کیرل ہائی کورٹ نے مبینہ طور پر ملک گیر لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کرنے والے لوگوں کے خلاف پولیس کی زیادتی کے مبینہ واقعات کا از خود نوٹس لیا ہے۔
نئی دہلی:کیرل ہائی کورٹ نے مبینہ طورپرملک گیر لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کرنے والے لوگوں کے خلاف پولیس کی بربریت کے مبینہ واقعات کا از خودنوٹس لیا ہے۔لائیو لاء کے مطابق جسٹس اےکے جئے شنکرن نامبیار اور جسٹس شاجی پی چیلی نے غیر قانونی پولیس زیادتیوں کے معاملے میں ریاست کے افسروں کے ساتھ ساتھ مرکزی حکومت کو بھی نوٹس جاری کیا ہے۔
بنچ نے مانا کہ کورونا وائرس کے انفیکشن کا سرکل توڑنے کے لیے سماجی دوری بنائے رکھنا ضروری ہے اور اس طرح ریاست نے بھیڑ جمع نہ ہو، اس پر پابندی لگانے کے لیے پولیس فورس کی تعیناتی کی تھی۔حالانکہ عدالت نے کہا کہ وہ میڈیا رپورٹس کو نظر انداز نہیں کر سکتی، جن میں ایسے پولیس اہلکاروں کے ذریعے تشدد کرنےکا انکشاف کیا گیا ہے۔
بنچ نے کہا، ‘ہم پرنٹ اور سوشل میڈیا میں بہت سارے مواد دیکھ چکے ہیں، جو ہمیں یقین دلاتے ہیں کہ میڈیکل افسروں اور پولیس اہلکاروں کے ذریعےقابل تقلید کام کیا جا رہا ہے۔ دیگر مواد جو پچھلے ایک ہفتے میں پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا میں شائع ہوا ہے، جو پولیس اہلکاروں کے ذریعے اپنے فرائض کی ادائیگی دوران کی گئیں زیادتیوں کو نشان زد کرتی ہے۔’
بنچ نے کہا کہ لاک ڈاؤن کے دوران لوگوں کے خلاف پولیس کی زیادتیوں کا کوئی جواز نہیں۔ بحران کی اس حالت میں بھی لوگوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔بنچ نے کہا، ‘کووڈ 19 وبا سے ہم سبھی متاثر ہوئے ہیں، لیکن اس دوران ہمارے شہریوں کے حقوق کی حفاظت کرنے کے لیے کام کرنا جاری رکھنا چاہیے۔’
عدالت نے آگے کہا، ‘ہمارے آئین کے آرٹیکل 21 کے تحت زندگی اورذاتی آزادی کا بنیادی حق،ایمرجنسی کے دوران بھی رد نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ہمیں اپنے بنیادی حقوق کی پامالی کے بارے میں بھی شہریوں کے بیچ ڈر کو دور کرنا ہے۔’
بتا دیں کہ کو رونا وائرس انفیکشن سے نپٹنے کے لیے پچھلے 25 مارچ سے ملک گیر لاک ڈاؤن نافذ کر دیا گیا۔ اس دوران کئی میڈیا رپورٹس میں پولیس کے ذریعے مبینہ طورپر سڑکوں پر لوگوں کو سزا دینے یا ان کے ساتھ مارپیٹ کرنے یا سبزی کی گاڑیوں پر حملہ کرنے کی کئی مثالیں سامنے آئی ہیں۔
غور طلب ہے کہ ملک میں کورونا وائرس سے مرنے والوں کی تعداد 32 ہو چکی ہے اور اس وبا کے انفیکشن سےمتاثر ہونے والوں کی تعداد بڑھ کر 1251 ہو گئی ہے۔