سی بی آئی کےسابق ڈائریکٹرایم ناگیشور راؤ فائر سروس،سول ڈیفنس اینڈ ہوم گارڈ کے ڈائریکٹر جنرل ہیں۔ گزشتہ سنیچرکوانہوں نے ٹوئٹر پر کہا کہ آزادی کے بعد کے30 سالوں میں سرکار نے لیفٹ اور اقلیتوں کے مفادوالے اسکالر اور اکیڈمک دنیا کے لوگوں کو بڑھنے دیا اور ہندو نیشنلسٹ اسکالروں کو سائیڈلائن کیا گیا۔
ایم ناگیشور راؤ/ فوٹو: بہ شکریہ فیس بک
نئی دہلی: سی بی آئی کے سابق ڈائریکٹراور ورکنگ آئی پی ایس افسرایم ناگیشور راؤ نے دعویٰ کیا ہے کہ ‘خونی اسلامی حملے/سلطنت’ کے بارے میں لیپا پوتی کر کےہندوستانی تاریخ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے۔اس کے لیے راؤ نے آزادی کے بعدتقریباً30 سالوں میں سے 20 سالوں کے لیےبنائے گئے وزرائے تعلیم کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔
اس سلسلے میں انہوں نے مولانا ابوالکلام آزاد 11 سال (1947-58،ہمایوں کبیر، ایم سی چھاگلااورفخرالدین علی احمد 4 سال (1963-67)اور نورالحسن 5 سال (1972-77) کاذکر کیا۔انہوں نے مزید کہا کہ اس کے علاوہ باقی کے 10 سال وی کےآروی راؤ جیسے‘لیفٹسٹ’ نے ہندوستانیوں کے ذہن پر راج کیا۔
وی کے آروی راؤ تمل ناڈو کے ایک مشہوراکانومسٹ تھے، جنہوں نے انڈین کونسل آف سوشل سائنس ریسرچ کے قیام میں اہم رول نبھایا۔راؤ دہلی یونیورسٹی کے وی سی بنے،پلاننگ کمیشن کے ممبر رہے اور 1969 سے 1971 کے بیچ وزیر تعلیم بنے تھے۔ناگیشور راؤ نے پچھلےسنیچر کو ٹوئٹ کرکے کہا،‘یہ لوگ ہندوتہذیب کوکمتردکھانے، ہندو دھرم کو گالی دینے وغیرہ کے لیے ذمہ دار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان لوگوں نے تاریخ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی اور خونی اسلامی راج کی لیپا پوتی کر دی۔’
اس کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دہلی کے روڈ اور مقامات کا نام دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ دہلی کو حملہ آوروں نے بنایاتھا۔ کہیں بھی کرشن یا پانڈو کے نام نہیں ہیں، جو دہلی کے اصل بانی تھے۔انہوں نے کہا کہ ان لوگوں کے دور میں سرکار نے لیفٹ اور اقلیتوں کے مفادوالے اسکالر اور اکیڈمک دنیا کے لوگوں کو ہی بڑھنے دیا اور ہندونیشنلسٹ اسکالروں کو سائیڈلائن کر دیا گیا۔
معلوم ہو کہ راؤ وزارت داخلہ کے فائرسروس،سول ڈیفنس اینڈہوم گارڈ کے
ڈائریکٹرجنرل ہیں اور 31 جولائی کو ریٹائر ہونے والے ہیں۔آئی پی ایس افسروں کے لیےسروس رول میں کہا گیا ہے کہ وہ صرف سائنسی ،ثقافتی اور ادبی مقاصدے لیےمضمون لکھ سکتے ہیں اور اس میں انہیں یہ صاف کرنا ہوگا کہ یہ ان کے ذاتی خیالات ہیں۔
ناگیشور راؤ کا مدت کار کافی متنازعہ رہا ہے۔سی بی آئی کے سابق ڈائریکٹر آلوک ورما اور اسپیشل ڈائریکٹر راکیش استھانا کے بیچ چھڑے تنازعہ کے بیچ راؤ کو 23 اکتوبر 2018 کو سی بی آئی کا
عبوری ڈائریکٹر بنایا گیا تھا۔اس عہدےکو سنبھالتے ہی راؤنے 100 سے
زیادہ ٹرانسفر کے آرڈر دیے، جس میں ہائی پروفائل آئی سی آئی سی بینک لون کیس معاملے کو دیکھ رہے جانچ افسر کا بھی تبادلہ کر دیا گیا۔
راؤ پر ہندوتوا سے متاثر کا ہونے کا باربار الزام لگتا رہا ہے اور ان کی بیوی پر کولکاتہ کی ایک ٹریڈنگ کمپنی کے ساتھ مل کر پیسے کا ہیر پھیر کرنے کا بھی الزام ہے۔راؤ نے اپنے حالیہ ٹوئٹ میں یہ بھی کہا کہ 1980کی دہائی دوبارہ ہندوکرن کا دور تھا جہاں 1986 میں رام جنم بھومی کے دروازے کھولے گئے، 1987-88 کے بیچ رامانند ساگر کا رامائن سیریل نشرہوا اور 1988-89 کے بیچ لو کش ٹی وی سیریل آیا۔
انہوں نے کہا کہ 117 ہفتے تک ان دو سیریل کے نشریات کی وجہ سے ہندو جذبات بیدار ہوئےاور بڑے پیمانے پر ہندو سماج کا ہندوکرن ہوا۔راؤ نے کہا، ‘آر ایس ایس اور وشو ہندو پریشد کی انتھک محنت کی وجہ سے ہندو سماج کاپولرائزیشن ہوا، جس کی وجہ سے بی جے پی کی ترقی میں اچانک اضافہ ہوا۔’
انہوں نے کہا کہ اس کے بعد 1990 کی دہائی میں پھر سے ہندو مخالف چیزوں کی شروعات ہوئی اور ہندومخالف لوگوں نے ہر سطح سے اس کوشش کو اور تیز کیا۔راؤ نے الزام لگایا کہ اس کی شروعات این سی آرٹی کے نصاب سے ہوئی جہاں پر ‘سینٹرل اسلامک لینڈس’، ‘اسلامک ٹریڈشن’ اور ‘مغل کورٹس’جیسے اسباق دستیاب ہیں۔
آئی پی ایس افسرنے کہا کہ اس معاملے میں سنیما ایک قدم اور آگے نکل گیا اور اس پورے آرٹ کا عیسائی-اسلامائزیشن ہو گیا۔ راؤ نے دعویٰ کہ آج کل فلموں میں شاید ہی کوئی ہندو چہرہ دکھتا ہو، لیکن عیسائی-اسلامی گانے اورمناظر دونوں کی بہتات ہے، بھلے ہی کہانی اورکردار ہندو ہوں۔
جنوری میں راؤ نے آر ایس ایس کے ماؤتھ پیس آرگنائزر کے لیے ایک مضمون لکھا تھا، جس میں انہوں نے ہندوستان میں غیر سرکاری تنظیموں کے لیے غیرملکی پیسے پر مکمل پابندی لگانے کی دلیل دی تھی۔