مہاراشٹر کے ایک اسکول نےغیر متوقع قدم اٹھاتے ہوئے بچوں کو ‘شمشان بھومی’ کی سیر کرائی۔ اس سیر کا مقصد سماج میں شمشان کو لےکرپھیلی تمام غلط فہمیوں کو مٹاتے ہوئے بچوں میں سائنسی نظریہ پیدا کرنا تھا۔
(علامتی فوٹو : وامیکا سنگھ)
بچوں کے اسکول کی پکنک یا ان کی سیر کسی تاریخی مقام پر یا کسی ہل اسٹیشن پر یا سمندر کنارے کسی مشہور جگہ پر جاتی رہتی ہے، اس بات سے ہرایک واقف ہے، لیکن اگر کوئی اسکول اپنے بچوں کو شمشان بھومی کی سیر کرائے تو آپ کیا کہیںگے؟دراصل گزشتہ دنوں صوبہ مہاراشٹر کے سولاپور ضلع کا ایک چھوٹا اسکول اسی وجہ سے اخباروں کی سرخیوں میں تھا، جب پتہ چلا کہ اسکول کے منتظمین نے طالب علموں کو اپنے شہر کے
موکش بھومی کی سیر کرائی اور ان کے ذہن میں اٹھتے تمام سوالوں کےجواب دیے۔
خصوصاً محروم طبقوں کے طالب علموں کے لئے چل رہے اس اسکول کے بچوں کی اس الگ قسم کی پکنک ‘ میں مقامی سماجی کارکنان نے بھی بھرپور تعاون دیا۔دراصل اس سیر کا مقصد بچوں میں سائنسی نظریہ پیدا کرنا تھا۔معلوم ہو کہ سماج میں شمشان کو لےکر طرح طرح کی غلط فہمیاں موجودرہتی ہیں۔ انسان کی ہڈیوں میں موجود فاسفورس کی وجہ سے وہاں پڑی لاشوں میں اچانک آگ لگنے کا عجیب و غریب واقعہ سامنے آتا ہے، جس سے ایسی غلط فہمیوں کومضبوطی ملتی ہے۔ اور بھوت-پریت کی تمام کہانیاں بھی انسانوں کے ذہن کو اس قدر ڈرسے بھر دیتی ہیں کہ ان تمام معاملوں میں معروضی تجزیہ بھی نہیں ہو پاتا۔
بچپن سے ہی ڈرکے یہ سنسکار بچوں کے ذہن میں بٹھا دیے جاتے ہیں۔اپنے گھر میں کسی کی اچانک موت بھی ان کو اندر سے بےچین کردیتی ہے۔ انہیں مسائل کو حل کرنے کے لئے اس کا انعقاد ہوا۔یہ ایک مثبت قدم ہے کہ سنیہگرام پرکلپ کے تحت اس اسکول کے اس قدم کی تعریف ہو رہی ہے اور علاقے کے دیگر اسکول بھی اس کے بارے میں سوچتےدکھائی دے رہے ہیں۔
ویسے شمشان بھومی کی ایسی’سیر’ کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے، بھلےہی اس سیر میں بچے نہیں بلکہ بزرگ شامل رہے ہوں۔مثال کے طور پر ڈیڑھ سال پہلے آندھر پردیش کے مغربی گوداوری ضلع کےپلاکولے اسمبلی سے منتخب تیلگودیشم کے ایم ایل اے نملا راما نائیڈو اپنی ایسی کارروائی سے قومی سرخیوں میں آئے، جب انہوں نے مزدوروں میں پھیلےبھوت-پریت کے ڈر کو دور کرنے کے لئے یہ انوکھا قدم اٹھایا۔
اپنی چارپائی لےکر وہ ایک شام شمشان میں سونے چلے گئے اور اس بات کا بھی اعلان کر دیا کہ وہ اگلے کچھ دنوں تک یہی کرنے والے ہیں۔دراصل حکومت کے ذریعے اس شمشان کی جدیدکاری کے لئے رقم مختص ہونےپر سب سے بڑی رکاوٹ یہ آئی کہ اس کام کے لئے کوئی ٹھیکیدار نہیں تیار ہوا اور جب آخرکار تیار ہوا تو شمشان میں ادھ جلی لاش کو دیکھکر مزدوروں نے وہاں لوٹنے کا نام ہی نہیں لیا۔
اسی طرح ہم یاد کر سکتے ہیں کہ کرناٹک میں جن دنوں کانگریس کی حکومت تھی اور سدھارمیا وزیراعلیٰ تھے، تب ان دنوں بھوت-پریت کے ‘وجود’ یاان کے ‘تغیرات’ کو لےکر سماج میں موجود غلط فہمیوں کو چیلنج دینے کے لئے کرناٹک کے بیلاگاوی سٹی کارپوریشن کے تحت آتے ویکنٹھ دھام شمشان میں کرناٹک کے وزیرایکسائز ستیش جرکیہولی نے سینکڑوں لوگوں کے ساتھ رات گزاری تھی اور وہاں کھانا بھی کھایا تھا۔
یاد رہے کہ مہاراشٹر کی طرز پر کرناٹک اسمبلی میں ضعیف الا عتقادی مخالف بل لانے میں بےحد فعال رہے وزیر دراصل لوگوں کے ذہن میں موجود اس متھ کو دور کرنا چاہتے تھے کہ ایسے مقامات پر ‘ بھوت نواس’ کرتے ہیں۔ اس بل کا مسودہ بھی بنایا گیا تھا، مگر مختلف قسم کی قدامت پسند طاقتوں کی مخالفت کی وجہ سے اس کی بھی مخالفت ہوتی رہی تھی۔
مہاراشٹر کے اسکول کے منتظمین کے انوکھے قدم پر غور کریں یا آندھرپردیش اور کرناٹک کے سیاستدانوں کی ایسی سرگرمیوں کو دیکھیں جس کے تحت انہوں نےہندوستان کے آئین کی دفعہ 51 اے-جو انسانیت اور سائنسی غوروفکر کو بڑھاوا دینے میں حکومت کے پرعزم رہنے کی بات کرتی ہے-اس کی حفاظت میں قدم اٹھایا، یقیناً حوصلہ جگاتی ہے۔
کیونکہ یہ ایسی آوازیں ہیں جو آئین کے اصولوں کو عملی جامہ پہنانےکے لئے بےحد نامناسب وقت میں کوشاں ہیں۔دراصل یہ ایک ایسا وقت ہے جب کسی ریاست میں بارش کے لئے کسی وزیرکے ذریعے ‘ مینڈکوں کی شادی ‘ کرانے جیسے عظیم کارنامے انجام دیے جا رہے ہوں یا ملک کی اسمبلیوں میں ممبروں کی’بے وقت موت ‘ کے نام پر ‘ آسیب کی بحث ‘ میں ممبر مبتلاہو جاتے ہوں۔
کسی دیگر ریاست کے وزیر کے ایسے ویڈیو وائرل ہوتے ہوں کہ وہ ‘جھاڑ-پھونک کرنے والوں ‘ کے ‘ اعزازیہ تقریب’ کو آراستہ کر رہے ہیں یا اسی طرح کی خرافات کوٹھیک کرنے کے نام پر سرکاری خزانے سے کروڑوں روپے لگاکر حکمراں لوگ اپنے دفتروں /رہائش گاہوں میں تبدیلیاں کرتے دکھتے ہیں۔کوئی بھی یہ کہہ سکتا ہے کہ ہندوستان کو اگر 21ویں صدی میں اقتصادی پاور بننا ہے تو اس کو یقیناً وسیع سطح پر عوام میں تبدیلی لانی ہوگی۔ اس معاملےمیں لمبے وقت سے کوشاں ‘اندھشردھا نرمولن سمیتی’ نے تو ایک نئی زمین ہی توڑی ہیں۔
کمیٹی نے تو باقاعدہ سال 2015 میں دیوالی کے موقع پر اماوس کی
پوری رات شمشان میں مشاعرہ منعقد کرکے اس معاملے میں ایک الگ راہ دکھائی ہے۔ پونےکے نواحی شہر بوپوڈی کی شمشان بھومی کا احاطہ اس رات الگ ڈھنگ کے پروگرام کا گواہ بنا تھا۔تب انڈین ایکسپریس نے لکھا تھا کہ ادھر شہر میں لوگ دیوالی منارہے تھے اور وہاں سینکڑوں کی تعداد میں جمع لوگوں کے درمیان نظمیں پڑھی جا رہی تھیں، ایک نظم کےمجموعہ کا اجرا بھی ہو رہا تھا، کچھ ثقافتی گروپ بھی بیچ بیچ میں اپنی پیشکش دے رہے تھے۔’
اماوسیا کی پوتر رات میں شمشان میں کوی سمیلن’ کے عنوان سے منعقد اس پروگرام کے ناظم اعلیٰ تھے مہاراشٹر اندھشردھانرمولن سمیتی-جس کی تعمیر میں شہید مفکر ڈاکٹر نریندر دابھولکر نے پہل کی تھی،سدھارتھ سنگھ اور سدھارتھ مہیلا سنگھ۔ کمیٹی کے ممبروں کے ذریعے گایا ایک گیت کافی مشہور ہوا، جس کے بول تھے ‘ بو رہے ہیں ہم پرکاش بیج ‘