اتر پردیش کے کشی نگر ضلع کا معاملہ۔لڑکے نے پولیس پر پٹائی کا الزام لگایا ہے۔ یہ بھی الزام ہے کہ پولیس نے لڑکے-لڑکی کو تب تک حراست میں رکھا جب تک کہ لڑکی کے بھائی نےثبوت دیتے ہوئے یہ نہیں بتایا دیا کہ دونوں پیدائش سے مسلمان ہیں اور مذہب تبدیل نہیں ہوا ہے۔
(علامتی تصویر، فوٹو: رائٹرس)
نئی دہلی: اتر پردیش کے متنازعہ اینٹی تبدیلی مذہب قانون کے غلط استعمال کی تازہ مثال کے طورپرپولیس نے گزشتہ آٹھ دسمبر کو ‘لو جہاد’کی افواہوں کی بنیادپر ایک مسلم لڑکے- لڑکی کو شادی کرنے سے روک دیا۔ معاملہ اتر پردیش کے کشی نگر ضلع کے کسیا قصبے کا ہے۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، 39 سالہ حیدر علی نے الزام لگایا ہے کہ پولیس نے انہیں پیٹا، ہراسا ں کیا اور رات بھر حراست میں رکھا۔کشی نگر کی پولیس کو مبینہ طور پر ایک فون آیا، جس میں کہا گیا کہ ایک مسلم لڑکا ہندو لڑکی سے مذہب تبدیل کرواکر شادی کر رہا ہے۔ اس بنیاد پر پولیس نے شادی رکوا دی اور لڑکے لڑکی کو رات بھر تھانے میں بند رکھا۔
ضلع کے کسیا پولیس اسٹیشن کے ایس ایچ او سنجے کمار نے بتایا کہ کچھ ‘بدمعاشوں’کی وجہ سے ایسا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پولیس کو جیسے ہی پتہ چلا کہ وہ ایک ہی مذہب کے ہیں، انہیں چھوڑ دیا گیا۔
بعد میں اعظم گڑھ ضلع کے رہنے والے لڑکی کے بھائی نے جب صاف کیا کہ اہل خانہ کو شادی سے کوئی اعتراض نہیں ہے، تب جاکر اگلے دن نو دسمبر کو شادی ہو پائی۔ جبکہ ہندوستان میں ایسا کوئی قانون نہیں ہے جو کہتا ہو کہ کوئی اپنے والدین کی رضامندی کے بنا شادی نہیں کر سکتا ہے۔
پولیس نے علی کو ہراساں کرنے کےالزامات کو خارج کیا ہے۔ کشی نگر کے ایس پی ونود کمار سنگھ نے اخبار کو بتایا، ‘ایسا نہیں تھا کہ لڑکے لڑکی کو خفیہ طریقے سے پولیس اسٹیشن لایا گیا تھا۔ معاملے کو جلد ہی رفع دفع کر دیا گیا۔ کسی کو پیٹنے کی کوئی وجہ نہیں بنتی ہے۔’
حیدر علی نے بتایا،‘منگل(آٹھ دسمبر)کو شبیلا اور میری شادی ہوئی تھی۔ اس کے بعد ایک چھوٹی موٹی تقریب چل رہی تھی کہ اسی بیچ پولیس آ گئی اور کہا کہ کوئی نکاح نہیں ہوگا۔ انہوں نے کسی کی نہیں سنی اور ہمیں شام 7:30 بجے تھانے لے گئے۔ وہاں پر انہوں نے قاضی کو اس لیے جانے دیا، کیونکہ اس نے اپنا بیان پلٹ دیا کہ نکاح ابھی پورا نہیں ہوا ہے۔’
کشی نگر ضلع کے گرمیا گاؤں کے رہنے والے حیدر علی کی پہلی بیوی کی موت 10 سال پہلے ہو گئی تھی اور وہ اعظم گڑھ میں نائی کا کام کرتے ہیں۔
علی نے بتایا کہ پولیس اسٹیشن میں شبیلا کو ایک دوسرے کمرے میں بھیج دیا گیا اور انہیں بیلٹ سے پیٹا گیا۔ انہوں نے کہا، ‘ایک پولیس والے نے دوسرے پولیس والے کو کہا کہ مجھے بے رحمی سے پیٹے۔ میں نے ان سے بات کرنے کی کوشش کی۔ جب شبیلا نے مجھے روتے ہوئے سنا تو وہ بہت ڈر گئی۔ پولیس والے نے اس سے ان کی فیملی کے بارے میں پوچھا لیکن وہ ڈری ہوئی تھی۔ بعد میں نو بجے میں اسے تسلی دے پایا کہ وہ اپنے بھائی کا نمبر پولیس والے کو دے دیں۔’
اس کے بعد پولیس نے ان کی فیملی کو کال کیا، جنہوں نے بتایا کہ وہ مسلمان ہیں اور انہوں نے شبیلا کا آدھار کارڈ بھی بھیجا۔ علی نے کہا، ‘اس کے بعد پولیس والے تہذیب سے بات کرنے لگے، لیکن پھر بھی ہمیں جانے نہیں دیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ لڑکی کے بھائی کے آنے کا انتظار کر رہے ہیں اور مجھے ٹھنڈ میں برآمدے میں رکھا گیا تھا۔’
جب یہ پوچھا گیا کہ کیا پولیس ان لوگوں کے خلاف کارروائی کرےگی جنہوں نے مبینہ‘لو جہاد’کی افواہ پھیلائی تھی، ایک افسر نے کہا کہ اسے لےکر کوئی معاملہ درج نہیں کیا گیا ہے۔
ایک مقامی سماجی کارکن ارمان خان نے کہا کہ حیدر علی نے شبیلا سے شادی کرنے میں مدد کے لیے ایک ہفتے پہلے ان سے رابطہ کیا تھا۔خان نے بتایا کہ ایک ہفتے پہلے ہی شبیلا اعظم گڑھ میں اپنے والدین کا گھر چھوڑکر حیدر علی کے کرایے کے کمرے میں رہنے لگی تھی۔ خان نے دعویٰ کیاکہ شادی ہونے سے پہلے ہندو یووا واہنی کے کچھ ممبر آئے اور حیدر علی اور شبیلا سے پوچھ تاچھ کی تھی۔
بتا دیں کہ گزشتہ 24 نومبر کو اتر پردیش سرکار ‘لو جہاد’ کو روکنے کے لیے شادی کے لیےتبدیلی مذہب پر لگام لگانے کے لیے ‘قانون’لے آئی تھی۔اس میں شادی کے لیے فریب، لالچ دینے یا جبراً تبدیلی مذہب کرائے جانے پر مختلف اہتماموں کے تحت زیادہ سے زیادہ 10سال کی سزا اور 50 ہزار تک جرما نے کا اہتمام کیا گیا ہے۔
بتا دیں کہ اتر پردیش پہلی ایسی ریاست ہے، جہاں لو جہاد کو لےکر اس طرح کا قانون لایا گیا ہے۔