کیا ’لو جہاد‘ پرقانون لانے کے بہانے مسلمانوں کے سماجی بائیکاٹ کی سازش ہو رہی ہے

09:22 PM Nov 20, 2020 | نرمل چندر استھانا

جب خودمرکزی حکومت  مان چکی ہے کہ لو جہاد نام کی کوئی چیز ہے ہی نہیں، تو پھر کچھ ریاستی حکومتوں  کو اس پر قانون لانے کی کیوں سوجھی؟

(علامتی تصویر فوٹو: رائٹرس)

اتر پردیش، ہریانہ اور کرناٹک کی سرکاروں نے اعلان کیا ہے کہ وہ‘لو جہاد’پر قابو پانے کے لیےقانون لانے جا رہی ہیں۔ایک بیان میں اتر پردیش کے وزیراعلیٰ  نے تو عجیب و غریب وارننگ  دے ڈالی ہے کہ جو لوگ ‘اپنی اصلیت چھپاکر، چوری چھپے، اپنا نام چھپاکر، یا اپنی اصل چھپاکر بہن، بیٹیوں کی عزت کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہیں، اگر وہ سدھرے نہیں تو ‘رام نام ستیہ ہے’ کی یاترا اب نکلنے والی ہے۔’

ملک  میں ‘لو جہاد’کی بات شروع کیسے ہوئی

سال 2009 میں‘ہندوجاگرتی’(hindujagruti.org)نام کی ویب سائٹ نے دعویٰ کیا تھا کہ کیرل میں مسلم یوتھ فورم نام کی تنظیم  نے ‘لو جہاد’کا ایک پوسٹر لگوایا ہے، جس میں مبینہ طور پر ہندو لڑکیوں کو ‘عشق و محبت کےجال میں پھنسا کر’ان کامذہب تبدیل کروانے اور پھر ان سے شادی کر لینے کی بات کی گئی ہے۔ پھر ایسی ہی بات دوسری  ریاستوں  سے بھی اٹھائی گئی۔

‘ہندوجاگرتی’نے پانچ مسلم ویب سائٹس کا بھی ذکر کیا تھا کہ ان میں ایسی باتیں کی گئی ہیں۔ کیرل پولیس نے اس پر تفصیلی جانچ پڑتال کی اور ‘لو جہاد’کے الزام کو جھوٹا پایا۔دوسالوں کی جانچ کے بعد کیرل ہائی کورٹ کے جسٹس ایم ششدھرن نامبیار نے جانچ کو بند کرنے کا حکم  دیتے ہوئے کہا کہ ‘ہمارے سماج میں بین مذہبی شادی معمولی بات ہے اور اس میں کوئی جرم  نہیں ہے۔’

‘لو جہاد’کا بنیادی تصور ہی سراسر غیر قانونی ہے

مزے کی بات یہ ہے کہ ہندو شدت پسندتنظیم‘لو جہاد’ کا راگ تب بھی الاپے جا رہے ہیں جب کہ ابھی فروری میں ہی خود مرکزی حکومت نے پارلیامنٹ میں کہا ہے کہ موجودہ قوانین  میں‘لو جہاد’جیسی کسی  چیز کی کہیں بھی تعریف  نہیں ہے اور کسی سینٹرل جانچ ایجنسی کے پاس ایسا کوئی کیس نہیں ہے۔

یاد ہوگا کہ 2018 کے ہادیہ معاملے میں نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی نے ہندوشدت پسندوں  کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے یہ الزام  لگایا تھا کہ ہادیہ برین واشنگ (انڈاکٹرنیشن)اور ‘سائکولاجیکل کڈنیپنگ’ جیسی خیالی  چیزوں  کا شکار تھی۔

سپریم کورٹ نے اسے سرے سے خارج کرتے ہوئے کہا کہ عقیدہ  اور یقین کے مسئلے آئین کے ذریعے فراہم  آزاد ی  کی بنیاد میں ہیں اور سرکار یا سماج کا پدری نظام اس میں دخل اندازی  نہیں کر سکتے ہیں۔جسٹس چندرچوڑ نے کہا تھا کہ شریک حیات  چننے کاحق  مکمل اور سیکولر ہوتا ہے اور عقیدہ  اس میں آڑے نہیں آ سکتی۔

کچھ رہنماؤں کے ذریعے الہ آباد ہائی کورٹ کے حال کے دنوں میں پریانشی کیس میں دیے گئے فیصلے کو جان بوجھ کر غیر اہم  ہونے کے باوجود یوں پیش کیا جا رہا ہے مانو ہائی کورٹ نے بین مذہبی شادیوں  کو غیرقانونی ٹھہرا دیا ہو۔

اس کیس میں ایک مسلم لڑکی نے 29 جون کو ہندو مذہب قبول کیا تھا اور 31 جولائی کو ایک ہندونوجوان  سے شادی کر لی۔ ان دونوں نے ہائی کورٹ سے تحفظ  کی ہدایت کی گزارش کی تھی۔

ہائی کورٹ نے کہا کہ تبدیلی مذہب صرف شادی  کے مقصد سے کی گئی ہے اوردخل اندازی کرنے سے انکار کر دیا۔ اس سلسلے میں سپریم کورٹ کے دودیگر فیصلوں کو بھی توڑ مروڑ کر پیش کیا جا رہا ہے۔

للی تھا مز(2000)اور سرلا مدگل (1995)کے کیسوں میں ہندوشوہروں  نے دوسری شادی کرنے کی نیت سے اسلام قبول کر لیا تھا۔ کورٹ نے کہا کہ مذہب تبدیل کرنا ان کا اختیار ہے لیکن ہندو میرج ایکٹ کے تحت جب تک ان کی  پہلی بیوی  سے رسم کے مطابق شادی ختم  نہیں ہو جاتی، تب تک وہ دوسری شادی نہیں کر سکتے۔

اس سیاق  میں کورٹ نے کہا تھا کہ مذہب کا تبدیل کرنا تب قانونی  ہوگا جب کہ انہوں نے اپنے عقیدہ اور یقین  میں بھی تبدیلی کی ہو۔ صرف دوسری شادی کی نیت سے اتنا کہہ دینامحض  کافی  نہیں ہے کہ میں نے اسلام قبول کیا۔

دھیان دینے کی بات ہے کہ کورٹ نے یہ نہیں کہا تھا کہ ہر وقت اور ہرطرح  کے تبدیلی مذہب  کے لیے اپنے عقیدہ  اور یقین میں تبدیلی  کا کوئی ثبوت دینا ضروری  ہے۔ یقین دل  کے اندر کی شے ہے اور اس کا کوئی سائنسی ثبوت نہیں دیا جا سکتا۔

کورٹ کے لیےآپ سچا یا جھوٹا حلف نامہ دائر کر سکتے ہیں لیکن آپ کے دل میں کیا ہے وہ تو صرف آپ ہی جانتے ہیں۔نومبر2019 میں اتر پردیش کے لاء کمیشن نے سرکار کو ایک رپورٹ دی، جس میں انہوں نے دیگر باتوں کے علاوہ تبدیلی مذہب سےمتعلق ایک نئے قانون کا مسودہ بھی دیا ہے۔

اصولاًیہ مسودہ آٹھ دیگر ریاستوں میں موجود ‘مذہب کی آزادی ’یا انٹی کنورژن قوانین کے نام سے مروج  قوانین کے برابر ہے۔

یہ آٹھ ریاستیں ہیں، اروناچل پردیش، اڑیسہ، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، گجرات، ہماچل پردیش، جھارکھنڈاور اتراکھنڈ۔ بنیادی طور پر یہ قانون زبردستی، دھوکہ دھڑی سے یالالچ دےکر کیے جانے والے تبدیلی مذہب کو روکنے کے لیے بنائے گئے تھے۔

سال 1977 میں سپریم کورٹ کی آئینی بنچ  نے سٹینسلاس کیس میں مدھیہ پردیش اور اڑیسہ  کے مذکورہ قوانین  کو قانونی  ٹھہرایا تھا۔ اس میں کورٹ نے ایک باریک قانونی مدعاواضح  کیا تھا کہ مذہب کی تبلیغ  کرنا آپ کا حق  ہے لیکن مذہب تبدیل کرناآپ کاحق نہیں ہے متعلقہ شخص کی اپنی خواہش ہونی چاہیے۔

خیر، اب اتر پردیش لاء کمیشن کے صدر جسٹس آدتیہ ناتھ متل خود کہہ رہے ہیں کہ اگرسرکار بین مذہبی شادی کوروکنے محض  کے مقصد سے قانون لاتی ہے تو وہ غیر قانونی ہوگا۔ چونکہ ابھی سرکار قانون لائی نہیں ہے، اس لیے اس بارے میں کچھ اور کہنے کی ضرورت  نہیں ہے۔

اس سیاق  میں کانپور میں پولیس کی جانب سے ایک اسپیشل انویسٹی گیشن ٹیم کی تشکیل بھی قابل مذمت  ہے۔ این ڈی ٹی وی کے ذریعے کی گئی ایک پڑتال میں متعدد ہندو لڑکیوں نے ڈنکے کی چوٹ پر کیمرے پر کہا کہ انہوں نے اپنی مرضی سے مسلمانوں سے شادی کی ہے اور ان پر نہ کوئی دباؤ تھا نہ کوئی لالچ۔

اب اگر ان کے گھر والے کہتے ہیں کہ کوئی گڑبڑ تھی تو اس کا سیدھا طریقہ  ہے کہ لڑکیوں سے جوڈیشیل مجسٹریٹ کے سامنے بیان لے لیا جاتا یا نوٹری پر حلف نامہ مانگ لیا جاتا۔ کیس درج کرنے کا مقصد خالی مسلمان لڑکوں اور ان کے اہل خانہ  کو پریشان کرنا ہے۔

‘لو جہاد’ کاشوشہ کھڑا کرنے کے پیچھےمقاصد کیا ہیں؟

سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب خود مرکزی حکومت  ہی مان چکی ہے کہ لو جہاد نام کی کوئی چیز ہے ہی نہیں تو پھر کچھ ریاستی حکومتوں  کو اس پر قانون لانے کی کیوں سوجھی؟

شدت پسند ہندوتنظیم اس پربراہ راست کچھ بولنے سے بچتے ہیں۔ لیکن ان کی فرقہ وارانہ نفرت پھیلانے والی آئیڈیالوجی کا کافی حد تک صحیح  اندازہ ان کے رہنماؤں کے بیانات(جن کے لیے وہ بعد میں کہیں گے کہ وہ انہوں نے اپنی نجی حیثیت سے دیےتھے)، سوشل میڈیا پر پھیلے پیغامات  اور کتنی ہی ویب سائٹس کے موادسے لگایا جا سکتا ہے۔

راست لفطوں  میں ان کا ماننا ہے کہ ‘لو جہاد’ مسلمانوں کی ملک کے خلاف  ایک سازش ہے۔

ان کے تصور میں اس کے ذریعےسے مسلمان ہندوؤں کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ وہ ابھی بھی ہندوؤں کی عورتوں کو ‘اٹھا لے جانے’ میں اہل  ہیں اگر عہد وسطیٰ  کی طرح جنگوں  میں ہرا کر نہیں، تو محبت کے جال میں پھنسا کر ہی سہی!

دوسرا،یہ ہندوعورتوں کی توہین ہے کہ مسلمان ان کا ‘استعمال’ کریں۔ یہ اس قدیم تصور کی کہنہ صورت ہے جس میں یہ مانا جاتا تھا کہ ‘ملیچھ’ ہندو عورتوں  کو ‘خراب’ کر دیتے ہیں۔

تیسرا، یہ ہندو مردانگی کے منھ پرطمانچہ ہے کہ ان کے عورتوں  کی راحت  کی تلاش اپنی کمیونٹی کے باہر کرنی پڑ رہی ہے، چاہے وہ پیار کی تلاش ہو یا جنسی لذت کی۔

چوتھا، ہندو لڑکیوں سے شادی کرکے وہ  ہندوؤں کی قیمت پر مسلمانوں کی آبادی بڑھانا چاہتے ہیں کیونکہ تب اتنی لڑکیاں ہندو بچےپیدا کرنے کے لیے دستیاب  نہیں ہوں گی اور اس طرح  وہ زمین  پر مسلم جینس کی توسیع  چاہتے ہیں۔

پانچواں، اگر یہ بے روک ٹوک چلتا رہا تو وہ دن دور نہیں جب ملک  میں مسلمانوں کی آبادی ہندوؤں سے زیادہ ہو جائےگی اور ہندو اپنے ہی ملک میں اقلیت  ہو جائیں گے۔کہنے کی ضرورت  نہیں کہ ایسے خیالات ملک  اور سماج کے مفادکے خلاف  فرقہ وارانہ جذبات کوبھڑ کانے کا کام کر رہے ہیں اور اس لیے ان کافوراًسے پیشتر سدباب ضروری  ہے۔

یہ بھی دھیان دینے کی  بات ہے کہ اس پورے معاملے میں جہادلفظ  کااستعمال کرکے عوام کو ڈرایا اورورغلایاجا رہا ہے۔حالانکہ‘جہاد فی سبیل اللہ’نام کےمذہبی تصور کامثبت معنی ہوتا ہے، لیکن عام طور پر لوگ اس کو دہشت گردانہ سرگرمیوں سے جوڑتے ہیں۔

جہادلفظ کے ایسےمروج  غلط استعمال کی وجہ سے 2010 میں اس وقت کے وزیر داخلہ  پی چدمبرم کو اپنے بیان  میں اصلاح  کو مجبور ہونا پڑا تھا کیونکہ ایک مسلم تنظیم  ‘تمل ناڈو مسلم منیتر کڑگم’نے اس پراعتراض  کیا تھا۔

‘لو جہاد’کی کہانی میں حقائق کی خامیاں

‘لو جہاد’کی کہانی کیرل سے شروع ہوئی تھی۔اس لیے اس کی پول بھی کیرل سے ہی کھولتے ہیں۔ کیرل میں 2012 میں سرکار نے اسمبلی  کواعدادوشمار دیےکہ 2006-12 کے دوران 2667 ہندو لڑکیوں نے اسلام قبول کیا تھا۔

اس کا مطلب ہے کہ سال میں زیادہ  سے زیادہ 500-1000 مسلم لڑکوں کی ہندو لڑکیوں سے شادی ہوئی ہوگی۔

اگر یہ مانیں کہ ملک  میں سال میں لگ بھگ ایک کروڑ شادیاں ہوتی ہیں، تب ملک  کے مقابلے کیرل کی آبادی کے حساب سے ریاست میں 276000 شادیاں ہوتی ہیں۔ یعنی بین مذہبی شادی، کل شادیوں کی محض 0.36فیصد ہیں۔ ان سے بھلا کیا فرق پڑ سکتا ہے؟

کیرل میں 2001-11 کے دوران مسلم آبادی سال میں لگ بھگ ایک لاکھ کی شرح سے بڑھی تھی۔ بین مذہبی شادی اس اضافے کامحض1فیصد حصہ ہیں۔ اب یہ تو ہندو شدت پسندتنظیموں کو بتانا چاہیے کہ اس میں تشویش کی بات  کیا ہے؟

یہ زہرفشانی  ملک  کےمستقبل کے لیے خوشگوار نہیں ہے

سرکاروں کو کسی خیالی چیزپر قانون بنانے کا حق نہیں ہے۔ اگر ایسے قانون بنائے جاتے ہیں تو یہ قانون سازی کے حقوق  کا غلط استعمال ہوگا۔‘لو جہاد’ جیسی خیالی  چیز کی چرچہ کرنا بھی شادی جیسے قانونی نظام  کو فرقہ وارنہ رنگ میں رنگنااور مجرم بنایاہے۔

یہ غیر اخلاقی ہے کیونکہ یہ عشق جیسے مقدس جذبے کو غیر قانونی ٹھہرانے کا کام کرتا ہے۔یہ سراسر پدری  اور عورت مخالف ہے کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہندو عورتوں  کو ہندو مردسماج کی ملکیت سمجھتا ہے، جس میں ان کی ‘جنسیت’ پر بھی مردوں  کا اختیار ہے۔

یہ عورتوں  کے لیے توہین آمیز ہے کیونکہ اس کا مطلب ہے کہ ہندو عورتیں  اتنی احمق  اور آسانی سے دھوکہ کھا جانے والی ہیں کہ وہ اپنے بھلے برے کا صحیح فیصلہ کر پانے کے لائق بھی  نہیں ہیں اور انہیں کوئی بھی پھسلاکر ان کا ‘استعمال’ کر سکتا ہے۔

اس سارے بکواس کے پیچھےمضمر سیاسی مقصد مسلمانوں کے سماجی بائیکاٹ  کو اس حد تک لے جانا ہے، جہاں وہ ان کے سماجی بائیکاٹ  میں بدل جائے یاملک کے سوشل اکوسسٹم میں ان کی کوئی بامعنی شمولیت ہی رہ نہ جائے۔

یہ لوگ جانتے ہیں کہ اس ملک کی تمام پیچیدگیوں کی وجہ سے وہ بھلے ہی اپنے خیال  کے ‘ہندو راشٹر’ کو ایک سیاسی یا زمینی  حقیقت نہ بنا پائیں، لیکن اس طرح  کی  زہرفشانی سے اسے ایک سماجی سچ تو بنا ہی سکتے ہیں۔ ہمیں اسی خطرے سے ہوشیار رہنا ہے۔

(مضمون نگار ریٹائرڈ آئی پی ایس افسرہیں اور کیرل کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس اور بی ایس ایف و سی آر پی ایف میں ایڈیشنل ڈائریکٹرجنرل رہے ہیں۔ )

(اس مضمون  کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)