اب لوک سبھا سے اپوزیشن کے 49 اور ایم پی معطل، گزشتہ ہفتے سے اب تک کل 141 ممبران معطل

11:10 AM Dec 22, 2023 | شراوستی داس گپتا

پارلیامنٹ کی سیکورٹی میں کوتاہی کے معاملے پر مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ سے بیان دینے کا مطالبہ کرنے کی وجہ سے 14 دسمبر سے اب تک معطل کیے گئے حزب اختلاف کے ممبران پارلیامنٹ کی کل تعداد 141 ہو گئی ہے۔ ایوان زیریں میں اپوزیشن جماعتوں کے صرف 47 ارکان رہ گئے ہیں۔

19 دسمبر 2023 کو لوک سبھا۔ (اسکرین گریب بہ شکریہ: سنسد ٹی وی)

نئی دہلی: منگل (19 دسمبر) کو اپوزیشن کے 49 اور ارکان پارلیامنٹ کو لوک سبھا سے معطل کر دیا گیا۔ 14 دسمبر سے اب تک معطل کیے گئے اپوزیشن ارکان کی تعداد 141 ہوگئی ہے۔ ایوان زیریں میں اپوزیشن جماعتوں کے صرف 47 ارکان رہ گئے ہیں۔

معطلی کی یہ کارروائی اس وقت کی گئی ہے جب ایک دن پہلے دونوں ایوانوں سے معطل کیے گئے اپوزیشن کے 78 ارکان پارلیامنٹ کی معطلی کے خلاف اپوزیشن جماعتوں نے احتجاج کیا۔

بتادیں کہ گزشتہ ہفتے (13 دسمبر کو) پارلیامنٹ کی سیکورٹی میں ہوئی  کوتاہی کے معاملے پر اپوزیشن وزیر داخلہ امت شاہ سے بیان کا مطالبہ کر رہی ہے۔

مودی حکومت نے اپوزیشن کے ارکان پارلیامنٹ کی معطلی کو اس بنیاد پر جواز فراہم کرنے کی کوشش کی ہے کہ بزنس ایڈوائزری کونسل کی میٹنگ میں یہ فیصلہ لیا گیا تھا کہ نئی پارلیامنٹ میں تختیاں (پلے کارڈ) لہرانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

منگل کو، جہاں اپوزیشن نے احتجاج کیا اور حکومت پر اپوزیشن کی آواز کو دبانے کا الزام لگایا، وہیں پارلیامانی امور کے وزیر پرہلاد جوشی نے لوک سبھا میں کہا کہ مودی حکومت کو یہ کارروائی کرنے کے لیے ‘مجبور’ کیا گیا ہے۔

جوشی نے کہا، ‘یہ طے کیا گیا تھا کہ کوئی بھی ایوان میں پلے کارڈ نہیں لائے گا۔ اس کے باوجود وہ پلے کارڈ لے کر آئے ہیں اور پارلیامنٹ کی توہین کر رہے ہیں۔ وہ لوک سبھا اسپیکر کی توہین کر رہے ہیں۔ یہی  وجہ ہے کہ  ہم دکھی ہیں لیکن ہمیں ایسی کارروائی کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔’

اس کے بعد مرکزی وزیر قانون و انصاف ارجن رام میگھوال نے ‘سنگین بدتمیزی’، ‘پلے کارڈز دکھانے اور ایوان کے ویل میں داخل ہونے’ کے لیے حزب اختلاف کے 49 اراکین پارلیامنٹ کو معطل کرنے کی تجویز پیش کی۔

منگل کے روز بقیہ سیشن کے لیے جن اپوزیشن ممبران پارلیامنٹ کو معطل کیا گیا ان کے نام یہ ہیں- وی ویتھیلنگم (کانگریس)، گرجیت سنگھ (کانگریس)، سپریہ سلے (این سی پی)، ایس ایس پلانیمنیکم (ڈی ایم کے)، ادور پرکاش (کانگریس)، عبدالصمد صمدانی (آئی یو ایم ایل)، منیش تیواری (کانگریس)، پردیوت بوردولوئی (کانگریس)، گردھاری یادو (جے ڈی یو)، گیتا کورا (کانگریس)، فرانسسکو سارادینا (کانگریس)، ایس جگترکشکن (ڈی ایم کے)، ایس آر پارتھیبن (ڈی ایم کے)، فاروق عبداللہ (این سی)، جیوتسنا مہنت (کانگریس)، اے گنیش مورتی (ڈی ایم کے)، مالا رائے (ٹی ایم سی)، پی ویلوسامی (ڈی ایم کے)، اے چیلا کمار (کانگریس)، ششی تھرور (کانگریس)، کارتی چدمبرم (کانگریس)، سدیپ بندوپادھیائے (ٹی ایم سی)، ڈمپل یادو (ایس پی)، حسنین مسعودی (این سی)، دانش علی (بی ایس پی)، خلیل الرحمان (ٹی ایم سی)، راجیو رنجن سنگھ (جے ڈی یو)، ڈی این وی سینتھل کمار (ڈی ایم کے)، سنتوش کمار (جے ڈی یو)، دلال چندر گوسوامی (جے ڈی یو)، رونیت سنگھ بٹو (کانگریس)، دنیش یادو (جے ڈی یو)، کےسدھاکرن (کانگریس)، محمد صادق (کانگریس)، ایم کے وشنو پرساد (کانگریس)، پی پی محمد فیضل (این سی پی)، سجادہ احمد (ٹی ایم سی)، جسبیر سنگھ گل (کانگریس)، مہابلی سنگھ (جے ڈی یو)، امول کولہے (این سی پی)، سشیل کمار رنکو (عآپ)، ایس ٹی حسن (ایس پی)، دھنش ایم کمار (ڈی ایم کے)، پرتبھا سنگھ (کانگریس)، تھول تھرومالاوان (وی سی کے)، چندیشور پرساد (جے ڈی یو)، آلوک کمار سمن (جے ڈی یو)، سنیل کمار (جے ڈی یو) اور دلیشور کامیت (جے ڈی یو)۔

اپنی معطلی کے بعد کانگریس کے رکن پارلیامنٹ منیش تیواری نے کہا کہ پارلیامنٹ ‘پوری طرح سے غیر قانونی’ ہو گئی ہے۔

انہوں نے خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کو بتایا، ‘پارلیامنٹ پوری طرح سےغیر قانونی ہو چکی ہے۔ یہ پارلیامنٹ میں سخت ترین قوانین کی منظوری کے لیے ایک فریم ورک تیار کرنا ہے جو ملک کو پولیس اسٹیٹ میں بدل دے گا۔’

ہندوستان ٹائمز کے مطابق، حکومت نئے ضابطہ فوجداری بل کو پاس کرنے کی خواہشمند ہے اور یہ ممکنہ طور پر منگل یا بدھ کو ہو گا۔

سوموارکو پارلیامنٹ کے دونوں ایوانوں سے کل 78 اپوزیشن ممبران پارلیامنٹ کو معطل کر دیا گیا تھا، جن میں لوک سبھا کے 33 اور راجیہ سبھا کے 45 ممبران شامل ہیں۔

اس سے قبل 14 دسمبر کو کل 14 ایم پی (13 لوک سبھا اور ایک راجیہ سبھا سے) کو معطل کر دیا گیا تھا۔

سترہویں لوک سبھا میں غیرمعمولی تعداد میں ممبران پارلیامنٹ کو معطل کیا جا رہا ہے۔ 1989 میں راجیو گاندھی حکومت کے دوران لوک سبھا سے سب سے زیادہ ممبران پارلیامنٹ کو معطل کیا گیا تھا، جب 63 ممبران پارلیامنٹ کو باہر جانے کے لیے کہا گیا تھا۔

انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔