مہاراشٹر میں کوروناانفیکشن کے بڑھتے معاملوں کے بیچ لگاتار گھر گھر جاکر سروے کرنے والی آشا کارکن مطلوبہ تعداد میں حفاظتی آلات نہ ملنے کی وجہ سے اپنی صحت کو لےکر فکرمند ہیں۔ ایک کارکن نے بتایا کہ انہیں دو مہینے پہلے ایک ایک پی پی ای کٹ دی گئی تھی، جس کو وہ دھوکر دوبارہ استعمال کر رہی ہیں۔
نئی دہلی :مہاراشٹر کے جلگاؤں کے منگرل گاؤں میں مارچ مہینے سے ہی تسلیم شدہ سماجی صحت کارکن(آشا)سواتی پاٹل گھر گھر جاکر سروے کے کام میں مصروف ہیں۔ اس دوران انہیں کورونا سے تحفظ کے نام پر صرف کاٹن کا ایک ماسک دیا گیا ہے۔انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، وہ لاک ڈاؤن کے دوران گھر لوٹ چکے مہاجر مزدوروں اور بزرگ شہریوں کا ریکارڈ تیار کرنے میں مصروف ہیں کہ کہیں ان میں بخار، کھانسی، شوگر اور ہائپرٹینشن کےعلامات تو نہیں ہیں۔
آشا کارکن سواتی کو اس کووڈ 19 سروے کے ایک دن کے 33 روپے ملتے ہیں یعنی ایک دن میں 60 سے 70 گھر کور کرنے کے لحاظ سے انہیں ایک گھر کا پچاس پیسے محنتانہ ملتا ہے۔سواتی کہتی ہیں،‘ابھی تک ہمارے گاؤں میں کورونا کا کوئی معاملہ سامنے نہیں آیا ہے لیکن پاس کے پرولا میں کئی معاملے ہیں۔ میں نے کئی گھروں کا دورہ کیا ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ ایک دن مجھے بھی کورونا ہو جائےگا۔’
ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفس کی جانب سے مارچ میں انہیں ایک لیٹر سینٹائزر دیا گیا تھا، جو اب ختم ہو گیا ہے۔سواتی کی طرح ایسی کئی آشا کارکن ہیں، جو کورونا کے بیچ لگاتار گھر گھر جاکر سروے کرنے کی وجہ سےاپنی صحت کو لےکر فکرمند ہیں کیونکہ انہیں مطلوبہ تعداد میں حفاظتی آلات مہیا نہیں کرائے گئے ہیں۔
سولاپور میں سات آشا کارکن کورونا سے متاثر پائی گئی ہیں، جن میں سے ایک ایک ستارا اور رتناگری سے ہیں۔ان میں سے کچھ کو صرف ماسک، کچھ کو دستانے اور ماسک اور میونسپل حلقے میں سروے کر رہی کچھ ہی کارکنوں کو پی پی ای کٹ مہیا کرائے گئے ہیں۔سولاپور کی ایک آشا کارکن پشپا مانے کا کہنا ہے کہ ضلع میں گزشتہ ہفتہ عشرے سے کنٹنمنٹ زون بڑھے ہیں، جس سے میڈیکل پیشہ وروں کے لیے خطرہ بڑھ گیاہے۔
پشپا نے کہا، ‘آشا کارکن کنٹنمنٹ زون میں ہی رہتے ہیں اور وہاں کام کرتے ہیں۔ 10 دن پہلے سات لوگ کوروناسے متاثر پائے گئے۔’وہ کہتی ہیں،‘آشا کارکنوں کو دو مہینے پہلے ایک ایک پی پی ای کٹ دی گئی تھی۔ ہم پی پی ای کٹ کو ہر دوپہر دھوتے ہیں اور اگلے دن دوبارہ استعمال کرتے ہیں۔ میں گزشتہ دو مہینوں سے ایک ہی کٹ استعمال کر رہی ہوں۔ یہ ہماری حفاظت کیسے کرےگا؟’
مہاجر مزدوروں کے لوٹنے کے ساتھ ہی دیہی علاقوں میں کووڈ 19 کے معاملے بڑھے ہیں۔ ریاستی حکومت نے مزدوروں کی اسکریننگ اور جن میں علامت ہے، انہیں کورنٹائن سینٹرس ریفر کرنے کے لیے آشا کارکنوں کو تعینات کیا ہے۔کولہاپور کی ایک آشا کارکن نیتردیپا پاٹل کہتی ہیں،‘ہم مہاجروں سے ان کے گھر پر ملنے والے پہلے لوگ ہوتے ہیں۔ سرکار نے ہمیں ان سے دوری بنائے رکھنے کو کہا ہے۔ اس کے علاوہ ہمیں کسی طرح کی ٹریننگ نہیں دی گئی۔’
نیتردیپا کہتی ہیں کہ آشا کارکنوں پر مقامی لوگوں نے چار بار حملہ کیا ہے۔ جب آشا کارکن یہ پوچھنے جاتے ہیں کہ کیا کوئی مہاجر ریڈ زون سے یہاں لوٹا ہے اور کیا انہیں ہوم کورنٹائن کیا گیا ہے تو وہ الٹا ہم پر ہی حملہ کرتے ہیں۔وہ کہتی ہیں،‘ہم نے پولیس میں بھی شکایت درج کرائی ہے۔ ہم ڈر کے سائے میں کام کر رہے ہیں۔’
کورونا وائرس سے نپٹنے کے دوران اگر کسی اگلےمورچے پر تعینات اسٹاف کی موت ہو جاتی ہے تو اس کے لیے مرکزی حکومت نے پچاس لاکھ روپے کے صحت بیمہ کا اعلان کیا تھا۔آل انڈیا ٹریڈ یونین کانگریس(اےآئی ٹی یوسی)کی ریاستی اکائی کے صدر راجو دیسلے کہتے ہیں،‘آشا کارکنوں کو پچاس لاکھ روپے سے کہیں زیادہ کی ضرورت ہے۔ انہیں بہ مشکل ہی دستانےدیے جاتے ہیں، ان میں سے کئی کو ابھی تک ملے بھی نہیں ہیں۔’
ڈائریکٹوریٹ آف ہیلتھ سروس میں ایڈیشنل ڈائریکٹرڈاکٹر ارچنا پاٹل کہتی ہیں، ‘آشا کارکنوں کی سیدھے طور پر کورنٹائن یا کووڈ 19 وارڈ میں تعیناتی نہیں ہے اس لیے انہیں این 95 ماسک کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کی حفاظت کے لیے صرف کاٹن ماسک ہی کافی ہے۔’سانگلی میں ایک آشا کارکن سورنا پاٹل کہتی ہیں، ‘ہماری فیملی کو ہماری وجہ سے خطرہ ہے۔ سرکار ہمارے روزانہ گھر سے باہر نکلنے اور جوکھم اٹھانے کے لیے جو مالی ا مداد دے رہی ہے وہ کافی نہیں ہے۔’
سورنا کہتی ہیں،‘دیہی علاقے میں ہر میڈیکل پیشہ وروں کی ہم سے امیدیں ہیں۔ ہم 10 گھنٹے کام کرتے ہیں۔ ہمیں حاملہ خواتین اور نوزائیدوں کی بھی دیکھ بھال کرنی ہوتی ہے۔’