لاک ڈاؤن کی وجہ سے بےروزگار ہوئے دہلی اور آس پاس کے علاقوں میں رہ رہے مزدور اتر پردیش اور بہار جیسی ریاستوں میں اپنے گھر واپس لوٹ رہے تھے، لیکن پولیس کے ذریعے پیدل آگے جانے سے روکے جانے پر یہ لوگ دہلی اتر پردیش بارڈر پر پھنس گئے ہیں۔
علامتی تصویر، فوٹو: پی ٹی آئی
نئی دہلی: بےروزگار فیکٹری مزدور وجئے کمار اپنی بیوی اور دو بچوں کے ساتھ کئی گھنٹوں تک غازی پور میں ایک فلائی اوور کے نیچے اس امید میں کھڑے رہے کہ شاید انہیں اپنے آبائی شہر سیتاپور جانے کے لیے کوئی بس مل جائے۔اس سے پہلے پولیس نے اتوار کو دہلی اتر پردیش بارڈر پر انہیں روک دیا تھا۔ وجئے(28)نے بتایا کہ وہ گڑگاؤں کے ٹکری میں جس جوتے چپل بنانے والے کارخانے میں کام کرتے تھے، وہاں انہیں مارچ سے پیسہ نہیں دیا گیا۔
انہوں نے سنیچر شام کو 600 کیلومیٹر دورواقع اپنے گھر کے لیے بیوی سمن اور بیٹی آروشی (2) اور بیٹے سنی (4) کے ساتھ پیدل ہی سفر شروع کیا۔وجئے کمار ان سینکڑوں مہاجر کارخانہ مزدوروں، یومیہ مزدوروں، ریہڑی پٹری والوں اور دوسرے چھوٹے موٹے کام کرنے والوں میں شامل ہے، جو کو رونا وائرس کی وجہ سے جاری لاک ڈاؤن کی وجہ سے بےروزگار ہو چکے ہیں۔
یہ لوگ اب اتر پردیش اور بہار جیسی ریاستوں میں اپنے گھر واپس لوٹ رہے تھے لیکن پولیس کے ذریعے پیدل آگے جانے سے روکے جانے پر یہ لوگ دہلی اتر پردیش بارڈر پر پھنس گئے ہیں۔چہروں پر فکرکی لکیریں اور مایوسی لیے ان میں سے کئی نے کہا کہ یہاں رکے رہنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ کمار نے کہا، ‘سیتاپور واپس جانے کے علاوہ دوسرا کوئی راستہ نہیں ہے، کیونکہ مجھے مارچ سے کوئی پیسہ نہیں ملا ہے۔’
کمار نے کہا، ‘میں نے سوچا تھا اتر پردیش کے بارڈر سے بس پکڑ لوں گا۔ لیکن یہاں کچھ نہیں ہے۔ میرے پاس صرف قریب 700 روپے ہیں اور یہاں کسی سے مدد کی امید بھی کم ہے۔ اگر کچھ نہیں ملا تو میں اپنی فیملی کے ساتھ پیدل ہی وہاں کے لیے روانہ ہو جاؤں گا۔’
گھروں میں رنگ وروغن کا کام کرنے والے انل سونی نے بھی اپنی فیملی کے ساتھ دہلی اتر پردیش بارڈرپار کرنے کی کوشش کی تھی، لیکن پولیس والوں نے انہیں بھی روک دیا تھا۔سونی نے کہا، ‘بند اور کو رونا وائرس کی وجہ سے میرا کام چھوٹ گیا کیونکہ لوگ نہیں چاہتے کہ کوئی انجان آدمی ان کے گھر میں گھسے۔’
اپنی بیوی اور تین بچوں کے ساتھ سونی اتر پردیش کے بدایوں جانے کے لیے نکلے تھے۔ ان کا سب سے چھوٹا بچہ محض 10 مہینے کا ہے۔انہوں نے کہا، ‘میں یہاں واپس نہیں آؤں گا بھلے ہی گھر پر مجھے بھیک مانگنی پڑے۔ یہ کوئی زندگی نہیں ہے۔ کیا آپ مجھے بتا سکتے ہیں کہ میں کیا کروں؟ پولیس والے ہمیں آگے نہیں جانے دیتے اور یہاں کوئی بس یا ٹرین نہیں ہے، کوئی ٹکٹ خریدنا چاہے تو بھی نہیں۔’
فلائی اوور کے نیچے پھنسے ہوئے مزدور دھوپ سے تھوڑی راحت پاتے ہیں لیکن فکر ان کا پیچھا نہیں چھوڑتی اور پولیس انہیں غازی آ باد کے بارڈر میں جانے نہیں دیتی۔موقع پر موجود دہلی پولیس کے ایک افسر نے کہا، ‘ہمیں ہدایت دی گئی ہے کہ کوئی بھی آدمی بنا دستاویز کے بارڈر پار نہ کر پائے۔ ان لوگوں کے لیے ہم کچھ نہیں کر سکتے۔’
کچھ سماجی تنظیموں کے ذریعے پھنسے ہوئے لوگوں کے لیے کھانا اور پانی کا انتظام کیا گیا تھا لیکن یہاں موجود لوگوں کی واحدفکر گھر پہنچنے کی ہے۔انہیں لوگوں میں سائیکل سوار آٹھ مزدوروں کا ایک گروپ بھی ہے جو اتر پردیش کے بہرائچ جانے کی کوشش کر رہا ہے۔
انہیں میں سے ایک ببلو (21) نے کہا، ‘میرے پاس اب کچھ بھی نہیں ہے کیونکہ میں نے 4000 روپے میں یہ سائیکل خرید لی۔ اب پولیس والے اسے تھانے پر رکھنے اور دہلی سرکار کے کیمپ جانے کو کہہ رہے ہیں۔ میں کہیں نہیں جا رہا، میں یہاں سے نہیں ہلوں گا۔’
یہ گروپ نجف گڑھ میں ایک فارم ہاؤس میں کام کرتا تھا اور جب گیہوں کی فصل کٹ گئی تو مالک نے انہیں وہاں سے نکال دیا۔ ان میں سے ایک نریش نے بتایا، ‘بہرائچ میں ہمارے کھیت ہیں لیکن ہم یہاں کچھ نقد کمانے آئے تھے۔ میں اب کبھی ایسا نہیں کروں گا بھلے ہی گھر پر بھوکا مر جاؤں۔’
انہوں نے بتایا کہ آٹھ لوگوں کے اس گروپ میں سے پانچ کے پاس سائیکل ہے، جس سے وہ جانا چاہتے تھے۔دو لڑکے ہریانہ کے پانی پت سے اپنے گھر گورکھپورجانے کے لیے پیدل یہاں تک آ گئے۔ کو رونا وائرس کی وجہ سے25 مئی کو بند شروع ہونے سے پہلے پانی پت میں کھانے کا ٹھیلا لگانے والے 18 سال کے انکت نے کہا، ‘کیا مجھے ٹرین مل سکتی ہے؟ ہم پانی پت سے پیدل چل کر اس امید میں یہاں تک آئے کہ ہم بس یا ٹرک پکڑ لیں گے۔ میں نے سنا تھا کہ سرکار نے ٹرین شروع کی ہے۔’
معلوم ہو کہ کو رونا وائرس کے پھیلاؤکو روکنے کے لیے جاری ملک گیر لاک ڈاؤن کی وجہ سے مہاجر مزدور اپنی ریاستوں کی طرف نقل مکانی کرنے کو مجبور ہیں۔ اس دوران بڑی تعداد میں مزدور سڑک حادثوں کے بھی شکار ہو رہے ہیں۔
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)