مرکزی حکومت کے 5 اگست کے فیصلے کے مطابق جموں وکشمیر کو تقسیم کرکے دو یونین ٹریٹری-جموں و کشمیر اور لداخ بنا دیاگیا ہے۔
نئی دہلی: لداخ کے یونین ٹریٹری بن جانے پرعلاقے میں سیاسی جماعتوں کی طرف سے اس پر ملا جلا ردعمل سامنے آیا ہے۔ کارگل میں رہنماؤں نے ‘بلیک ڈے’منایا جبکہ لیہہ میں رہنما اس کو ترقی کے ایک موقع کے طورپر دیکھ رہے ہیں۔جموں و کشمیر اور لداخ کو مرکزی حکومت کے پانچ اگست کےفیصلے کے مطابق تقسیم کرکے دو یونین ٹریٹری بنا دیا گیا ہے۔ مرکزی حکومت نےآرٹیکل 370 کے تحت جموں وکشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرنے اور اس کو دو یونین ٹریٹری میں تقسیم کرنے کا فیصلہ لیا تھا۔
لداخ سے بی جے پی رکن پارلیامان جامیانگ شیرنگ نامگیال نے کہا کہ جموں و کشمیر کے لوگوں نے لداخ کو یونین ٹریٹری بنانے کو قبولکرلیا ہے۔ نامگیال اپنی ‘ پکچر ابھی باقی ہے ‘ تبصرہ سے لوک سبھا میں ریاست کی تقسیم پر چرچہ کے دوران سرخیوں میں آئے تھے۔انہوں نے کہا، ‘لداخ کے لوگ پچھلے 71 سالوں سے اس کاانتظار کر رہے تھے۔ ہم اس قدم کو شمولیتی ترقیاتی اسکیم کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اس خطے میں سیاحت کے علاوہ سرحدی تحفظ ، دفاع ، ماحولیاتی نظام اورطبی پودوں کی بھی بے پناہ امکانات ہیں۔ ‘ انہوں نے آگے کہا، ‘اس کو ایک یونین ٹریٹری بنانے سے بنیادی ڈھانچہ کی ترقی کے لئے اور مواقع ملیںگے۔ ‘
#Protest against arbitrary decision in #Kargil #Kashmir.
#RestoreAutonomy pic.twitter.com/gVrbAvgvON— Sajjad Hussain (@sajjadkargili) October 31, 2019
وہیں، کارگل شہر میں بدھ سے بازار بند ہیں اور سیاسی اورمذہبی جماعتوں کی ایک مشترکہ کارروائی کمیٹی نے 31 اکتوبر کو ‘بلیک ڈے’کے طورپر منایا۔کارگل ماؤنٹین ڈیولپمنٹ کونسل کے سابق صدر اصغر علی کربلائی نے لداخ کو یونین ٹیریٹری بنانے پر مایوسی کا ا ظہار کیا اور کہا، ‘ ہم اس فیصلے کے پوری طرح سے خلاف ہیں۔ ‘انہوں نے کہا، ‘ ہم لگاتار اس کے خلاف مظاہرہ کر رہے ہیں اور پچھلے تین دنوں سے لوگ سڑکوں پر ہیں، بازار بند ہیں اور پبلک ٹرانسپورٹ سڑکوں سےندارد ہیں۔ ‘
کربلائی نے کہا کہ کارگل کے لوگ آرٹیکل 370 کے اہتماموں کو ختم کرنے کے خلاف ہیں اور ریاست کو دو یونین ٹریٹری میں تقسیم کرنا ‘ہمارے مفادات کے خلاف ہے۔ ‘انہوں نے کہا، ‘یہ لوگوں کی مرضی جانے بغیر تھوپا گیافیصلہ ہے۔ اب ہمارے پاس کوئی اسمبلی یا طاقتیں نہیں رہیں۔ ‘قابل ذکر ہے کہ جموں و کشمیر یونین ٹیریٹری ریاست میں پڈوچیری کی طرح اسمبلی ہوگی جبکہ لداخ میں چنڈی گڑھ کی طرح کوئی اسمبلی نہیں ہوگی اور دونوں کی قیادت الگ الگ نائب گورنر کریںگے۔
لداخ آٹومیسن ہل ڈیولپمنٹ کونسل (کارگل)کے صدراور سی ای سی فیروز احمد خان نے کہا، ‘ حالانکہ اس قدم سے ترقی ہونے کی امید ہےلیکن لوگوں کو تعلیم اور نوکریوں کو لےکر اندیشہ ہے۔ وہ نوکریوں کے سلسلے میں اورسکیورٹی چاہتے ہیں۔ ‘انہوں نے لداخ کے کارگل ڈویژن میں بچوں کے لئے ریزرویشن کی وکالت کرتے ہوئے کہا، ‘اگر تعلیم اور دیگر شعبے سبھی کے لئے کھلے ہیں تو لوگوں کو اندیشہ ہے کہ کیا ان کے بچے اچھی نوکریاں حاصل کر سکیںگے۔ ‘
کارگل کے سابق قانون ساز کونسل کے ممبر آغا سید احمدرضوی نے کہا، ‘ کارگل کے ساتھ امتیاز کیا گیا ہے اور اس کو پھر کنارے کر دیا گیا ہے۔اس سے پہلے بھی ہم الگ ہوئے تھے اور اب ہماری خواہش کے خلاف ایسا کیا گیا۔ ‘انہوں نے کہا، ‘ شہری یہ تقسیم نہیں چاہتے۔ ہم آزادی مانگنے والے نہیں ہیں، ہم یکجہتی اور انصاف چاہتے ہیں۔ اب جبکہ یہ تقسیم ہو گئی ہےتو کارگل اور لیہہ کے درمیان توازن بنانا چاہیے۔ ‘
نبرا وادی کے سابق ایم ایل اے ڈیلڈن نامگیال نے کہا، ‘ہم یونین ٹیریٹری کے فیصلے کا استقبال کرتے ہیں لیکن ہم اپنی تہذیب اوراقتصادی اصولوں کی حفاظت کرنے کے لئے چھٹی فہرست میں شامل کئے جانے کی امید کر رہےہیں۔ ‘
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)