ذات پات اور مزدوروں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والی اور ہندوستانی نژاد سابق امریکی کونسلر کشما ساونت اپنی بیمارماں کی عیادت کے لیے ہندوستان آنا چاہتی ہیں، لیکن ہندوستانی حکومت ان کا ویزا منظور نہیں کر رہی ہے۔ ساونت اسے سیاسی انتقامی کارروائی مانتے ہوئے کہتی ہیں کہ اگر ایسا نہیں ہے تو ہندوستانی حکومت انہیں ویزا دے۔
کشما ساونت 2023 میں ذات پات کی بنیاد پر امتیاز کے خلاف قانون بنانے والے پہلے امریکی شہر سیئٹل سےوابستہ ہیں ۔ یہ جنوبی ایشیا سے باہر دنیا کا پہلا شہر ہے، جہاں ایسا قانون وجود میں آیا۔ انہی کشما ساونت کو حال ہی میں ہندوستانی حکومت نے ان کی بیمار ماں سے ملنے کے لیے ویزا دینے سے انکار کر دیا ہے۔
سیئٹل سٹی کونسل میں اس وقت کی واحد ہندوستانی نژاد امریکی رکن ساونت کو سماجی انصاف کے لیے ان کے کمٹ منٹ کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ وہ غریب محنت کش طبقے اور اقلیتوں سمیت حاشیائی طبقے کے لیےمسلسل آواز اٹھاتی رہی ہیں، جس کی وجہ سے انہیں اکثر دائیں بازو کے گروہوں اور کارپوریشنوں کے غصے کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
سال 2013 میں انہوں نے امریکی ٹکنالوجی کمپنیوں میں اونچی ذات کے منتظمین کی طرف سے دلتوں کے خلاف ذات پات کی بنیاد پر امتیازی سلوک کے سلگتے ہوئے مسئلے کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔ انہوں نے ایک بل متعارف کرایا اور نسلی اور مذہبی پس منظر سے حمایت حاصل کی، 200 سے زیادہ امریکی تنظیمیں ان کے ساتھ متحد ہوئیں۔
متوقع طور پر اس آرڈیننس کو ہندو الائنس آف نارتھ امریکہ، ہندو امریکن فاؤنڈیشن اور وشو ہندو پریشد آف امریکہ سمیت کچھ گروپوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا، جنہوں نے دلیل دی کہ قانون نے غیر منصفانہ طور پر ہندوؤں کو الگ کیا اور ان کے بارے میں غلط فہمیوں کو فروغ دیا۔
سو سے زیادہ متنوع تنظیموں اور کاروباری اداروں کے دستخط شدہ ایک خط میں سیئٹل سٹی کونسل سے ساونت کے آرڈیننس کی مخالفت کرنے کی اپیل کی گئی۔ حیرت انگیز طور پر، اس میں ایک ممتاز دلت-بہوجن تنظیم، امبیڈکر-پھولے نیٹ ورک آف دلتز اینڈ بہوجنزبھی شامل تھی – اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پڑھے لکھے دلت بھی ڈاسپورا میں کتنےمنقسم ہیں۔
اس مسئلے پر بحث کے دن کونسل کا کمرہ دونوں فریقوں کے کارکنوں سے بھرا ہوا تھا، جو بینرز اٹھائے ہوئے تھے، نعرے لگا رہے تھے، اور مقررین اور شہر کے عہدیداروں کو چیلنج کر رہے تھے۔ جنوبی ایشیائی باشندوں کے درمیان شدید تقسیم نے امبیڈکر کے اس دعوےاجاگر کیا کہ دنیا بھر میں پھیلنے والے ہندوستانی ذات پات کو ایک عالمی مسئلہ بنا دیں گے۔ کمرے میں موجود اکثر لوگوں نے بل کی حمایت کی ، جبکہ اس کے مخالفین اقلیت میں تھے۔
جیسے ہی کونسل کے اراکین نے آرڈیننس کو 6-1 کی اکثریت سے منظور کیا، ایوان ‘جئے بھیم’ کے نعروں سے گونج اٹھا، جو ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کے احترام میں دلتوں کے ذریعے اپنایا گیا ایک نعرہ ہے۔ یہ لہر جلد ہی دنیا بھر کے دلتوں میں پھیل گئی، جس کی وجہ سے کشما ساونت ایک گھریلو اور جانا پہچانانام بن گئیں۔
نہ صرف دلت بلکہ پوری ترقی پسند دنیا نے اس تاریخی کامیابی کی ستائش کی، ساونت کو مبارکباد کے بے شمار پیغامات موصول ہوئے اورانہیں تعریفی کلمات سے نوازا گیا۔ وینکوور میں مقیم ایک انڈو-کینیڈین تنظیم نے انہیں پرسن آف دی ایئر2023 بھی قرار دیا۔
کشما ساونت، جو ایک سافٹ ویئر انجینئر سے معاشیات کی پروفیسر اور پھر ایک سرگرم سیاست دان بنیں۔ ان کا سوشلسٹ جھکاؤ اس وقت مضبوط ہوا جب وہ ممبئی سے امریکہ چلی گئیں اور سیئٹل میں سوشلسٹ الٹرنیٹو میٹنگز میں شرکت کی۔ ایوانِ نمائندگان کے لیے ناکام انتخاب کے بعد وہ 2014 میں سیئٹل سٹی کونسل کے لیے منتخب ہوئیں ، وہ 1877 کے بعدسے کونسل کی پہلی سوشلسٹ تھیں۔ وہ اس وقت تک کونسل میں رہیں جب تک کہ انہوں نے خود اعلان نہیں کیا کہ وہ دوبارہ الیکشن نہیں لڑیں گی۔
اس کے بعد انہوں نے الیکشن لڑنے کے بجائے مہم چلانے کا فیصلہ کیا۔ مزدوروں کے اتحاد کے لیے سوشلسٹ متبادل مہم – ‘ورکرز اسٹرائیک بیک’۔ 2024 میں انہوں نے سوشلسٹ الٹرنیٹو کو چھوڑ دیا اور اپنی پارٹی – ریوولیوشنری ورکرز بنائی۔ وہ امریکی کم از کم اجرت میں اضافے کی تحریک کا بھی حصہ تھیں اور 2020 میں انہوں نے ہندوستان کے مسلم مخالف شہریت ترمیمی قانون کی مخالفت میں ایک قرارداد پاس کرنے میں کلیدی کردار ادا بھی کیا۔
حال ہی میں، ہندوستانی حکام کی جانب سے ان کی بیمار ماں کی عیادت کے لیےان کے ویزا کی درخواست کورد کرنے کی خبریں پہلی بارسوشل میڈیا پر نظر پر آئیں۔ ایک شہری حقوق کے کارکن کی حیثیت سے میں نے ان سے تفصیلات جاننے کے لیے رابطہ کیا، جس کے جواب میں انھوں نے میرے سوالات کے تحریری جوابات بھیجے، جو درج ذیل ہیں؛
کیا آپ اپنے ویزا کی درخواست کے عمل کے بارے میں تفصیلات بتا سکتی ہیں؟ کیا انکار کی کوئی خاص وجہ بتائی گئی؟
ای ویزا کے لیے میری درخواست 29 مئی 2024 کو مسترد کر دی گئی تھی۔ میں نے دوبارہ ای ویزا کے لیے درخواست دی، اور وہ بھی 7 جون 2024 کو مسترد کر دی گئی۔ میری ای ویزا کی درخواست کو دو بار رد کرنے کی کبھی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی۔ ہر بار، جواب میں صرف یہ کہا گیا، ‘درخواست کی حیثیت: رد۔’
پھر 9 جنوری 2025 کو میں اور میرے شوہر کیلون پرائسٹ نے ماں کی بگڑتی ہوئی صحت کی وجہ سے سیئٹل میں قونصلیٹ جنرل آف انڈیا میں ایمرجنسی انٹری ویزا کے لیے درخواست دی۔ ہم نے درخواست کے ساتھ میری ماں کے ڈاکٹر کا خط بھی منسلک کیا۔ اس وقت ہمیں بتایا گیاکہ ہم ایک یا دو دن میں جواب کی توقع کر سکتے ہیں۔
ایک ہفتے تک ہماری ایمرجنسی انٹری ویزا کی درخواست کا کوئی جواب نہ ملنے کے بعد میں اور کیلون سیئٹل میں ہندوستان کے قونصلیٹ جنرل گئے اور قونصلر آفیسر انچارج مسٹر سریش کمار شرما سے ملے، اور ان سے پوچھا کہ ہمیں ہماری درخواست کا جواب کیوں نہیں ملا۔
آج تک، ہماری ایمرجنسی انٹری ویزا درخواست کا کوئی جواب نہیں آیا ہے۔ ہم نے سریش شرما کو کئی بار فون کیا، لیکن انہوں نے کبھی کال کا جواب نہیں دیا۔
کیا آپ کو اپنے ویزا کے رد ہونے کے بارے میں ہندوستانی حکام سے کوئی باضابطہ پیغام موصول ہوا ہے؟
مجھے اپنے ویزا کے رد ہونے کے حوالے سے ہندوستانی حکام کی طرف سے کوئی باضابطہ اطلاع موصول نہیں ہوئی ہے۔
آپ نے ہندوستانی وزیر خارجہ ایس جئے شنکر کو خط لکھا ہے، کیا آپ کو کوئی جواب ملا ہے؟
ہاں، میں نے 13 جون 2024 کو ایس جئے شنکر کو کو خط بھیجا تھا۔ مجھے کوئی جواب نہیں ملا۔ خط میں میں نے لکھا تھا:
‘میں 26 جون سے 15 جولائی 2024 تک اپنے بنگلور کے دورے کے لیے ای ویزا کی درخواست کے بارے میں آپ سے اپیل کرنے کے لیے لکھ رہی ہوں۔ میرا ای ویزا نمبر 08510159924 ہے۔
یہ میرے اور میرے شوہر کیلوین پرائسٹ کے لیے ایک بہت ضروری سفر ہے، جس کا ای ویزا منظور ہو چکا ہے۔ ہم اپنی بیمار ماں محترمہ وسندھرا رامانوجم کی عیادت کے لیے سفر کر رہے ہیں، جن کی صحت تیزی سے خراب ہو رہی ہے، اور جن سے ہم دو سال سے ملنے نہیں جا سکے ہیں۔
میں اپنی ماں کے ڈاکٹر کا ایک نوٹ منسلک کر رہی ہوں، جس میں ان کی حالت بیان کی گئی ہے، جس میں ڈاکٹر لکھتے ہیں؛
‘تصدیق کی جاتی ہے کہ محترمہ وسندھرا رامانوجم، عمر 82 سال/خاتون، کا ہمارے ہسپتال میں دو سالوں سے ایٹریل فبریلیشن، سی او پی ڈی، گردے کی دائمی بیماری، ذیابیطس میلیتس، ہائی بلڈ پریشر اور اسکیمک دل کی بیماری کا علاج چل رہا ہے۔ مسز وسندھرا کی دیکھ بھال کے لیےان کی بیٹی مسز کشما آئینگر ساونت، جن کا پاسپورٹ نمبر – اے 00905502ہے، کی موجودگی ضروری ہے کیونکہ ان کی صحت تیزی سے خراب ہو رہی ہے۔’
میں اور میرے شوہر صرف اپنی ماں اور خاندان کے دیگر افراد سے ملنے کے لیے ہندوستان کا سفر کر رہے ہیں، کسی اور وجہ سے نہیں۔ میں آپ سے درخواست کروں گی کہ مجھے ان سے ملنے کی اجازت دیں کیونکہ میری ماں کی بگڑتی ہوئی صحت کے پیش نظر ان سے ملنا میرے لیے بہت ضروری ہے۔’
کیا آپ مانتی ہیں کہ سیئٹل کے انسداد نسل پرستی قانون کی وکالت ویزا کے رد ہونے کی وجہ ہے؟
اس وقت بی جے پی حکومت کی طرف سے اس انکار میں سیاست کے علاوہ کچھ اور نظر نہیں آتا۔
میں 2014 سے 2023 کے آخر تک سیئٹل سٹی کونسل میں دس سال تک سوشلسٹ اور ورکنگ کلاس کی نمائندہ رہی۔ اس دوران میں نے $15 فی گھنٹے کے لیے محنت کش لوگوں اور کمیونٹی ممبران کی ایک عوامی تحریک کے لیے اپنے دفتر کا استعمال کیا۔ سئیٹل میں کم از کم اجرت، جو اب $20.76 فی گھنٹہ ہے، ریاستہائے متحدہ میں سب سے زیادہ کم تنخواہ ہے۔ کام کرنے والے لوگوں کو منظم کرکے، میرے دفتر نے سستی رہائش کی فنڈنگ کے لیےسیئٹل کی امیر ترین کارپوریشنز پر ایمیزون ٹیکس بھی حاصل کیا۔
فروری 2020 میں ہم نے ایک قرارداد منظور کی جس میں ہندوستان میں مودی اور بی جے پی حکومت کے مسلم مخالف اور غریب مخالف سی اے اے –این آر سی شہریت کے قوانین کی مذمت کی گئی۔ سان فرانسسکو میں مودی کے ہندوستانی قونصل خانے نے میری تجویز کی مخالفت کرتے ہوئے سٹی کونسل کو ایک خط بھیجا۔ ہمیں امریکہ میں مقیم دائیں بازو کے ہندوتوا اور مودی کے حامیوں کی مخالفت کا بھی سامنا کرنا پڑا۔
فروری 2023 میں، میرے دفتر میں ہزاروں جنوبی ایشیائی اور امریکی ورکرزکے ساتھ، ذات پات کی بنیاد پر امتیاز پر پابندی کاایک تاریخی قانون بنا۔ ہمارا سب سے اعلیٰ حریف وشو ہندو پریشد تھا، جو مودی اور ان کی بی جے پی سے جڑی انتہائی دائیں بازو کی تنظیموں میں سے ایک تھی۔ دائیں بازو کی ہندو امریکن فاؤنڈیشن اور کولیشن آف ہندوز آف نارتھ امریکہ نے بھی ہمارے خلاف صف آرائی کی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مودی سرکار نے امریکہ میں اپنے حامیوں کی مدد سے میرے سٹی کونسل آفس سے منظور کیے گئے اس سی اے اے –این آر سی اور ذات پات مخالف قانون کی مخالفت کی اور وہ میرے سیاسی خیالات سے واقف ہیں۔
اس فیصلے کو چیلنج کرنے کے لیے آپ فی الحال کون سے قانونی اختیارات تلاش کر رہی ہیں؟ کیا آپ ہندوستان میں کسی وکیل سے رابطے میں ہیں؟
میں ویزا دینے سے انکار کرنے کو قانونی طور پر چیلنج کرنے کے بارے میں غور کر رہی ہوں۔
کیا آپ نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ریاستہائے متحدہ میں سفارتی یا کانگریس کی حمایت حاصل کرنے پر غور کیا ہے؟ کیا آپ اپنے کیس کو سامنے لانے کے لیے کوئی عوامی یا قانونی کارروائی کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں؟
ہم ایک عوامی پٹیشن کا اہتمام کریں گے اورگزارش کریں گے کہ کانگریس ممبران پرمیلا جئے پال اور رو کھنہ اور دیگر منتخب عہدیدار عوامی طور پر مودی حکومت پر زور ڈالیں کہ وہ مجھے اور میرے شوہر کو میری بیمار ماں کو دیکھنے کے لیے ہندوستان جانے کی اجازت دیں۔
آپ کی ماں کی بگڑتی ہوئی صحت کے پیش نظر اس صورتحال نے آپ کو ذاتی طور پر کیسے متاثر کیا ہے؟
میں اپنی ماں کے بارے میں بہت فکرمند ہوں۔ ان کی عمر 82 سال ہے اور ان کی صحت بگڑ رہی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ مودی حکومت کی جانب سے مجھے اپنی ماں سے ملنے کی اجازت نہ دینا غیر انسانی ہے۔ یہ کون سی حکومت کر سکتی ہے؟
اپنے ویزا مسترد ہونے کے حوالے سے آپ عوام اور پالیسی سازوں سے کچھ کہنا چاہیں گے؟
اگر مودی حکومت یہ دعویٰ کرنا چاہتی ہے کہ مجھے ویزا دینے سے انکار کرنا میرے خلاف سیاسی انتقام کا معاملہ نہیں ہے، تو ان کے پاس اسے ثابت کرنے کا ایک آسان طریقہ ہے – مجھے ویزا دیں تاکہ میں اپنی بیمار ماں کو دیکھ سکوں۔
§
کشما ساونت کے یہ جواب اپنے آپ میں کافی ہیں۔ اس معاملے کے پس منظر کو دیکھتے ہوئے یہ فیصلہ سیاسی طور پر تحریک شدہ اورمن مانی معلوم ہوتا ہے، جو ہندوستان کے جمہوریت کے لیے تشویشناک ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب اس طرح کے رجحانات پہلے ہی ملک میں عالمی سرمایہ کاروں کے اعتماد کو ختم کر رہے ہیں، یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ حکومت ان کومضبوط کرنے کا کام کر رہی ہے۔
(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔)