اتر پردیش کےلکھیم پور کھیری سےایم پی اور وزیرمملکت برائےداخلہ اجئے کمارمشرا‘ٹینی’نے کسانوں کی تحریک کو لےکر دھمکی دی تھی۔ان کے خلاف تین اکتوبر کو کسانوں نے ان کے آبائی گاؤں بن بیرپورمیں منعقد ایک پروگرام میں ڈپٹی سی ایم کیشو پرساد موریہ کے جانے کی مخالفت کی تھی۔الزام ہے کہ اس دوران ان کے بیٹے آشیش مشرا نے اپنی گاڑی سے کچل کر چار کسانوں کو ہلاک کر دیا تھا۔ مرکزی وزیر کی مجرمانہ تاریخ رہی ہے۔
نئی دہلی: وزیرمملکت برائے داخلہ اجئے کمارمشرا‘ٹینی’پچھلے تقریباً ایک مہینے سے سرخیوں میں بنے ہوئے ہیں اور سنیکت کسان مورچہ کی قیادت میں کسان ان کے استعفیٰ اور گرفتاری کی مانگ کر رہے ہیں۔ اس کی وجہ لکھیم پور کھیری کاخوفناک واقعہ اور ان کی‘داداگیری’ہے۔
اتر پردیش کےلکھیم پور کھیری ضلع کےتکو نیہ علاقے میں کسانوں کا ایک گروپ اتر پردیش کے ڈپٹی سی ایم کیشو پرساد موریہ کے دورےکے خلاف تین اکتوبر کو مظاہرہ کر رہا تھا، تبھی ایک ایس یووی(کار) نے چار کسانوں کومبینہ طور پر کچل دیا، جس سے ان کی موت ہو گئی تھی۔اس واقعہ میں کل آٹھ لوگوں کی موت ہوئی تھی۔
وزیرمملکت برائے داخلہ اجئے کمارمشرا‘ٹینی’لکھیم پور کھیری کے ایم پی بھی ہیں، جن کےخلاف وہاں کے کسانوں نے ان کےآبائی گاؤں بن بیرپور میںمنعقد ایک ‘دنگل’ میں ڈپٹی سی ایم کیشو پرساد موریہ کے جانےکی مخالفت کر رہے تھے۔
حالانکہ یہ سب اچانک سے نہیں ہوا تھا۔ مرکزی حکومت کے تین زرعی قوانین کےخلاف تقریباً دس مہینے سےمظاہرہ کر رہےکسانوں کی ناراضگی وزیرمملکت برائے داخلہ اجئے کمارمشرا‘ٹینی’ کے اس بیان کے بعد اور بڑھ گئی تھی، جس میں انہوں نے کسانوں کو ‘دو منٹ میں سدھار دینے کی وارننگ’ اور ‘لکھیم پور کھیری چھوڑنے’ کی دھمکی دی تھی۔
گزشتہ25 ستمبر کو ایک پروگرام میں اسٹیج سے وزیر مملکت برائے داخلہ کہہ رہے ہیں،‘میں صرف وزیر نہیں ہوں، ایم پی ، ایم ایل اےبھر نہیں ہوں، جو ایم ایل اے اورایم پی بننے سے پہلے میرے بارے میں جانتے ہوں گے، ان کو یہ بھی معلوم ہوگا کہ میں کسی چیلنج سے بھاگتا نہیں ہوں۔’
مشرا نے وارننگ کے لہجے میں کہا،‘جس دن میں نے اس چیلنج کو قبول کرکے کام کر لیا اس دن پلیا نہیں، لکھیم پور تک چھوڑنا پڑ جائےگا،یہ یاد رہے۔’
اس میں انہیں یہ بھی کہتے سنا جا سکتا ہے کہ ‘سامنا کرو آکر، ہم آپ کو سدھار دیں گے، دو منٹ لگےگا صرف۔’
اتنا ہی نہیں لکھیم پور کھیری میں گزشتہ تین اکتوبر کو ہوئےاس تشدد کے معاملے میں ان کے بیٹے آشیش مشرا پر کسانوں کو کچل کر ان کوہلاک کیے جانے کے الزام ہیں۔
ایک مرکزی وزیر کی جانب سے اس طرح کی دھمکی بھری بیان بازی کرنے کی وجہ کیا ہے، اس کا اندازہ ان کے پرانے مجرمانہ ریکارڈ کو دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے۔
مشرا کے خلاف پہلا معاملہ سال 1990 میں درج کیا گیا تھا، جس میں ان پر آئی پی سی کی دفعہ323 (ارادے سے چوٹ پہنچانے کے لیے سزا)، دفعہ324(خطرناک ہتھیاروں یا وسائل سے مرضی سے چوٹ پہنچانا) اور 504(امن و امان کو متاثر کرنے کے ارادے سے جان بوجھ کر کی گئی توہین)کے تحت الزام لگائے گئے تھے۔
اس کے بعد سال 1996 میں ان کے نام پر تکونیہ پولیس تھانے میں ایک‘ہسٹری شیٹ’ کھولا گیا تھا، لیکن کچھ مہینے بعد اسے بند کر دیا گیا۔ اس کے بعد 23سالہ پربھات گپتا نام کے شخص کے قتل کےالزام میں سال 2000 میں ان کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔لکھیم پور کھیری کےتکونیہ علاقے میں گپتا کو گولی مارکر ہلاک کر دیا گیا تھا۔
اس معاملے میں سال 2004 میں انہیں بری کر دیا گیا تھا، لیکن گپتا فیملی نے الہ آباد ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی اور معاملہ ابھی بھی زیر سماعت ہے۔
غورطلب ہے کہ ضلع پنچایت ممبر سےاپنی سیاسی زندگی کی شروعات کرنے والے اجئے کمارمشراسال 2012 میں کھیری ضلع کے نگھاسن اسمبلی حلقہ سے بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایم ایل اے چنے گئے۔
پارٹی نے 2014 میں انہیں کھیری لوک سبھا سےامیدوار بنایا اور وہ انتخاب جیت گئے۔ 2019 میں انہیں بی جے پی نے دوبارہ موقع دیا اور وہ پھر سےلوک سبھا کا انتخاب جیت گئے۔
اجئے مشراکے لوک سبھا اوراسمبلی انتخاب کے دوران الیکشن کمیشن کو سونپے گئے حلف ناموں میں بھی ان معاملوں کی تفصیلات ملتی ہیں۔
سال 2012 کے اتر پردیش اسمبلی انتخاب کے دوران انہوں نے کمیشن کو بتایا تھا کہ ان کے خلاف جرم نمبر92/2005،مقدمہ نمبر3592/07،3593/07 کےتحت عدالت نے نوٹس لیا ہے، جس میں ان کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ147(دنگا)، 323(ارادے سے چوٹ پہنچانے کے لیےسزا)، 504 (امن و امان کو متاثر کرنے کے ارادے سے جان بوجھ کر کی گئی توہین)، 506(مجرمانہ طور پر دھمکی)اور 452 کے تحت الزام لگائے گئے ہیں۔
حلف نامے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ قتل معاملے میں نچلی عدالت کے ذریعے انہیں بری کیاجانے والا کیس ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے۔
اس کے بعد سال 2014 کے لوک سبھا انتخاب کے دوران انہوں نے الیکشن کمیشن کو پرانے معاملے کو دہراتے ہوئے ایک نیا معاملہ جرم نمبر41/2000،مقدمہ نمبر518/2001- کے بارے میں بتایا، جس میں ان پر قتل کا الزام لگایا گیا تھا اور 29/03/2004 کو انہیں بری کر دیا گیا تھا۔
سال 2019 کے لوک سبھا انتخاب میں دائر اپنے حلف نامے میں اجئے مشرا نے اپنے سابقہ دو الزامات کو ہٹا دیا اور صرف سال 2000 کے اس قتل معاملے کا ذکر کیا، جس میں نچلی عدالت نے بری کر دیا تھا اور اس کے خلاف اپیل کے بعد یہ معاملے الہ آباد ہائی کورٹ میں ہیں۔
اس طرح یہاں دستاویزوں سے واضح ہوتا ہے کہ مشرا کے خلاف مجرمانہ الزامات کی طویل فہرست ہے، جس میں قتل جیسے سنگین الزام بھی شامل ہیں۔
اسی سال جولائی کے پہلے ہفتے میں وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے کابینہ میں پھیر بدل اور توسیع کی تو اتر پردیش کے تین دلت اور تین پچھڑے ایم پی کے ساتھ ہی اکلوتے برہمن اجئے مشرا کو اس میں شامل کیا۔
اجئے مشرا کو وزیر مملکت برائے داخلہ جیسا اہم منصب ملا۔ پارٹی نے برہمن چہرے کے طور پر انہیں آگے کیا اور ان کے دورے اور کئی اجلاس بھی منعقد کیے۔
بہرحال لکھیم پورتشدد معاملے میں گرفتار کیے گئے لوگوں کی تعداد بڑھ کر دس ہو گئی ہے، جس میں اجئے مشرا کے بیٹے آشیش مشرا بھی شامل ہیں۔مشرااور مقامی دیگر کے خلاف چار کسانوں کے قتل کا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
کسانوں کا الزام ہے کہ آشیش مشرا نے کسانوں کو اپنی گاڑی سے کچلا ہے۔ حالانکہ وزیر اور ان کے بیٹے نے اس بات سےانکار کیا ہے۔
آشیش کو گزشتہ نو اکتوبر کو تقریباً12 گھنٹے تک چلی پوچھ تاچھ کے بعدگرفتار کیا گیا تھا اور تب سے وہ جیل میں ہیں۔
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں)