سابق صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کی سربراہی والی کمیٹی کی سفارش پر مرکزی کابینہ نے ‘ون نیشن، ون الیکشن’ کی تجویز کو منظور کر لیا ہے۔ تاہم، سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی کا کہنا ہے کہ کمیٹی کی بعض اہم سفارشات میں خامیاں ہیں۔
سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی۔ (تصویر بہ شکریہ: الیکشن کمیشن آف انڈیا کی ویب سائٹ)
نئی دہلی: ‘ون نیشن، ون الیکشن’ کی تجویز کو حال ہی میں وزیر اعظم نریندر مودی کی صدارت والی مرکزی کابینہ نے منظوری دی ہے۔ اس کے عملی مسائل اور اس کے ممکنہ اثرات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی نے کہا ہے کہ اس کی بعض اہم سفارشات میں خامیاں ہیں اور اس پر پارلیامنٹ میں بحث کی ضرورت ہے۔
واضح ہو کہ سابق صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کی سربراہی والی کمیٹی کی سفارش کے مطابق مرکزی کابینہ نے ‘ون نیشن، ون الیکشن’ کی تجویز کو
منظوری دی ہے ۔ پہلے قدم کے طور پر اس کمیٹی نے لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ساتھ کرانے اور پھر 100 دنوں کے اندر بلدیاتی انتخابات کرانے کی سفارش کی ہے۔
کووند کمیٹی کی رپورٹ میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس تعلق سے موصول ہونے والے 21558ردعمل میں سے 80 فیصد سے زیادہ میں تجویز کی حمایت کی گئی ہے۔
خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق، اس حوالے سے ایس وائی قریشی کا کہنا تھا کہ ایک ساتھ ہونے والے انتخابات میں پنچایتی انتخابات خارج ہوجائیں گے، جبکہ پنچایت میں ہی بڑی تعداد میں مقامی منتخب عہدیدارہوتے ہیں۔
قریشی کا خیال ہے کہ مقامی سطح پر 30 لاکھ سے زائد منتخب نمائندوں کو نظر انداز کر تے ہوئے بیک وقت انتخابات کرانے کو لے کر کر پورے ملک میں ہنگامہ خیز صورتحال پیدا کی جا رہی ہے۔
پی ٹی آئی سے بات کرتے ہوئے سابق الیکشن کمشنر نے کہا کہ رپورٹ میں تجویز پیش کی گئی ہے کہ پنچایتی انتخابات 100 دن کی مقررہ وقت کے اندر الگ سےہوں گے۔ یہ ایک ساتھ انتخابات کے جذبے کے خلاف ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ چند ہی مہینوں کے وقفے سے الگ الگ انتخابات کرانے سے اہم لاجسٹک چیلنجزسامنا کرنا پڑے گا اور رائے دہندگان کو پریشانی ہو گی۔
انہوں نے مزید کہا، ‘تینوں سطحوں کے ووٹر ایک ہی ہیں، پولنگ بوتھ ایک ہی ہیں، انتخابات کرانے والے ایک ہی ہیں … اب مسئلہ یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کو تین گنا زیادہ ای وی ایم اور وی وی پی اے ٹی کی ضرورت ہوگی، تو ذرا حساب لگائیے، ہزاروں کروڑ روپے درکار ہوں گے۔‘
قریشی کا کہنا ہے کہ اس کے لیے تقریباً 40 لاکھ اضافی مشینوں کی ضرورت پڑےگی، جس سے مالی اور لاجسٹک رکاوٹیں پیدا ہوں گی۔
معلوم ہو کہ الیکشن کمیشن نے بھی اشارہ دیا ہے کہ اسے بیک وقت انتخابات کرانے کے لیے موجودہ الکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) اور ووٹر ویریفائیڈ پیپر آڈٹ ٹریلز (وی وی پی اے ٹی) سے تین گنا زیادہ کی ضرورت ہوگی۔
ان تمام چیلنجز کے پیش نظر سابق الیکشن کمشنر نے پارلیامنٹ میں بحث کی اہمیت پر زور دیا اور ارکان پارلیامنٹ سے ان عملی مسائل کو حل کرنے کی اپیل کی۔ انہوں نے کہا، ‘دیہی لوگ قومی پالیسیوں سے زیادہ مقامی مسائل کی پرواہ کرتے ہیں۔ اگر وہ لاجسٹک مسائل کی وجہ سے ووٹ نہیں کر سکے، تو ان کی آواز کیسے سنی جائے گی؟‘
ایس وائی قریشی نے تجویز پر عملدرآمد کے لیے اس کے آئینی تقاضوں پر بھی بات کی۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی ترمیم کے لیے پارلیامنٹ کے دونوں ایوانوں میں اکثریت کی ضرورت پڑتی ہے، اس کے ساتھ ہی کم از کم نصف ریاستوں سے منظوری کی ضرورت ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ یہ عمل پیچیدہ اور متنازعہ ثابت ہو سکتا ہے۔
واضح ہو کہ اس سے قبل مرکزی وزیر اشونی وشنو نے بدھ (18 ستمبر) کو کہا تھا کہ مختلف سیاسی جماعتوں نے دراصل ‘ون نیشن، ون الیکشن’ کی حمایت کی ہے۔
ایس وائی قریشی کہتے ہیں،’یہ ایک ایسا موضوع ہے جو جمہوریت، مرکز اورریاست کے تعلقات کو مضبوط کرے گا، ملک کی ترقی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرے گا اور ساتھ ہی اس بات کو یقینی بنائے گا کہ ملک تیز رفتاری سے ترقی کرے۔’
قابل ذکر ہے کہ اس قدم نے قومی سطح پر ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے اسے غیر عملی قرار دیتے ہوئےالزام لگایا ہے کہ حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی نے حقیقی مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے ‘ون نیشن، ون الیکشن’ کا شگوفہ چھیڑا ہے۔
اس سے قبل
لاء کمیشن نے سابق صدر رام ناتھ کووند کی سربراہی والی کمیٹی سے کہا تھا، جو ملک میں ایک ساتھ انتخابات کے انعقاد کے امکان پر غور کر رہی تھی، کہ یہ 2029 کے لوک سبھا انتخابات تک ہی ممکن ہو سکے گا کیونکہ ریاستی اسمبلیوں کی مدت کو بڑھا یا گھٹا کرتمام انتخابات ایک ساتھ کرانے کے لیے فارمولہ تیار کرنا ہے۔
کووند کمیشن کی تشکیل کرتے ہوئے 2 ستمبر 2023 کو جاری کردہ ایک سرکاری نوٹیفکیشن میں حکومت نے کہا تھا کہ اب تک بار بار انتخابات کے انعقاد کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر اخراجات، انتخابی کاموں کے لیے سرکاری مشینری کا استعمال اور ماڈل ضابطہ اخلاق کی وجہ سے ترقیاتی سرگرمیوں میں خلل پڑا ہے۔ اس لیے اگر انتخابات ایک ساتھ ہوں تو ان تینوں سے نمٹا جا سکتا ہے۔