتل کیا جا سکتا ہے۔گاندھی کو پرنام کرکے ہی گولی ماری گئی۔ نظریاتی گاندھی کو بھی ویسے ہی مار ڈالا جائےگا، یہ یقین دہانی رہنماکی طرف سےاپنے پیروکاروں کو ہے اور اسے بھی اس کا یقین ہے۔
(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)