لوک سبھا انتخابات میں حصہ لینے والے بی جے پی کے 435 امیدواروں میں سے 106 ایسے لیڈر ہیں جو پچھلے دس سالوں میں پارٹی میں شامل ہوئے ہیں۔ ان میں سے 90 پچھلے پانچ سالوں میں بی جے پی میں شامل ہوئے ہیں۔
نئی دہلی: پارٹی بدلنے والے رہنماؤں کو الیکشن لڑنے کے لیے ٹکٹ دینا ہندوستانی سیاست میں کوئی نئی بات نہیں ہے، لیکن ان لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کی فہرست میں جس پیمانے پر ایسا ہوا ہے وہ غیر معمولی ہے۔
ٹائمز آف انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق، فہرست میں تقریباً ایک چوتھائی یا 435 میں سے 106 ایسے رہنما ہیں جو پچھلے 10 سالوں میں کسی وقت بی جے پی میں شامل ہوئے تھے اور ان میں سے 90 پچھلے پانچ سالوں میں بی جے پی میں شامل ہو ئے ہیں۔
ایسے امیدواروں کا سب سے زیادہ تناسب آندھرا پردیش میں ہے جہاں بی جے پی نے چھ امیدوار کھڑے کیے ہیں۔ ان میں سے ایک کے علاوہ سبھی 2019 اور 2024 کے درمیان کسی دوسری پارٹی سے آئے ہیں۔ اس میں نہ صرف کانگریس اور وائی ایس آر سی پی کے لیڈر شامل ہیں، بلکہ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس کی موجودہ حلیف تیلگو دیشم پارٹی (ٹی ڈی پی) کے لیڈربھی اس میں شامل ہیں۔
پڑوسی تلنگانہ میں بی جے پی کے 17 امیدواروں میں سے تقریباً دو تہائی دیگر پارٹیوں – بی آر ایس اور کانگریس سےآئے ہیں۔ ان انتخابات سے پہلے ایسے 11 امیدواروں میں سے چھ بی جے پی میں شامل ہوئے ہیں۔
آندھرا پردیش اور تلنگانہ ایسی ریاستیں ہیں جہاں ماضی میں بی جے پی کی موجودگی محدود رہی ہے۔ یہاں تک کہ ہریانہ میں بھی، جہاں یہ ایک دہائی سے ریاستی حکومت میں ہے، اس کے 10 میں سے 6 امیدوار ایسے ہیں جنہوں نے2014 کے بعد سے کورٹ بدلا ہے۔ ان میں سے دو – نوین جندال اور اشوک تنور – موجودہ لوک سبھا انتخابات سے ٹھیک پہلے پارٹی میں شامل ہوئے تھے۔
وہیں، پنجاب میں پارٹی کے نصف سے زیادہ 13 امیدواروں ان لوگوں میں سے ہیں جو دوسری جماعتوں میں تھے۔ ان میں سے کچھ کانگریس میں تھے، لیکن انہوں نے کیپٹن امریندر سنگھ کے ساتھ کانگریس چھوڑ دی اور جب انہوں نے اپنی نوخیز تنظیم کو بی جے پی میں ضم کیا تو وہ بی جے پی کا حصہ بن گئے۔
جھارکھنڈ کی صورتحال بھی پنجاب جیسی ہے، جہاں 13 میں سے سات امیدوار ایک دہائی یا اس سے کم عرصے تک دوسری پارٹیوں کے رکن رہے ہیں۔ ان میں جھارکھنڈ مکتی مورچہ (جے ایم ایم)، کانگریس اور سابقہ جھارکھنڈ وکاس مورچہ سےہیں، ان میں سب سے ہائی پروفائل ریاست کے سابق وزیر اعلیٰ ہیمنت سورین کی بھابھی سیتا سورین ہیں، جنہوں نے انتخابات سے قبل ہی بی جے پی میں شمولیت اختیار کی ہے۔
جن ریاستوں میں بڑی تعداد میں امیدوار دوسری پارٹی سے آئے ہیں، ان میں اتر پردیش نمایاں ہے۔ پچھلی دہائی میں یہاں کے انتخابات، چاہے وہ پارلیامانی ہوں یا اسمبلی انتخابات، بی جے پی کا دبدبہ رہا ہے۔ یہاں بی جے پی کے 74 امیدواروں میں سے (سوائے ایک اتحادی کے جو پارٹی کے نشان پر لڑ رہے ہیں)، 23 امیدوار 2014 سے 2024 درمیان کسی وقت بی جے پی میں شامل ہوئے ہیں۔ یہ ریاست میں پارٹی کے 31 فیصد امیدوار ہیں۔
اڑیسہ 29 فیصد اور تمل ناڈو 26 فیصد میں ایسے امیدواروں کا زیادہ تناسب بہت حیران کن نہیں ہے، اس لیے کہ یہ بی جے پی کے روایتی گڑھ نہیں ہیں۔ مہاراشٹر میں ایک چوتھائی امیدوارایسے ہیں جنہوں نے کورٹ بدلا ہے، جو یقیناً پچھلے پانچ سالوں میں ریاست کی سیاست میں اتھل پتھل کا اشارہ ہے۔
مغربی بنگال میں ایسے امیدواروں کا تناسب مہاراشٹر کے برابر ہے، لیکن دیگر تمام ریاستوں کے مقابلے یہ تناسب کم ہے۔ بی جے پی کے گڑھ گجرات میں بھی دو امیدوار ایسے ہیں جو 2014 کے بعد پارٹی میں شامل ہوئے ہیں۔
اس تجزیے میں بی جے پی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے والے اتحادیوں کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ، اس میں پانچ ایسے معاملات شامل ہیں جنہیں ‘گھر واپسی’ کہا جا سکتا ہے – جہاں بی جے پی کے وہ اراکین جو دوسری پارٹیوں میں چلے گئے تھے لیکن پھر وہیں واپس آئے جہاں سے انہوں نے شروعات کی تھی۔ ان پانچوں میں کرناٹک میں جگدیش شیٹار، مہاراشٹر میں ادین راجے بھونسلے اور اتر پردیش میں ساکشی مہاراج شامل ہیں۔