سپریم کورٹ پر بیان کو لے کرنشی کانت دوبے کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا مطالبہ، اے جی کو خط

02:52 PM Apr 21, 2025 | دی وائر اسٹاف

سپریم کورٹ کے خلاف ریمارکس کے لیے  بی جے پی کے رکن پارلیامنٹ نشی کانت دوبے کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے وکیل انس تنویر نے کہا کہ دوبے نے فرقہ وارانہ  طور پرپولرائزیشن  کرنے والے بیان دیےتھے، جو براہ راست  سپریم کورٹ کی غیر جانبداری پر شک وشبہات کوجنم دیتا ہے۔

نئی دہلی: اٹارنی جنرل آر وینکٹ رمنی کو ایک خط بھیج کر بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رکن پارلیامنٹ نشی کانت دوبے کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کرنے کی منظوری طلب کی  گئی ہے۔ دوبے نے سپریم کورٹ کے وقار اور اختیار کو کم کرنے کے مقصد سے ‘انتہائی قابل مذمت’ اور ‘گمراہ کن’ بیان دیے تھے۔

یہ خط ہفتہ (19 اپریل) کو دوبے کے اس بیان کے بعد سامنےآیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ چیف جسٹس آف انڈیا سنجیو کھنہ ‘ملک میں خانہ جنگی’ کے لیے اور سپریم کورٹ ‘مذہبی جنگوں’ کے لیے ذمہ دار ہیں۔

تاہم، بی جے پی کے صدر اور مرکزی وزیر جے پی نڈا نے کہا ہے کہ ان کی پارٹی ‘نہ تو ایسے بیان سے اتفاق کرتی ہے اور نہ ہی کبھی ایسے بیان کی حمایت کرتی ہے۔’ تاہم، انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ  نشی کانت دوبےکے خلاف کوئی کارروائی کی جائے گی یا نہیں۔

دی وائر کی جانب  سے دیکھے گئے خط میں دوبے کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے وکیل انس تنویر نے کہا کہ دوبے نے فرقہ وارانہ طور پر پولرائزنگ ریمارکس کیے ہیں جس سے سپریم کورٹ کی غیر جانبداری پر براہ راست شک پیدا ہوتا ہے۔

خط میں کہا گیا ہے،’یہ تبصرے نہ صرف حقائق کی رو سے غلط ہیں بلکہ ان کا مقصد معزز سپریم کورٹ کو بدنام کرنا، عوامی اعتماد کو ختم کرنا اور عدالتی غیر جانبداری پر فرقہ وارانہ عدم اعتماد کو ہوا دینا ہے، یہ سب واضح طور توہین عدالت  کےایکٹ 19 کی دفعہ 2(سی)(آئی) کے تحت بیان کیے گئے مجرمانہ توہین کے مفہوم میں آتے ہیں۔’

جسٹس کھنہ کے خلاف دوبے کے ریمارکس کا حوالہ دیتے ہوئے خط میں کہا گیا کہ ان کا بیان’انتہائی توہین آمیزاور خطرناک حد تک اشتعال انگیز’ تھا۔

اس میں کہا گیا، ‘یہ لاپرواہی کے ساتھ عزت مآب چیف جسٹس پر قومی بدامنی پھیلانے کا الزام لگاتا ہے، اس طرح ملک کے اعلیٰ ترین عدالتی ادارےکو بدنام کرتا ہے اور عوام میں عدم اعتماد، ناراضگی اور ممکنہ بدامنی کو ہوا دینے کی کوشش کرتا ہے۔ بغیر کسی بنیاد کے اس طرح کا الزام عدلیہ کی سالمیت اور آزادی پر سنگین حملہ ہے اور یہ معاملہ توہین عدالت ایکٹ 1971 کے تحت فوری اور مثالی قانونی تحقیقات کا مستحق ہے۔’

خط میں مزید کہا گیا ہے کہ دوبے کا یہ بیان کہ آرٹیکل 368 صرف پارلیامنٹ کو اس ملک میں قانون بنانے کا اختیار دیتا ہے ‘گمراہ کن’ ہے اور عدلیہ کو مقننہ کے اختیارات پر تجاوز کے طور پر پیش کرنے کی کوشش ہے، جبکہ حقیقت میں سپریم کورٹ کو آرٹیکل 1414 اور 1414 کے تحت آئینی احکامات کوبنائے  رکھنے کے لیے پابند ہدایات جاری کرنے کا پورا اختیار ہے۔

دوبے کا یہ تبصرہ ایسے وقت میں آیا ہے جب سپریم کورٹ وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 کو چیلنج کرنے والی عرضیوں کی سماعت کر رہی ہے۔

تنویر، جنہوں نے اٹارنی جنرل کو خط لکھا ہے، اس کیس میں ایک درخواست گزار کی نمائندگی کر رہے ہیں۔

بنگال کے بی جے پی ایم ایل اے نے نشی کانت دوبے کی حمایت کی

بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایم ایل اے اگنی مترا پال نے اتوار کو سپریم کورٹ کے خلاف نشی کانت دوبے کے ریمارکس کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ اگر ملک کو سپریم کورٹ اور چیف جسٹس آف انڈیا چلا رہے ہیں تو پارلیامنٹ کی کوئی  ضرورت نہیں ہے۔

پال نے کہا، ‘انہوں نے ٹھیک کہا ہے۔ صدر ہندوستان کے چیف جسٹس کی تقرری  کرتے ہیں۔ پھر چیف جسٹس آف انڈیا صدر کے حکم کو کیسے رد کر سکتے ہیں؟ وہ ملک کے قانون سازوں اور پالیسی سازوں کے فیصلے کو کیسے رد کر سکتے ہیں؟ اگر ملک کو چیف جسٹس اور سپریم کورٹ چلا رہے ہیں تو پارلیامنٹ کی  کوئی ضرورت نہیں ہے۔ پھر سب کچھ سی جے آئی کو ہی  کرنا چاہیے۔’

معلوم ہو کہ جمعرات کو ہی نائب صدر جگدیپ دھنکھڑنے بھی عدلیہ کی مذمت کی تھی اور آرٹیکل 142، جو سپریم کورٹ کو انصاف کے مفاد میں ضروری احکامات جاری کرنے کا اختیار دیتا ہے، کو’جمہوری طاقتوں کے خلاف نیوکلیئر میزائل’ قرار دیا تھا۔

ایسا اس وقت ہواہے،جب سپریم کورٹ نے ایک تاریخی فیصلے میں ریاستی گورنروں کے ذریعے بھیجے گئے بلوں پر فیصلہ لینے کے لیے صدر کے لیےایک ٹائم لائن مقرر کر دی تھی اور کہا تھا کہ تمل ناڈو کے گورنر آر این روی کےذریعے دس سے زیادہ بلوں کو اپنی منظوری نہ دینا اور انہیں صدر کی منظوری کے لیے محفوظ رکھناغیر قانونی ہے ۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔)