الیکشن کے قصے:سینئر صحافی مارک ٹلی بتا رہے ہیں کہ پرینکا گاندھی سے امید کی جا رہی تھی، لیکن ان کی گنگا یاترا سے کوئی لہر اٹھی ہو، ایسا نہیں دکھتا۔ ایسا ہے تو پھر اپوزیشن کو غائب کیوں نہیں ہونا چاہیے؟
نئی دہلی : جیسا کہ میں نے پہلے کہا تھا کہ اپوزیشن اس انتخاب کا پہلا راؤنڈ ہار چکی ہے۔ انتخابی تشہیر شروع ہو چکی ہے تو میں کہنا چاہتا ہوں کہ اپوزیشن کے لئے بی جے پی کو آخری راؤنڈ میں جیتنے سے روکنا بہت مشکل ہے۔میں یہ ماننے کی کچھ وجہیں بتاؤںگا اور یہ بھی بتاؤںگا کہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اپوزیشن غائب ہو جانا چاہیے۔
پہلی وجہ تو یہ ہے کہ بالاکوٹ ایئر اسٹرائک سے بی جے پی مضبوط شروعات کر چکی ہے۔ اس نے راشٹرواد کے مدعے کو فرنٹ پر لا دیا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی جارحانہ تقریرکے انداز پر یہ بہت بھاتا ہے۔اس کی نقل اتر پردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ بھی کر رہے ہیں۔ انتخابی تشہیر میں انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت میں دہشت گرد، بم اور گولیاں کھاتے ہیں۔
امیج کو مضبوطی دینے کے لئے وہ آگے کہتے ہیں کہ اتر پردیش میں ہم نے مجرموں کے سامنے دو اختیار رکھے ہیں وہ یا تو جیل چلے جائیں یا دنیا چھوڑ دیں۔کانگریس نے ایئر اسٹرائک کے نتیجہ پر شک ظاہر کرکے مودی کو ان پر فوجیوں کی بے عزتی کا الزام لگانے کا موقع دے دیا ہے۔
دوسری بڑھت بی جے پی کے پاس پیسہ ہے۔ 2017 سے 2018 کے درمیان الیکشن بانڈ کا 95 فیصد بی جے پی کے پاس آیا ہے۔اس کے علاوہ اس بات کی جانکاری نہیں ہے کہ اس نے ملک اور بیرون ملک سے اور کتنا چندہ حاصل کیا ہے۔
حالانکہ اسی حکومت نے ایف سی آر اے کا استعمال کرکے این جی او کے لئے بیرون ملک سے چندہ لینا بہت مشکل بنا دیا ہے، لیکن سیاسی جماعتوں کو غیرملکی رقم لینے میں کوئی دقت نہیں ہے۔یہاں پر بھی بی جے پی برٹن، امریکہ اور دیگر ممالک میں واقع اپنے خیرخواہوں سے مالی مدد حاصل کرنے میں آگے ہے۔
تیسری بڑھت ملک بھر میں پھیلے آر ایس ایس کارکن ہیں۔ اس طاقت کا استعمال امت شاہ کی قیادت میں تنظیم کرتی ہے۔ کئی سطحوں والی یہ تنظیم پولنگ بوتھ تک پھیلی ہے۔آر ایس ایس کے ایک سینئر رہنما نے مجھے بتایا کہ سنگھ کی قیادت مودی کے طریقوں سے خوش تو نہیں ہے، لیکن ان کے پاس مودی کو کھلی چھوٹ دینے کے علاوہ کوئی راستہ بھی نہیں ہے۔مودی آر ایس ایس کو لےکر محتاط ہیں اور سنگھ کے لوگوں کی اونچے عہدوں پر تقرری کر چکے ہیں۔
چوتھی بڑھت حزب مخالف کے قومی سطح پر اتحاد بنانے کی ناکامی ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو وہ ووٹر کو سمجھا سکتے تھے کہ یہ عملی راستہ ہے۔اتر پردیش میں اتحاد کو لےکر شبہ ہے۔ سیاست کو جاننے والے تعجب کا اظہار کرتے ہیں کہ ایس پی سے جڑے یادو بی ایس پی امیدوار کو کیسے ووٹ دیںگے، کیونکہ یادو اور دلتوں میں تو روایتی مقابلہ ہے۔
کانگریس بی جے پی مخالف ووٹ کھینچکر دونوں کا کام بگاڑ سکتی ہے۔ حالانکہ، اس کے اشارےنہیں ہیں کہ کانگریس اتر پردیش میں خراب حالت سے نکل رہی ہے۔پرینکا گاندھی سے امید کی جا رہی تھی، لیکن ان کی گنگا یاترا سے کوئی لہر اٹھی ہو، ایسا نہیں دکھتا۔ ایسا ہے تو پھر اپوزیشن کو غائب کیوں نہیں ہونا چاہیے؟
پہلی وجہ ہے مشرق اور جنوب میں مضبوط علاقائی جماعتوں کی موجودگی، جو نہ تو گھٹے ہیں اور نہ ہی دوڑ سے باہر ہیں۔ان کے پاس بنگال میں ممتا بنرجی، اڑیسہ میں نوین پٹنایک، آندھر میں چندربابو نائیڈو، تلنگانہ میں کے چندرشیکھر راؤ اور تمل ناڈو میں اسٹالن ہیں۔اتر پردیش میں ایس پی –بی ایس پی اتحاد اور بہار میں آرجے ڈی اتحاد ٹھیک ٹھاک ٹکر دینے کی حالت میں ہے۔ لیکن، کانگریس کے بارے میں کیا؟ حالیہ اسمبلی انتخاب کے نتائج نے یہ تو ثابت کیا ہے کہ کانگریس کی تمام جگہوں پر چت نہیں ہوئی ہے۔
حالانکہ، راہل نے لمبا اور قیمتی وقت بےوجہ مودی کی توہین کرنے اور رافیل کو ایک ناکام انتخابی مدعا بنانے میں گزار دیا۔اب آخر میں وہ ایک ایسا مدعا لےکر آئے جو ہیڈلائن بنی۔ انہوں نے وعدہ کیا ہے کہ اگر کانگریس کی حکومت بنتی ہے تو وہ ملک کے 20 فیصد سب سے غریبوں کو ہر مہینہ6 ہزار روپے دیںگے۔ لیکن، غریب یہ سوچکر حیران ہو سکتے ہیں کہ کیا کانگریس کی اقتدار میں آنے کی کوئی امید ہے۔
غریب اور چھوٹے کسانوں نے مودی کے سال میں چھے ہزار روپے کی اسکیم کو زیادہ بہتر مانا ہے۔ اپوزیشن کو غائب ہونے سے بچنے کے لئے یہ یاد رکھنا چاہیے کہ انتخاب کی صحیح پیش گوئی نہیں کی جا سکتی اور مودی ناقابل تسخیر نہیں ہیں۔پچھلے کچھ سالوں میں ریاستوں میں ہوئے انتخاب میں اتنے غیر متوقع نتائج آئے ہیں کہ عام انتخاب کو بھی ریاستی انتخابات کی ایک سریز کے طور پردیکھا جا رہا ہے۔مودی اور شاہ کی کوشش اس انتخاب کو بنا غلطی کے قومی بنانے کی ہے۔اپوزیشن کی حکمت عملی اس کو صوبہ وار لڑنے کی ہونی چاہیے۔
(دینک بھاسکر سے خاص معاہدے کے تحت شائع کیا جارہا ہے)