لداخ کے محکمہ ریونیو میں نوکریوں کے لیے اردو زبان کی اہلیت کو ختم کرنے کے فیصلے پر مقامی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ یہ ضلع لیہہ اور مسلم اکثریتی کارگل کے بیچ نظریاتی اختلافات پیدا کرنے کے مقصد سےاٹھایاگیافرقہ وارانہ قدم ہے، لیکن اس سے سیاسی فائدہ نہیں ہوگا، بس ایڈمنسٹریشن کی سطح پرمسائل پیدا ہوں گے۔
یونین ٹریٹری لداخ میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی قیادت والی انتظامیہ نے محکمہ ریونیو کی سرکاری نوکری میں تقرری کے ضابطہ میں ایک ترمیم کی ہے، جس سے تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے۔
واضح ہوکہ لیفٹیننٹ گورنر آر کے ماتھر نے ایک اہم ترمیم کے ذریعے لداخ کے محکمہ ریونیو میں ملازمت حاصل کرنے کے لیے اردو جاننے کی اہلیت کو ہٹا دیا ہے، جس سے لداخ کے کئی لوگوں کے ذہن میں یہ ڈرپیدا ہوگیا ہے کہ ان کی ثقافتی تاریخ کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ سات جنوری کو جاری کردہ ایک نوٹیفکیشن میں لیفٹیننٹ گورنر ماتھر نے لداخ ریونیو سروس ریکروٹمنٹ رولز، 2021 میں ترمیم کردی، جس کے ذریعے محکمہ ریونیو میں نائب تحصیلدار اور پٹواری کی نوکری حاصل کرنے کے لیے اردو جاننے کی اہلیت کو ختم کر دیا گیا ہے۔
پہلے یہ ضابطہ تھا کہ پٹواری اور نائب تحصیلدار کی نوکری کے لیے ‘اردو کے علم کے ساتھ گریجویٹ’ ہونا ضروری تھا، جو اب صرف ’گریجویشن‘ کر دیا گیا ہے۔
اس سے قبل گزشتہ سال 8 ستمبر کو لداخ کے ریونیو، پولیس اور میڈیکل و ہیلتھ ایجوکیشن کے محکمہ میں تقرریوں سے متعلق قوانین کو نوٹیفائی کیا گیا تھا، جس کو بڑے پیمانے پر مخالفت کی وجہ سے تین ماہ بعد تبدیل کرنا پڑا تھا۔
کارگل کے سابق ڈپٹی کمشنر حسن خان نے بتایا کہ کشمیر اور لداخ کا ریونیو ریکارڈ ایک صدی سے زیادہ پرانا ہے جو اردو میں ہے جب کہ جموں علاقے میں ریونیو ریکارڈ ہندی میں ہے۔
انہوں نے کہا ، انتظامیہ اردو کے ساتھ ایسا سلوک کر رہی ہے جیسے یہ کسی اور سیارے کے لوگوں کی زبان ہو۔ لداخ کی 70 فیصد آبادی اردو کو سمجھتی ہے جو کہ ہمارا ثقافتی ورثہ ہے۔
سال 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں حصہ لینے والے کارگل کے سجاد کارگل کا کہنا ہے کہ لداخ کے زیادہ تر لوگ اردو پڑھے ہیں۔ ہندی اور انگریزی کے علاوہ اردو لداخ اور جموں و کشمیر کی بھی ایک سرکاری زبان ہے۔ کارگل میں رہنے والے بدھ مت کے ماننے والے اور ان کے بچے بھی اردو پڑھ اور لکھ سکتے ہیں کیوں کہ یہ اسکولوں میں پڑھائی جاتی ہے۔
یہ پہلی بار نہیں ہے کہ لداخ انتظامیہ، جو مرکزی وزارت داخلہ کے زیر انتظام ہے، کی آنکھوں میں اردو کھٹک رہی ہو۔
گزشتہ سال جون میں لداخ انتظامیہ نے سکول ایجوکیشن کے لیے یون ٹیب اسکیم کو لاگو کیا تھا، جس کے تحت 6 سے 12ویں جماعت تک کے بچوں میں ٹیبلٹ تقسیم کیے گئے تھے۔ ان ٹیبلٹ میں کچھ مواد پہلے سے ہی لوڈ تھے، جیسے کتابیں اور ویڈیو لیکچر وغیرہ۔ سجاد بتاتے ہیں کہ ٹیبلٹ میں اردو کو چھوڑ کر تمام کتابیں موجود تھیں۔
بہرحال ان کا کہنا ہے کہ حالیہ فیصلہ لداخ کی منفرد ثقافتی تاریخ پر ایک منصوبہ بند حملہ ہے۔
خان کہتے ہیں کہ یہ فیصلہ لیہہ ضلع اور مسلم اکثریتی کارگل کے درمیان نظریاتی اختلافات پیدا کرنے کےمقصد سے کیا گیا ہے۔ یہ ایک فرقہ وارانہ قدم ہے، لیکن اس سے انہیں سیاسی طور پر کوئی فائدہ نہیں ہوگا، یہ صرف ایڈمنسٹریشن کی سطح پر مسائل پیدا کرے گا۔
لداخ ریاستی کانگریس کمیٹی کے ورکنگ صدر اصغر علی کربلانی کا بھی ماننا ہے کہ یہ فیصلہ لداخ میں بدھ مت کے ماننے والوں اور مسلمانوں کے درمیان خلیج پیدا کرنے کےمقصد سے کیا گیا ہے۔
اصغر کہتے ہیں،وہ سمجھتے ہیں کہ اردو مسلمانوں کی زبان ہے۔ یہ مسلمانوں سے ان کی نفرت کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ فیصلہ ہماری مذہبی شناخت پر حملہ ہے اور لداخ کی ثقافتی تاریخ کو نقصان پہنچانے کی کوشش ہے۔
نیشنل کانفرنس نے بی جے پی پر لداخ کے نوجوانوں کو روزگار سے محروم رکھنے کا الزام لگایا ہے اور لیفٹیننٹ گورنر سےفیصلہ واپس لینے کو کہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی بی جے پی کے رکن پارلیامنٹ جمیانگ چھیرنگ نامگیال پر اردو کی توہین کا الزام لگایا گیا ہے۔
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)