اتر پردیش کےلکھیم پور کھیری میں کسانوں کےمظاہرہ کےدوران ہوئےتشددمیں مارے گئے آٹھ لوگوں میں35سالہ صحافی رمن کشیپ بھی شامل ہیں۔اہل خانہ کا الزام ہے کہ ابتدائی طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سےصحافی کی موت ہوئی ہے۔انہوں نے 50 لاکھ روپےمعاوضے اور ایک فردکو سرکاری نوکری دینے کی مانگ کی ہے۔
صحافی رمن کشیپ کی تصویر دکھاتیں ان کی بیوی ارادھنا۔ (تمام فوٹو: عصمت آرا/دی وائر)
نئی دہلی: اتر پردیش کےلکھیم پور کھیری میں کسانوں کےمظاہرہ کے دوران ہوئےتشدد میں مارے گئے آٹھ لوگوں میں شامل 35سالہ صحافی رمن کشیپ کے اہل خانہ نے شکایت درج کرکےکہا ہے کہ ان کے بیٹےپر فائرنگ کی گئی تھی، جو ‘وی آئی پی’ قافلے کی گاڑیوں سے کسانوں کو کچلے جانے کا ویڈیو شوٹ کر رہے تھے۔
واقعہ کے ایک دن بعد سوموار (چار اکتوبر)کو دائر اپنی شکایت میں متاثرہ کے والد رام دلارے کشیپ نے کہا، ‘عینی شاہدین نے بتایا ہے کہ گاڑی کی کوریج ہونےپرصحافی پر فائرنگ کی گئی،جس کے فوٹیج میں گولیوں کی آواز بھی ہے۔’
رمن کشیپ سادھنا نیوز چینل کے ساتھ کام کر رہے تھے اور اس دن وہ تکونیہ کے کھیل میدان میں گئے تھے، جہاں مقامی ایم پی اور وزیر مملکت برائے داخلہ اجئے مشرا‘ٹینی’ اور اتر پردیش کے ڈپٹی سی ایم کیشو پرساد موریہ آنے والے تھے اور اس کو لےکر کسان مظاہرہ کر رہے تھے۔
مقامی لوگوں نے بتایا کہ مشرا کے آنجہانی والد کےاعزاز میں ہر سال یہاں اکتوبر میں‘دنگل’ کا اہتمام کرایا جاتا ہے۔
کسانوں کا الزام ہے کہ اجئے مشرا کے بیٹے آشیش مشرانے کسانوں کو اپنی گاڑی سےکچلا ہے،جس کی وجہ سےچار کسانوں سمیت آٹھ لوگوں کی موت ہوئی ہے۔یہ واقعہ لکھیم پور کھیری ضلع کےتکونیہ بن بیرپورشاہراہ پر پیش آیا، جہاں کسان ڈپٹی سی ایم کیشو پرساد موریہ اور مشرا کے بن بیرپور دورے کی مخالفت کر رہے تھے۔
ویسے تو وزیر مملکت برائے داخلہ اجئے مشرا اور ان کے بیٹے نے ان الزامات کو خارج کیا ہے، لیکن یوپی پولیس نے کسانوں کی شکایت کی بنیادپر آشیش مشرا اوردوسرے15-20 لوگوں کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ302(قتل)،120-بی(مجرمانہ سازش)،147(دنگا کرانا)،279(جلدبازی میں گاڑی چلانا) سمیت آٹھ دفعات میں کیس درج کیا ہے۔
ایف آئی آر میں لکھا ہے کہ مشرا اپنےحامیوں کے ساتھ اس گاڑی(تھار)میں بیٹھے تھے، جس نے کسانوں کو کچلا ہے۔اس معاملے کےسلسلےمیں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوا ہے،جس میں واضح طور پر دکھ رہا ہے کہ کسان پرامن ڈھنگ سے جا رہے تھے، تبھی پیچھے سے آ رہی دو گاڑیوں نے انہیں کچل دیا۔
صحافی کے اہل خانہ کی جانب سےدرج کرائی گئی شکایت۔
بہرحال،مہلوک صحافی کے والد رام دلارے نے کہا کہ وہ اور ان کے دو دوسرے بیٹے کسان ہیں، لیکن رمن کو کسان نہیں مانا جانا چاہیے، کیونکہ وہ صحافی تھے۔
انہوں نے کہا،‘وہ وہاں مظاہرہ میں شامل ہونے یا کسی کا سپورٹ کرنے نہیں گئے تھے۔ وہ وہاں ایک رپورٹر کے طور پر رپورٹ کرنے گئے تھے۔ اسے اپنا کام کرتے وقت مارا گیا ہے۔’
اجئے مشرا نے اپنے بی جے پی کارکنوں میں رمن کشیپ کو بھی جوڑ دیا تھا، جس کو بعد میں اہل خانہ نے سرے سے خارج کیا۔
گزشتہ اتوار(جس دن یہ واقعہ پیش آیا)کو رام دلارے کافی فکرمند ہو گئے کیونکہ آس پاس کے رہنے والے ان کے بیٹے کے دوست واپس آ گئے تھے، لیکن ان کا فون بند آ رہا تھا اور کچھ بھی پتہ نہیں چل رہا تھا۔
بعد میں دیر رات ان کے پاس پولیس کا ایک فون آیا۔ دلارے اپنے دو چھوٹے بیٹوں پون اور رجت، ایک داماد اور ایک بھائی کے ساتھ لکھیم پورضلع اسپتال گئے، جہاں انہیں بیٹے رمن کی لاش دکھائی دی۔
پون نے دی وائر کو بتایا کہ اہل خانہ نے مقامی پولیس اسٹیشن نگھاسن اور تکو نیہ میں شکایت دائر کرکے کہا ہے کہ وزیرکے بیٹے آشیش صحافی کی موت کے لیے ذمہ دار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ رمن کے جسم اور سر پر چوٹ کے کئی نشان تھے۔
مقامی رپورٹر اور نگھاسن میں رمن کشیپ کے پڑوسی سنیل موریہ کا کہنا ہے کہ جب تشدد بڑھنے لگا تو وہ تقریباً100میٹر کی ہی دوری پر تھے۔موریہ کہتے ہیں کہ انہوں نے کسانوں کو ٹکر مارنے والی گاڑیوں کی آوازیں سنی تھی۔ انہوں نے بتایا،‘لیکن پولیس نے گاڑیوں کو روکنے کے لیےکچھ نہیں کیا۔’
اپنا خود کا ڈیجیٹل نیوز چینل یوسی نیوز چلانے والے ایک دوسرے صحافی سردیپ سنگھ چنی کا کہنا ہے کہ جب گاڑیوں نے لوگوں کو ٹکر ماری تو وہ وہاں موجود تھے۔
انہوں نے دی وائر کو بتایا،‘میں کچھ دوسرے صحافیوں کے ساتھ کسانوں کے احتجاج کو کور کر رہا تھا۔ تبھی ہم نے اچانک سے تین گاڑیوں کو ہماری طرف بھاگتے دیکھا۔ گاڑی کچھ لوگوں سےٹکرا گئی اور میں خود کو بچانے کے لیے سڑک کے کنارے کود گیا۔ اس وجہ سے مجھے بھی چوٹیں آئیں۔’
رمن کشیپ کے والدرام دلارے کشیپ۔
حالانکہ اس کے فوراً بعد وہ دو زخمی کسانوں کے ساتھ پاس کے ایک اسپتال میں بنیادی طبی امداد کے لیے چلے گئے۔ جب وہ لوٹے تو انہیں رمن کشیپ دکھائی نہیں دیے۔
انہوں نے کہا، ‘میں نے شام تک کشیپ کا انتظار کیا تاکہ ہم ایک ساتھ گھر واپس جا سکیں۔ بعد میں مجھے خبر ملی کہ ان کی موت ہو گئی ہے۔’
رمن کشیپ کے پسماندگان میں بیوی ارادھنا، تین سال کا بیٹا ابھینو اور 11 سال کی بیٹی ویشنوی کو چھوڑ گئے ہیں۔ وہ اپنے دو بھائیوں اور بہنوں میں سب سے بڑے تھے۔ رمن کے دونوں بھائی کسان ہیں۔
چھ کلاس میں پڑھنے والی ویشنوی کو اس بات کا یقین نہیں ہے کہ ان کےوالد واپس نہیں آئیں گے۔ وہ گزرتی ہوئی کاروں کو دیکھتی ہیں اور اپنے چچا پون سے معصومیت سے پوچھتی ہیں،‘کیا یہ وہی ہیں؟’
پون کا کہنا ہے کہ تین سال کا ابھینو ابھی بھی سوچتا ہے کہ اس کے والد کہیں گئے ہیں اور جلد ہی اس کے اور اس کی بہن کے لیے سموسے لےکر واپس آئیں گے۔
کشیپ کے گھروالوں کا کہنا ہے کہ وہ دو مہینے پہلے ہی نیوز چینل سے جڑے تھے اور ایک مقامی اسکول میں پڑھاتے بھی تھے۔ان کے دوست امیش پانڈے کا کہنا ہےکہ کافی لوگوں کےاکٹھا ہونے کی خبر کے باوجود پولیس حالات کو سنبھالنے کے لیے پوری طرح تیار نہیں تھی۔
پون نے سوال کیا،‘میرے ایک دوست نے کہا تھا کہ احتجاج کے دوران تشدد کا بہت امکان ہے۔اگر ایک عام آدمی بتا سکتا ہے کہ حالات اتنے خراب ہو سکتے ہیں تو پولیس پہلے سے اس کا اندازہ کیوں نہیں لگا سکی؟’
انہوں نے کہا، ‘ہمارے گھروالوں کو مقامی تکو نیہ پولیس سے ناراضگی ہے۔ پہلی بات انہوں نے آس پاس کے لوگوں کی سلامتی کو یقینی بنانےکےلیےخاطرخواہ قدم نہیں اٹھایا، اور دوسری بات انہوں نے میرے بھائی کو بنیادی طبی امداد نہیں دی۔’
جب پون نے اس ایمبولینس کے ڈرائیور سے بات کی جس میں کشیپ کو اسپتال لے جایا گیا تھا تو انہیں پتہ چلا کہ ان کے بھائی کو اسپتال لے جانے سے پہلے کم از کم دو ہیلتھ سینٹروں کو چھوڑا گیا تھا۔
انہوں نے دی وائر سے کہا،‘بنیادی علاج کرانے کے بجائے انہوں نے بس سڑک پر وقت بتایا۔ میرا ماننا ہے کہ میرے بھائی کی موت لاپرواہی کی وجہ سے ہوئی ہےکیونکہ اسے ضروری علاج نہیں مل سکا۔ پولیس اپنا فرض نبھا رہی تھی،لیکن متاثرین کووقت پر طبی امداددےکرانسان کے طور پر اپنافرض بھی پورا کر سکتی تھی۔’
اہل خانہ نے 50 لاکھ روپے کا معاوضہ اورکشیپ کی بیوی کو نوکری دینے کی مانگ کی ہے۔رمن نے کہا، ‘ایس ڈی ایم نے کہا ہے کہ انتظامیہ ان کی سنےگا اور مدد کرےگا۔’
دی وائر کےرابطہ کیے جانے پر ایس ڈی ایم اوم پرکاش گپتا نے کہا کہ وہ کوئی قدم اٹھانے سے پہلے یوپی سرکار کی‘ہدایات کا انتطار کر رہے ہیں’۔
انہوں نے کہا،‘ہم نے اپنی طرف سے مہلوکین اور زخمیوں کی رپورٹ بھیج دی ہے۔ رمن کشیپ کے لیے کوئی خاص انتظام نہیں کیے گئے ہیں۔ دوسرے مہلوکین کی طرح ہی انہیں بھی اسی زمرے میں رکھا جائےگا۔’
رمن کشیپ کی بیوی ارادھنا۔
پون کا کہنا ہے کہ اگر ان کے بھائی کو بھی اسی زمرے میں رکھا گیا تو ان کےاہل خانہ کو معاوضہ ملنے کا امکان کم ہے، کیونکہ کسانوں کے احتجاج کے دوران کئی کسان اپنی جان گنوا چکے ہیں،لیکن ابھی تک کسی کو معاوضہ نہیں ملا ہے۔
ان کےوالد بھی کہتے ہیں کہ ان کے بیٹے کی موت‘ایک رپورٹر’کے طورپر ہوئی ہے اور اس کے ساتھ اس کے مطابق ہی سلوک کیا جانا چاہیے۔
رام دلارے اپنی پوری فیملی کے ساتھ زندگی بھربی جے پی کے ووٹررہے ہیں۔ رام دلارے نے کہا، ‘ہم پارٹی کے لیےکبھی بھی فعال کارکن نہیں تھے۔ ہم بس چپ چاپ انہیں ووٹ دیتے تھے۔ کسان ہونے کے باوجود ہم نے چپ چاپ بی جے پی کی حمایت کی تھی۔’
رمن کشیپ کی ماں سنتوشی دیوی کا کہنا ہے کہ وہ سیاست کے بارے میں‘بہت زیادہ’ نہیں جانتی ہیں، لیکن انہوں نے کہا کہ کسان مظاہرہ کر رہے تھے تو وزیروں کو اپنا پروگرام رد کر دینا چاہیے تھا۔
رمن کی بیوی ارادھنا بولنے کی حالت میں نہیں ہیں، وہ ابھی بھی صدمے میں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر انہیں اس طرح کی حالت کا ذرا بھی اندیشہ ہوتا تو وہ رمن کو کبھی بھی جانے نہیں دیتیں۔
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)