کیا کانگریس میں شامل ہونے جارہے بہاری بابو نے ہوا کا رخ بھانپ لیا ہے؟

شتروگھن سنہا ہوا کا رخ بھانپ لینے والے رہنماؤں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ اپریل 2014 میں انہوں نے بی جےپی کے 300 سے زیادہ سیٹیں جیتنے کا دعویٰ کیا تھا۔ اب دہلی، پٹنہ اور ممبئی کے حلقوں میں یہی قیاس آرائی ہے کہ کانگریس اور لالو کی مدح سرائی میں مصروف شترو نے کیا پھر کچھ اندازہ لگا لیا ہے؟

شتروگھن سنہا ہوا کا رخ بھانپ لینے والے رہنماؤں  میں شمار کیے جاتے ہیں۔ اپریل 2014 میں انہوں نے بی جےپی کے 300 سے زیادہ سیٹیں جیتنے کا دعویٰ کیا تھا۔ اب دہلی، پٹنہ اور ممبئی کے حلقوں میں یہی قیاس آرائی ہے  کہ کانگریس اور لالو کی مدح سرائی میں مصروف شترو نے کیا پھر کچھ اندازہ لگا لیا ہے؟

فوٹو : پی ٹی آئی

فوٹو : پی ٹی آئی

بی جے پی کی اسٹار لسٹ میں شامل رہے ایکٹر اور معروف سیاستداں شترو گھن سنہا عرف شاٹ گن نے اپنے سیاسی کریئر کا آغاز حزب اختلاف کی صف سے کیا اور اب وہ کانگریس جوائن کرنے والے ہیں۔ حالانکہ اگر سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی بے وقت موت کا شکار نہ ہوئی ہوتیں تو شترو بہت پہلے کانگریس کے ہو لیے ہوتے۔

شتروگھن سنہا 6 اپریل کو کانگریس میں شمولیت اختیار کرنے والے ہیں۔ خبریں ہیں کہ وہ پٹنہ صاحب سے کانگریس کے ٹکٹ پرالیکشن لڑیں گے، جہاں سے بی جےپی نے اپنے سینئر رہنما اور مرکزی وزیر روی شنکر پرساد کو میدان میں اتارا ہے۔ پٹنہ صاحب سیٹ پر شتروگھن سنہا گزشتہ دس سال سے بی جے پی کی نمائندگی کر رہے تھے۔

سابق سفیر پون کے ورما، آرٹ کلیکٹر نیتا کھنہ اور مصور منیش پاشکلے کی مہم ‘شاسترارتھ’ سے بات کرتے ہوئے سنہا نے 1980 میں اندرا گاندھی کے ساتھ ہوئی ملاقاتوں کا ذکر کیا۔ ان کے مطابق ‘وہ (اندرا گاندھی) مجھے کافی پسند کرتی تھیں اور اس لیے جب بھی ملنے جاتا، ملاقات کا فوراً وقت مل جاتا تھا۔ انہوں نے سیاست میں میرے بارے میں کچھ سوچ رکھا تھا۔ اگر وہ زندہ ہوتیں تو میں اب تک کانگریس میں ہوتا۔’ دلچسپ بات یہ ہے کہ شترو ہمیشہ فاتح کلب کا حصہ رہے ہیں۔

شتروگھن سنہا کئی معاملوں میں کچھ الگ ہیں۔ جیسے جہاں دوسرے ایکٹرس اپنے کیریئر کے آخر میں سیاست میں آنے کا سوچتے ہیں، وہیں انہوں نے اپنے کیریئر کے ابتدائی دنوں میں ہی سیاست میں داؤں آزمانے کا من بنا لیا تھا۔ 1992 میں بھارتیہ جنتا پارٹی میں شامل ہونے سے 15 سال پہلے وہ سیاست میں سرگرم ہو چکے تھے۔

مشہور مجاہد آزادی جے پرکاش نرائن نے جب اندرا گاندھی کے خلاف مہم چھیڑی تو شاٹ گن اس میں شامل تھے۔ 1975 میں مسز گاندھی نے ایمرجنسی کا نفاذ کر دیا، جس کی جے پی سمیت کئی بڑے رہنماؤں نے شدید مخالفت کی۔ شتروگھن سنہا بلا تامل سیاسی طور پر جے پی سے متاثر ہونے کا اقرار کرتے ہیں۔ انہیں یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہوتی کہ انہی کی وجہ سے وہ سیاست میں آئے۔ 70 کی دہائی میں انہوں نے جے پی کے آندولن کو اپنی ریاست یعنی بہار میں فلمی شہرت کے ساتھ پیش کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔

جے پرکاش نرائن کا پیروکار ہونے کے ناطے شتروگھن سنہا کے تعلقات نتیش کمار اور لالو پرساد یادو جیسے رہنماؤں سے بھی استوار ہوئے۔ طلبا لیڈران کے طور پر ابھرے یہ دونوں رہنما نہ صرف بہار کی سیاست میں اہم حیثیت رکھتے ہیں بلکہ کہیں نہ کہیں قومی سیاست کو بھی متاثرکرتے ہیں۔ ان دونوں مقبول رہنماؤں سے شاٹ گن کے تعلقات ابھی بھی برقرار ہیں۔

سیاست میں باقاعدہ سرگرم ہونے کا ارادہ کرنے کے بعد ان کے سامنے زیادہ متبادل نہیں تھے۔ چونکہ انہوں نے آغاز کانگریس مخالف سیاست سے کیا تھا، سو جب کسی سیاسی پارٹی میں باقاعدہ شامل ہونے کی باری آئی تو دو ہی متبال  سامنے تھے۔ ایک تو وہ منڈل کی سیاست کر رہے جنتا دل میں شامل ہو جائیں، جو جے پی کی وراثت کو آگے بڑھانے کا بھی دعوے دار تھا۔ یا پھر کمنڈل کی سیاست کر رہی بی جےپی کا دامن تھام لیں، جو لال کرشن اڈوانی کی قیادت میں دنوں دن مضبوط ہوتی جا رہی تھی۔

بی جے پی میں شتروگھن سنہا بزرگ سیاستداں لال کرسن اڈوانی کے نزدیکی مانے جاتے رہے۔ اپنی بیباک فطرت کی  وجہ سے شترو نے اسے کبھی چھپایا بھی نہیں۔ کئی بار وہ خود کہہ چکے ہیں کہ سیاست میں وہ اڈوانی جی کی وجہ سے ہی آئے۔اڈوانی نے بھی ان کے تئیں کئی بار اپنے مربیانہ جذبات کا اظہار کیا۔ اس کی جھلک سب سے پہلے1991 میں نظر آئی، تب جب لال کرشن اڈوانی کی جیتی ہوئی سیٹ سے شتروگھن سنہا پہلی بار انتخابی میدان میں اترے۔ 1992 میں وہ نئی دہلی لوک سبھا سیٹ سے ایک اور مشہور اداکار راجیش کھنہ کے خلاف بی جے پی کے ٹکٹ پر میدان میں اترے۔ ‘کاکا’ کے نام سے مشہور راجیش کھنہ نے انہیں ہرا دیا، لیکن پارٹی میں شاٹ گن کی حیثیت بڑھتی گئی۔

1996 سے 2008 تک وہ دو بار راجیہ سبھا کے ممبر رہے۔ 2003 میں جب اٹل بہاری واجپائی کی سرکار میں توسیع ہوئی تو شتروگھن سنہا کو مرکز میں صحت و خاندانی منصوبہ بندی اور جہازرانی کی وزارت سونپی گئی۔ 2009 میں سنہا نے پٹنہ صاحب سے پہلی بارالیکشن جیتا۔ 2014 میں بھی سنہا نے 55 فیصد ووٹ حاصل کر فتح پائی، مگر منتری منڈل میں جگہ نہ ملنے سے ناراض ہو گئے۔ تب سے لے کر اب تک ناراض شتروگھن سنہا پارٹی اور درپردہ وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف لگاتار بیان بازی کرتے رہے ہیں۔

اس سے پہلے وہ ان چند لوگوں میں تھے، جنہوں نے 2014 میں ہونے والے لوک سبھا انتخاب  کے لیے مودی کو وزیر اعظم کے عہدے کا دعوےدار بنانے کی حمایت کی تھی۔ فروری 2013 میں سنہا کے سرپرست اڈوانی اور مودی میں اس معاملے کو لے کر کھینچ تان جاری تھی کہ شترو نے مودی کی حمایت کر دی۔ اس کے لیے انہوں نے پارٹی صدر راجناتھ سنگھ کے ذریعے منھ بند رکھنے کے حکم کو بھی پوری طرح نظر انداز کر دیا۔

مودی کی اس طرح حمایت کے تھوڑے وقت بعد ہی ان کا رخ پھر بدلا۔ جولائی 2013 میں انہوں نے کہا،اڈوانی جی نے بی جے پی کے لیے بہت کچھ کیا ہے۔ ان سے بہتر کوئی شخص نہیں ہو سکتا۔ انہیں نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ پارلیامنٹری بورڈ کی میٹنگ میں بھی انہوں نے وزیر اعظم کے امیدوار کی حیثیت سے مودی کی حمایت کی لیکن اڈوانی کو بھی ان کا واجب مقام دیے جانے کی بات کہی۔

سنہا ہوا کا رخ بھانپ لینے والوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ اپریل 2014 میں انہوں نے بی جےپی کے 300 سے زیادہ سیٹیں جیتنے کا دعویٰ کیا تھا۔ اب دہلی، پٹنہ اور ممبئی کے حلقوں میں یہی قیاس لگائے جا رہے ہیں کہ کانگریس اور لالو کی مدح سرائی میں مصروف شترو نے کیا پھر کچھ اندازہ لگا لیا ہے؟