جامن کا پیڑ لازمی طور پر حکومت کےسینٹرلائزڈ سسٹم پر سوال اٹھاتا ہے۔اور یہ محض اتفاق ہے کہ حال ہی میں ، نریندر مودی حکومت کو اس بات کے لیے تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا کہ وہ ہندوستان کے وفاقی نظام کو اہمیت نہیں دے رہی ہے۔
نئی دہلی : مشہور فکشن نویس کرشن چندر کی معروف طنزیہ کہانی جامن کا پیڑ کو آئی سی ایس ای کے ہندی نصاب سے ہٹا دیا گیا ہے ۔ قابل ذکر ہے کہ یہ فیصلہ بورڈ امتحانات سے صرف تین مہینے پہلے کیا گیا ہے ۔
واضح ہوکہ کرشن چندر نے اپنی اس مزاحیہ کہانی میں ایک ایسے شاعر کی کہانی پیش کی ہے جو جامن کے پیڑ کے نیچے دب جاتا ہے ۔ اس کو بچانے کے لیے حکام ایک دوسرے پر ذمہ داریاں ڈالتے رہتے ہیں ، اس طرح یہ معاملہ وزیر اعظم دفتر تک پہنچ جاتا ہے۔
دی ٹیلی گراف نے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ ‘ ایک خاص ریاست کے حکام’ نے اس کہانی پر اعتراض کیا ہے ۔ غور طلب ہے کہ یہ کہانی 2015 سے ہندی نصاب میں شامل تھی ۔ کرشن چندر نے یہ کہانی 60 کی دہائی میں لکھی تھی ، لیکن بعض حکام اس کو موجودہ حکومت کی تنقید کے طو رپر دیکھ رہے ہیں ۔
آئی سی ایس ای کاؤنسل کی جانب سے جاری نوٹس کے مطابق ، 2020 اور 2021 کے بورڈ امتحانات میں اس کہانی سے متعلق سوالات نہیں پوچھے جائیں گے ۔کاؤنسل کے سکریٹری اور چیف ایگزیکٹو گیری اراتھون نے ٹیلی گراف کو بتایا کہ کہانی کو نصاب سے اس لیے ہٹایا گیا کہ یہ دسویں جماعت کے بچوں کے لیے صحیح نہیں تھا۔ حالاں کہ انہوں نے یہ نہیں بتایا تھا کہ ایسا کیوں ہے یا کہانی میں کن باتوں پر اعتراض ہے ۔
کرشن چندر کی کہانی میں بتایا گیا ہے، آندھی طوفان میں سکریٹریٹ لان میں لگا ایک جامن کا پیڑ گر جاتا ہے اور ایک مشہور شاعر اس کے نیچے دب جاتا ہے۔لان کا مالی اس شخص کو بچانے کی کوشش کرتا ہے ۔ وہ اس بارے میں چپراسی کو جانکاری دیتا ہے ۔ چپراسی یہ معاملہ کلرک پر چھوڑ دیتا ہے ۔ معاملہ بلڈنگ سپرنٹنڈنٹ تک پہنچتا ہے اور ایسے ہی معاملہ آگے بڑھتا جاتا ہے ۔ پیڑ کے نیچے دبا شخص خود کو بچانے کی فریاد کر تا رہتا ہے اس طرح معاملہ چار دن بعد چیف سکریٹری تک پہنچتا ہے ۔ ا س کے بعد نئے سرے سے معاملے کو ایک دوسرے پر تھوپا جاتا ہے۔ معاملہ زراعت ، جنگلات سے لےکر ثقافتی محکمے تک پہنچتا ہے ۔ ثقافتی محکمہ تک اس لیے کہ دبا ہوا شخص شاعر ہے۔
اس کے بعد ثقافتی محکمے کے حکام موقع پر پہنچتے ہیں اور اس کتاب کی تعریف کرنے لگتے ہیں جس کی وجہ سے شاعر کو پہلےایوارڈ مل چکا ہے ۔ اس کے بعد محکمہ اس سے کہتا ہے کہ ا س کو بچانا اس کا کام نہیں ہے۔پھر اس کی فائل محکمہ صحت کے پاس پہنچتی ہے جس کو وہ وزار ت خارجہ کے پاس بھیج دیتا ہے ۔ فائل وزارت خارجہ کے پاس اس لیے بھیجی جاتی ہے کہ جامن کا پیڑ پڑوسی ملک کے وزیر اعظم نے لگایا تھا۔
وزارت خارجہ پیڑ کاٹنے کی اجازت نہیں دیتی کیوں کہ اس کو لگتا ہے کہ اس سے پڑوسی ملک سے رشتہ خراب ہوجائے گا ۔ اس طرح یہ معاملہ آخرمیں ملک کے وزیر اعظم کے پاس پہنچتا ہے ۔ حکام سے صلاح ومشورے کے بعد وزیر اعظم شاعر کی جان بچانے کے لیے پیڑ کو کاٹنے کی اجازت دیتے ہیں ۔ لیکن جب تک بلڈنگ سپرنٹنڈنٹ اس ہدایت کو جاری کرے اس شاعر کی موت ہوجاتی ہے ۔
رپورٹ کے مطابق، ‘جامن کا پیڑ’ لازمی طور پر حکومت کےسینٹرلائزڈ سسٹم پر سوال اٹھاتا ہے۔اور یہ محض اتفاق ہے کہ حال ہی میں ، نریندر مودی حکومت کو اس بات کے لیے تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا کہ وہ ہندوستان کے وفاقی نظام کو اہمیت نہیں دے رہی ہے۔ اس بات کو لے کر مرکزکے خلاف الزام لگانے والوں میں سابق آر بی آئی گورنر رگھورام راجن بھی ہیں ، جنھوں نے حال ہی میں کہا تھا کہ ، یہ (حکومت) خاص معنوں میں سینٹرلائزیشن کر رہی ہے کہ اب وزیر اعظم کے دفتر میں ہی بہت سارے فیصلے کیے جاتے ہیں۔
ہندوستان ٹائمس کی رپورٹ کے مطابق، دلچسپ بات یہ ہے کہ مودی حکومت نے ٹاپ نوکر شاہوں پر الزام لگایا ہے کہ ان کی پہلی مدت کار کے منصوبوں اور خاص ایجنڈہ ون نیشن اسٹرانگ نیشن میں تاخیر کی جارہی ہے۔