کولکاتہ میں منعقد فلم فیسٹیول میں ستیہ جیت رے کی ‘گن شترو’ کا ذکر کرتے ہوئے امیتابھ بچن کی یہ قیاس آرائی بالکل ٹھیک ہے کہ آج عوام کے لیے آواز اٹھانے والےلوگ رے کی فلم کے ‘ڈاکٹر گپتا’ ہی ہیں، جوعوام کو خبردار کرنا چاہتے ہیں، لیکن اقتدار اس وقت کامیاب ہو جاتی ہے جب عوام انہیں ہی اپنا دشمن سمجھ کر انہیں قتل کرنے کے لیےآمادہ ہوجائے۔
کیا یہ حیرت کی بات ہے کہ ہندوستان کے سب سے بڑے اسٹار امیتابھ بچن کے برسوں بعد دیے گئے ایک عوامی بیان کو میڈیا نے نظر انداز کردیا؟ امیتابھ بچن کولکاتہ انٹرنیشنل فلم فیسٹیول کے افتتاحی سیشن سے خطاب کر رہے تھے۔ اسی سیشن میں شاہ رخ خان نے بھی اظہار خیال کیا۔ ان کے بیان کا چرچہ تو ہوا، کم از کم ایک بڑے اخبار نے اداریہ بھی لکھا۔ لیکن امیتابھ بچن کےاس بیان کو قابل قدر نہیں سمجھا گیا۔ جبکہ یہ ایک طویل خطاب تھا اور اپنے موضوع کے لحاظ سے غیرمعمولی بھی ۔ بالخصوص آج کے ہندوستانی تناظر میں۔
امیتابھ بچن نے ہندوستانی سنیما کا تاریخی سروے کیا۔ لیکن معنی خیز بات یہ تھی کہ سروے کا تناظر اظہار رائے کی آزادی کا سوال تھا۔ یا سینسر شپ۔ سینسر شپ کے نقطہ نظر سے ہندوستانی سنیما کےسفر کو دیکھتے ہوئے بچن نے کہا کہ آج بھی شہری آزادی اور اظہار رائے کی آزادی کا سوال قائم ہے۔ انگریزی کے جملے تھوڑے عجیب ضرور تھے، لیکن ان کا مفہوم واضح تھا کہ آج ہندوستان میں اظہار رائے کی آزادی خطرے میں ہے۔
یہ بات امیتابھ بچن جیسی قد آور شخصیت کہے اور اس کوقابل ذکر ہی نہ جانا جائے! اگر یہی بات شاہ رخ خان نے اسی پلیٹ فارم سے کہی ہوتی تو اب تک تمام ٹی وی چینل، اخبارات، سرکار کے وزیر اور بھارتیہ جنتا پارٹی کا پورا نظام آسمان سر پراٹھا چکا ہوتا۔ پھر امیتابھ کی اس تشویش پر خاموشی کیوں؟
امیتابھ آج کی حکومت کے حامی سمجھے جاتے رہے ہیں۔ جس وقت گجرات کی حکومت کو 2002 کے مسلم مخالف تشدد کے لیے پوری دنیاکی تنقید کا سامنا تھا، اس وقت بھی امیتابھ خاموش رہے۔ بلکہ ، بعد میں انہوں نے گجرات حکومت کی امیج بلڈنگ مہم میں بھی حصہ لیا۔
انہوں نے گزشتہ آٹھ سالوں میں ہندوستان میں بڑھتی ہوئی نفرت اور تشدد پر بھی بولنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ ان کو عام طور پر حکومت کا حامی یا اسٹیٹس کوئسٹ سمجھا جاتا ہے۔ پھر آخرسرکار کا ایسا حامی جب شہری آزادی اور اظہار رائے کی آزادی پر تشویش کا اظہار کر رہا ہے تو کیا اس کی بھی کوئی قدر نہیں؟
اس سے بھی آگے امیتابھ بچن نے ایک اور تبصرہ کیا۔ ہندوستانی فلموں کے تاریخی موضوعات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آج کل فرضی تاریخ پر مبنی شاونسٹ موضوعات پر فلمیں بنائی جا رہی ہیں۔ امیتابھ جیسے سینئر اداکار کا یہ بیان بھی ہندوستانی بالخصوص ممبئی فلم انڈسٹری پر ایک سخت تبصرہ ہے۔ یہ بھی بحث کے لائق نہیں سمجھا گیا!
حال ہی میں ممبئی میں تاریخ کے بہانے ہندوتوا قوم پرستی کے جنون کو فروغ دینے والی فلموں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ اس کو دیکھتے ہوئے یہ تبصرہ غیر معمولی تھا۔ لیکن اس پر خاطرخواہ بات نہیں ہوئی۔
امیتابھ بچن کولکاتہ میں تھے۔ انہوں نے ٹھیک کہا کہ ہمیں اپنی راہ تلاش کرتے ہوئے اپنے بہترین لوگوں کے پاس جانا چاہیے۔ انہوں نے تین شخصیات کا ذکر کیا جن کے نام آج قوم پرست سننا بھی نہیں چاہیں گے۔ ستیہ جیت رے، مرنال سین اور رتوک گھٹک۔ لیکن امیتابھ کے بیان کا مرکزی حصہ یہ تھا کہ انہوں نے آج کے ماحول پر سنیمائی ردعمل کے لیے ستیہ جیت رے کی فلم ‘گن شترو‘ کا انتخاب کیا۔
انہوں نے کہا کہ شاید آج کے ماحول پر ستیہ جیت رے کا ردعمل ان کی فلم ‘گن شترو‘ کے مرکزی کردار ڈاکٹر اشوک گپتا کی طرح ہی ہوتا۔ اور وہ بھی شاید ڈاکٹر گپتا کی طرح ہندوستان میں گن شترو بتا دیے جاتے۔ امیتابھ بچن شاید یہ کہنا چاہتے تھے کہ آج کی حکومت رے کو بھی گن شترو بتا دیتی ۔
‘گن شترو’ کیوں آج کے ہندوستان پر سب سے درست تخلیقی تبصرہ ہے؟ امیتابھ نے اس کی کہانی بھی سنائی۔ یہ فلم ناروے کے ڈرامہ نگار ہینرک ابسن کے 1882 کے تحریر کردہ ڈرامے ‘این اینمی آف دی پیپل‘ کا رے کے ذریعے کیا گیا تخلیقی مواخذہ ہے۔
فلم کی کہانی یوں ہے کہ شہر میں ہیضہ پھیل جاتا ہے۔ ڈاکٹر گپتا جب یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس کاسورس کیا ہے تو انہیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ انفیکشن شہر کے مشہور مندر کے کنویں کے آلودہ پانی کی وجہ سے پھیل رہا ہے۔ وہ اس کے پانی کے استعمال کو روکنے کے لیے حکام سے درخواست کرتے ہیں۔ لیکن ان کے اپنے بھائی جو ایک سیاست دان ہیں، اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے مندر کا وقار مجروح ہوگا۔ یہ شہر کا سب سے نمایاں مقام ہے۔ اس پر انگلی نہیں اٹھانی چاہیے۔ تھک ہار کر ڈاکٹر گپتا ایک جلسہ عام میں شہر کے لوگوں کو سچ بتانا چاہتے ہیں۔ وہاں ان کا بھائی پہنچ جاتا ہے اور ان سے پہلے مائیک پکڑ کر عوام کو ڈاکٹر کے خلاف بھڑکاتا ہے۔ کہتا ہے کہ وہ دراصل گن شترو ہیں۔
مقامی اخبار ان کا مضمون شائع نہیں کرتا۔ ان کی نوکری چلی جاتی ہے۔ ان کی بیٹی کو بھی نوکری سے نکال دیا جاتا ہے۔ ان کا مالک مکان ان سے گھر خالی کرنے کو کہتا ہے۔ اس طرح شہر کا ایک معزز شخص سچ بولنے کی سزا پاتا ہے۔ وہ گن شترو بنایا دیا جاتا ہے۔
جو عوام کے حق کی فکر کرتے ہوئے ایک ناپسندیدیہ سچ بولتا ہے، حکومت اسے عوام دشمن قرار دیتی ہے۔ اور عوام بھی اسے اپنا دشمن سمجھتی ہے۔
امیتابھ بچن نے آج کے دور پر تبصرہ کرنے کے لیے ‘گن شترو’ کا انتخاب کیا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے اندر کہیں نہ کہیں کوئی فنکار زندہ تھا۔ فنکار آخر کار دانشور ہوتا ہے، شرط یہ ہے کہ وہ فنکار ہو۔ اس آرٹسٹ نے یہ دیکھا کہ گجرات کے لوگوں کو بتایا جا رہا ہے کہ میدھا پاٹکر گجرات کے لوگوں کی دشمن ہیں، وہ تمام دانشور جنہوں نے ملک کے لوگوں کو مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تشدد کی سیاست کے جراثیم سے خبردارکیا، وہ سب ہندوستانی عوام کے دشمن ہیں۔
سال 2015 میں دادری میں اخلاق کی لنچنگ کے بعد مسلمانوں اور عیسائیوں پر ہو رہے تشدد کے خلاف احتجاج کرنے والے جو مصنف، فنکار، سائنسداں بولڈ ہوئے ، انہیں ‘ایوارڈ واپسی گینگ’ کہاگیا۔ امیتابھ بچن کی جونیئر ساتھی دیپیکا پڈوکون جب جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے طلبہ پر تشدد کے دوران ان کے ساتھ خاموشی سے کھڑی ہوئیں، توانہیں ‘ٹکڑے ٹکڑے گینگ‘ کا حصہ کہا گیا۔
جے این یو ہو یا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، طلبہ، دانشور، سب کو ‘اربن نکسل’ قرار دے کر عوام کو ہی ان کے خلاف کھڑا کیا گیا۔ ہینی بابو، آنند تیلتمبڑے، گوتم نولکھا، سدھا بھاردواج، شوما سین، جیوتی جگتاپ، عمر خالد، شرجیل امام – سب کے سب گن شترو ہیں کیونکہ وہ عوام کو اس منبع کے بارے میں بتانا چاہتے ہیں جہاں سے نفرت اور تشدد کے جراثیم پیدا ہورہے ہیں۔
امیتابھ بچن کا یہ اندازہ درست ہے کہ یہ سب اور میدھا پاٹکر، ستیہ جیت رے کی فلم ‘گن شترو’ کے ڈاکٹر گپتا ہی ہیں۔ جو عوام کو متنبہ کرنا چاہتے ہیں، انہیں تباہی سے بچانا چاہتے ہیں، لیکن اقتدار اس میں کامیاب ہو جاتی ہے کہ عوام انہیں ہی اپنا دشمن سمجھ کر ان کے خلاف ہو جائے اور انہیں قتل کرنے کو آمادہ ہوجائے۔
حیرت کی بات نہیں کہ امیتابھ بچن کا یہ بیان سنا ہی نہیں گیا۔ یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ عوام کو سننے ہی نہیں دیا گیا۔ لیکن اس سے امیتابھ بچن کی وارننگ غلط نہیں ہو جاتی۔
(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)