کانگریس کا انتخابی منشور کم از کم یوں بامعنی ہے کہ فوری طور پر ہی سہی، ملک کے سیاسی ڈسکورس میں تبدیلی کے اشارے مل رہے ہیں۔
کانگریس نے منگل کو اپنا انتخابی منشور نئی دہلی واقع پارٹی صدر دفتر میں جاری کیا۔ اس دوران پارٹی صدر راہل گاندھی کے ساتھ سونیا گاندھی، منموہن سنگھ، اے کے انٹنی، پی چدمبرم وغیرہ موجود تھے۔ (فوٹو : پی ٹی آئی)
‘جن آواز ‘کے عنوان اور ‘ہم نبھائیںگے’ٹیگ لائن کے ساتھ جاری کانگریس کاانتخابی منشور یوں تو سیاسی پارٹیوں کے عام منشورکی طرح ایسے وعدوں کا پلندہ بھر ہی ہے، جن کی معرفت اس نے عوام سے عہد کیا ہے کہ انہوں نے اس کی بے دخلی کا 2014 کا اپنا فیصلہ واپس لےکر اس کو پھر سے عوامی فرمان ملا تو اس کے پاس ان کو دینے کے لئے یہ یہ خاص چیزیں ہیں۔یہ اکثر انتخاب میں حریف پارٹیوں کے ذریعے اپنایا جانے والا عام سا عمل ہے۔ فطری طور پر اس نے ایسے اعلان بھی کیے ہیں، جو پہلی نظر میں ہی اقتدار کی جدوجہد میں آگے نکلنے یعنی رائےدہندگان کو متوجہ کر مقصد سے کیے گئے نظر آتے ہیں۔لیکن انھیں لےکر اس کے حامی اور مخالف دونوں جیسے خوشی اور غم کا اظہار کر رہے ہیں، اس کا تصور خود اس نے بھی نہیں کیا ہوگا۔
کوئی ان کو وسیع سماجی تحفظ والی خوشحال ریاست کا پرانا نظریہ یا یوپی اے-1 کی طرف کانگریس کی واپسی بتا رہا ہے تو کسی سے یہ پوچھے بنا نہیں رہا جا رہا کہ رائےدہندگان نے واقعی اس کی مراد پوری کر دی تو کیا وہ ملک کی مالی حالت کے مدنظر ناممکن سے دکھنے والے اپنے وعدے پورے کرنے کے لئے ضروری وسائل مہیا کر پائے گی؟جواب بہت سیدھاسا ہے-نہیں مہیا کر پائےگی تو اپنی ویسی ہی فضیحت کرائےگی، جیسی 2014 کے وعدوں کو لےکر بھارتیہ جنتا پارٹی اور وزیر اعظم نریندر مودی جھیل رہے ہیں۔اس بیچ کئی’جان کار ‘ یہ بھی کہہ ہی رہے ہیں کہ یہ وعدے اشارہ ہیں کہ کانگریس اقتدار میں لوٹی تو پالیسی کے تعین میں نیشنل ایڈوائزری کاؤنسل جیسے آئین کے دائرے کے باہر رہنے والے پالیسی ڈائرکٹرس اور سول سوسائٹی کے لوگوں کا دخل بڑھے گا۔
اتناہی نہیں، عوام کی طاقت میں اعتماد کا دعویٰ کرنے والے کئی لوگوں کو عام لوگوں کے ‘بنا کچھ کئے دھرے ‘ کم از کم آمدنی گارنٹی پا جانے سے ان کی کاہلی بڑھ جانے کا ‘ خوف ناک اندیشہ’بھی ستانے لگا ہے۔پھر بھی یہ منشور کم سے کم یوں بامعنی ہے کہ اس سے، فوری طو رپر ہی سہی، ملک کے سیاسی ڈسکورس میں تبدیلی کے اشارے مل رہے ہیں۔یاد کیجئے، اس کے جاری ہونے سے ایک دن پہلے ہی مہاراشٹر کے وردھا میں وزیر اعظم نریندر مودی نے ‘وکاس کے مہانایک ‘ کا اپنا 2014 والا چولا اتار پھینکا اور ہندوتوا کے ایجنڈےکو آگے کر دیا تھا۔
بلاشبہ،یہ اس بات کا غیر رسمی اعلان تھا کہ انھیں’چوکیدار چور ہے بنام میں بھی چوکیدار’کے کھینچ تان سے باہر نکلنے کے راستے کی تلاش ہے، جس کو وہ اتر پردیش اسمبلی کے گزشتہ انتخابات کے جانچے-پرکھے شمشان اور قبرستان سے گزرکر ہی پورا کرنے والے ہیں۔ایسے میں کانگریس ابلکر یا اچھلکر جیسے بھی’ہندومسلمان ‘ کرنے لگتی تو ‘مودی جی’کے مانگے بنا ہی ان کی مراد پوری کر دیتی۔اچھی بات ہے کہ اس نے ایسا کرنے سے پرہیز کیا اور کئی مشاہدین کی اس نصیحت کی اَن سُنی نہیں کی کہ اس کو مودی کے شدت پسند ہندوتوا یا کہ راشٹرواد کے ٹریپ میں آکر خودکشی نہیں کرنی چاہیے۔
ایک سوال کے جواب میں کانگریس کے صدر راہل گاندھی کا یہ کہنا کہ ملک میں سب لوگ ہندو ہیں اور سبھی کو روزی روزگار کی ضرورت ہے، اس لئے ڈرے ہوئے وزیر اعظم کو ہندوتوا کی آڑ میں اصل مدعوں پر بحث سے نہیں بھاگنا چاہیے، ایک طرح سے ‘مودی جی’کو راشٹرواد اور ہندوتوا کی تلواروں کو پھر سے میان میں ڈالنے کو مجبور کرنا ہی تھا۔جمہوریت میں کوئی بھی لڑائی جیتنے کا سب سے اچھا طریقہ اس کے مورچوں کے تعین میں فیصلہ کن ہونا ہی ہے اور کہنا ہوگا کہ کانگریس نے اس میں بازی مار لی ہے۔بی جے پی کے’ہندومسلمان ‘کے چکر میں جو خواتین، دلت، محروم، غریب، کسان عرصے سے سیاست اور ساتھ ہی اقتدار سے نکالا جانا جھیلتے آ رہے ہیں، وہ اس کے اندر جگہ پائیںگے تو ان کا اور ساتھ ہی ملک کا کچھ تو بھلا ہوگا ہی ہوگا۔ روزگار، صحت اور تعلیم کی مطلوبہ گارنٹی کچھ تو ان کے قریب آئیںگی ہی۔
یاد کیجئے، 2014 میں بی جے پی کے انتخابی منشور میں بھی’ایک بھارت، سریشٹھ بھارت’اور’سب کا ساتھ، سب کا وکاس ‘ جیسی کئی بڑی-بڑی باتیں تھیں۔ اس نے اقلیتوں کو یکساں مواقع، بلیٹ ٹرینوں کے جال، فوڈ سکیورٹی، ریٹیل میں ایف ڈی آئی کی مخالفت، ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر، کشمیر کو خصوصی ریاست کادرجہ اور کالے دھن کے خاتمے، ہرایک کے کھاتے میں پندرہ لاکھ روپے ڈالنے اور ہرسال دو کروڑ نوکریاں جیسے کئی عوام پسند وعدے کئے تھے۔اب وہ ان کو لےکر جواب نہیں دے پا رہی تو کانگریس کیا غلط کہہ رہی ہے کہ اس نے اپنے منشور میں انہی مدعوں کو سب سے زیادہ ترجیح دی ہے، جو عوام کی ضروریات سے جڑے ہیں اور جو مودی حکومت میں نظرانداز ہوتے آئے ہیں؟ اس کا ایسا کرنا ڈھکوسلہ ہے، جیسا کہ ‘مودی جی’کہہ رہے ہیں، توبھی چائے پر بحث سے تو بہتر ہی ہے کہ عوام کی آمدنی پربات ہو۔
یہاں کانگریس کے وعدوں کو ایک ایک کر دوہرانے کا کوئی حاصل نہیں ہے کیونکہ آپ ان سے واقف ہیں۔ بتانے کی بات یہ ہے کہ راہل نے دعویٰ کیا ہے کہ اپنے اب تک کی سیاسی زندگی میں انہوں نے ایک بھی ایسا وعدہ نہیں کیا ہے، جس کو نہ نبھایا ہو۔ظاہر ہے کہ وہ جتانا چاہتے ہیں کہ ان کے وعدے بی جے پی کے 2014 کے وعدوں کی طرح اس کے وزیر اعظم عہدے کے امیدوار نریندر مودی کے جملے نہیں ہیں۔ بہتر ہوتا کہ بی جے پی اور مودی ان کو غلط ثابت کرنے کے چیلنج کا مقابلہ کرتے۔ لیکن وہ کانگریس کے وعدوں کو ‘ٹکڑے ٹکڑے گینگ’ کے ذریعے سجھائے گئے، خطرناک اور ملک توڑنے والاقرار دےکر ہی خاموش ہو جا رہے ہیں۔
ان کو سب سے زیادہ اعتراض قانون کی کتابوں سے بغاوت کی اس دفعہ کو ہی ختم کر دینے کے وعدے پر ہے، جو ہمارے جابرانہ نوآبادیاتی حکمرانوں کے وقت سے چلی آ رہی ہے اور جس کی آڑ میں مودی حکومت نے گزشتہ پانچ سالوں میں نہ صرف اپنے مخالفوں کا بھرپور استحصال کیا بلکہ کئی قسم کے اضطراب بھی پیدا کئے اور پھیلائے ہیں۔ان کو بدنام اے ایف ایس پی اے یعنی آرمڈ فورسز اسپیشل پاورس ایکٹ میں ترمیم کا کانگریسی وعدہ بھی اچھا نہیں لگ رہا، جس کو لےکر بے مثال گاندھیائی آئرن لیڈی اروم شرمیلا نے دنیا کی سب سے لمبی بھوک ہڑتال کی اور اچھے دنوں کے وعدے پر وزیر اعظم بن جانے کے بعد ‘مودی جی’ کو خط لکھا کہ وہ خود کو شہنشاہ اشوک کے کردار میں ڈھالکر ہندوستان کو عدم تشدد کا ان کی طرح کا مشق کرا دیں، تو واقعی اچھے دن آ جائیںگے۔
انہوں نے لکھا تھا،مودی اشوک کی طرح عدم تشدد کے ہتھیار سے حکومت کریں اور ملک کے نارتھ ایسٹ کےخطوں میں مسلح افواج کو ‘ریپ اور قتل کےاختیار دینے والے’ 1958 کے اے ایف ایس پی اے کو ہٹاکر ان کے ظلم کے شکار ہو رہے چار کروڑ سے زیادہ شہریوں کا انسانی وقار اور خود اعتمادی کے ساتھ جینا یقینی بنائیں۔ ‘المیہ دیکھیے کہ پہلے تو ‘ مودی جی ‘ ان کے لئے اشوک نہیں بن سکے اور اب کانگریس بننے کی سوچ رہی ہے تو ان کو ملک ٹوٹنے کا خطرہ محسوس ہو رہا ہے۔ وہ ماب لنچنگ کے خلاف قانون بنانے کے اس کے وعدے پر بھی ناراض ہیں۔
پھر بھی ان کو یہ سمجھنا گوارا نہیں کہ ملک کے ٹوٹنےکے اندیشے ماب لنچنگ روکنے سے نہیں اس کو ہونے دینے سے بڑھتے ہیں۔کئی لوگ پوچھ رہے ہیں کہ کیا یہ وعدے کانگریس کے لئے گیم چینجر ثابت ہوںگے؟ اس کا مناسب جواب رائےدہندگان ہی دے سکتے ہیں۔ لیکن صاف دکھتا ہے کہ وہ گاؤں-غریب اور کسان کے ساتھ خواتین اور بےروزگاروں وغیرہ کو انتخابی بحث کے مرکز میں لے آئے ہیں۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں۔)