یہ فلم ہمارے لیے باعث تشویش کیوں ہے؟ دراصل فلم کیسری اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرتی ہے، ایک تاریخی واقعے کے گرد جھوٹی کہانی بنتی ہے جس میں مسلمان دشمن اور ولن ہے اور اسلام کٹہرے میں کھڑا ہے ۔
آج کل سیاسی یا متعصبانہ مقصد سے تاریخ کوبدلنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ یہ کوشش عموماً اسلام کو بدنام کرنے اور مسلمانوں کی خدمات کو بیک قلم مسترد کرنے کے لیے کی جاتی ہے۔ اس کی تازہ مثال فلم ‘کیسری’ ہے۔فلمساز دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ فلم تاریخی واقعات پر مبنی ہے۔حالاں کہ تاریخ سے چند واقعات اور کردار اٹھاکران کو ایک فرضی کہانی کی صورت میں پیش کیا گیاہے ۔ جس کا مقصد اسلام اورمسلمانوں کو غلط نقطہ نظر کے ساتھ پیش کرنا ہے۔اس میں دو رائے نہیں کہ 1897میں ہوئی ساراگڑھی کی جنگ میں 36سکھ ریجیمنٹ کے 21سپاہیوں کی بہادری اور قربانی ایک اہم تاریخی واقعہ ہے ۔ لیکن یہاں ان کی قربانی کو صحیح تاریخی تناظر میں پیش کرنا ضروری ہے۔دراصل ساراگڑھی کی جنگ جسے برطانوی تاریخ دانوں نے شمال مغربی سرحد کی بغاوت کا نام دیا ہے وہ برطانوی سامراج کے خلاف ہندوستانیوں کی جنگ آزادی تھی۔
یہ جنگ جس علاقے میں لڑی گئی اور جس کو فلم میں پیش کیا گیاہے وہ اس وقت پاکستان کے شمال مغربی سرحدی صوبے میں واقع ہے۔ لیکن یاد رکھنے کی بات ہے کہ 1897میں پاکستان کا وجود نہیں تھا اور یہ علاقہ ہندوستان کا ہی صوبہ تھا۔ اورک زئی اور آفریدی پٹھان جنھوں نے سارا گڑھی پر حملہ کیا تھا وہ اس صوبے کی تراوادی کے باشندے تھے ۔ وہ اتنے ہی ہندوستانی مجاہدآزادی تھے جتنے خان عبدالغفار خان (سرحدی گاندھی)جنھوں نے اس جنگ کے چودہ سال بعد اسی صوبے میں گاندھی جی کے ساتھ مل کر ستیہ گرہ کیا۔ پاکستان کی مانگ پہلی مرتبہ سارا گڑھی کی اس جنگ کے 36 سال بعد 1933میں چودھری رحمت علی نے تیسری گول میز کانفرنس میں رکھی تھی ۔
1891 میں اس جنگ سے 6سال پہلے انگریزوں نے Miranzai expedition کے نام سے ایک فوجی مہم چلائی تھی جس کے تحت انھوں نے اس علاقے کے پٹھان قبیلوں کو قابو میں کرنے کے لیے شمال مغربی سرحدی صوبے میں سمانا نامی کو ہی سلسلے پر قبضہ کرلیا تھا۔اس مہم کے دوران انگریزوں نے سارا گڑھ نامی ایک پٹھان علاقہ جو کسی قدر اونچائی پر تھا، اس پر حملہ کرکے اسے تباہ کردیاتھا اور اس مقام پر ساراگڑھی کے نام سے ایک قلعہ تعمیر کرلیا تھا۔ پھرانگریزوں نے سارا گڑھی اور اس کے قرب و نواح کے قلعوں کی حفاظت کے پیش نظر آس پاس کے سبھی گاؤں کو تباہ و برباد کردیاتھا ۔
اپنے وطن کو انگریزوں سے آزاد کرکے دوبارہ حاصل کرنے کے لیے ان پٹھانوں نے 1897میں یہ جنگ لڑی تھی۔ میرن زئی مہم ساراگڑھی اور اطراف کے قلعوں کی حفاظت کے لیے سکھوں کو منتخب کرنے کی برطانوی مؤرخ دو وجہ بتاتے ہیں۔ اول یہ کہ برطانوی فوج کے پٹھان فوجی اپنے قبیلے کے خلاف تلوار اٹھانے پر بغاوت کو ترجیح دیتے تھے، جبکہ سکھ سپاہیوں نے 1857 میں ہی انگریزوں کے حق میں اپنی وفاداری کاثبوت پیش کردیا تھا ۔
متعدد انگریز مؤرخوں نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے کہ 1857 میں سکھ سپاہیوں نے باغیوں کا ساتھ نہیں دیا تھا اس لیے بعد میں انگریزوں نے پنجاب کو اپنی فوج کی بھرتی کا سب سے بڑا مرکز بنایا اور اسی پالیسی کے تحت 36 سکھ ریجیمنٹ کی تشکیل ہوئی۔دوسری وجہ یہ تھی کہ سکھوں اورپٹھانوں کی پرانی دشمنی تھی اور پنجاب کے سرحدی علاقوں میں مہاراجہ رنجیت سنگھ جی کے زمانے سے سکھوں اور پٹھانوں کی کئی جنگیں ہوئیں۔ اسی لیے ‘پھوٹ دالو اور راج کرو’ پالیسی کے تحت انگریزوں نے پٹھانوں سے لڑنے کے لیے سکھوں کا انتخاب کیا تھا۔
یہ وہ پس منظر ہے جس میں پٹھان اور سکھ فوجیوں نے ساراگڑھ کی جنگ میں ایک دوسرے کو اپنا مد مقابل پایا۔اس تاریخی پس منظر کا ذکر کیے بغیر فلم کیسری میں اس جنگ کا سبب ایک فرضی واقعے کو بتایا گیا ہے۔ فلم کے مطابق ایشر سنگھ (اکشے کمار)نے پٹھان قبیلے کے ایک ملا کے چنگل سے قبیلے کی ایک لڑکی کوبچایا۔ شریعت کی خلاف ورزی کے جرم میں ملا اس لڑکی کو موت کی سزا دینا چاہتا تھا اور ایشر سنگھ نے اس لڑکی کوبچالیا۔اپنے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کا بدلہ لینے کے لیے پٹھانوں نے سارا گڑھ قلعے پر حملہ کردیا۔
فلم میں جنگ کی شروعات بھی اس طرح ہوتی ہے کہ وہی ملا، اب پٹھان لشکر کی سپہ سالاری کرتے ہوئے پھر اسی لڑکی کو گھسیٹتے ہوئے قلعے کے سامنے لاتا ہے اور اس کا سر قلم کردیتا ہے۔ ان دونوں ہی موقعوں پر یہ دکھایا گیا ہے کہ ملا سورہ فاتحہ پڑھتے ہوئے لڑکی کے ساتھ بربریت اور پھر اس کا قتل کرتا ہے جب کہ سورہ فاتحہ سے اس واقعہ کا کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ یہ صرف اس لیے دکھایاگیا ہے کہ دیکھنے والوں پر یہ اثر پڑے کہ یہ ظلم و جبر قرآن کے احکامات کے مطابق ہورہا تھا۔ اس طرح فلمساز نے اس جنگ کا پورا پس منظر ہی بدل دیا۔یوں ملک کی آزادی کے لیے لڑنے والے پٹھان ظالم اور گمراہ ہوگئے اور انگریزوں کے لیے لڑنے والے سکھ برحق قرار پائے۔ اس کے علا وہ جنگ میں پیش آنے والے واقعات کو بھی بدل دیاگیا ہے۔مثلاً:تاریخی شواہد کے مطابق جنگ کے دوران پٹھانوں نے سکھوں کی قلیل تعداد کے مدنظر سکھوں کو قلعہ چھوڑ کر جانے کا موقعہ دیا لیکن بہادر سکھ سپاہیوں نے قلعہ چھوڑ کر جانے سے انکار کردیا۔
پھرقلعہ کی اونچائی کا فائدہ اٹھا کر اور اس کی مضبوط دیواروں کی آڑ لے کر سکھوں نے اس وقت کی جدید ترین ہیزی مارتینی بندوقوں سے پٹھانوں پر گولیاں برسائیں۔ آزادی کے متوالے پٹھان اپنی تلواریں اوردیسی جزیل رائفلیں لے کر بے خوف آگے بڑھتے رہے اور گولیوں کاشکار ہوتے رہے۔ تقریباً دو سو پٹھان سپاہی اس مہم میں شہید ہوئے۔ آخر دو پٹھان گولیوں سے بچتے ہوئے قلعے کی دیوار تک جا پہنچے اور اپنے ننگے ہاتھوں سے مٹی کھود کھود کر قلعے کی دیوار کی جڑ میں گڈھا کردیا، بنیاد کے تلے کی مٹی ہٹ جانے سے دیوارگر گئی۔
دیوار کے گرتے ہی پٹھان فوج کو لے کر قلعے میں داخل ہوگئے۔ قلعے میں تعینات سبھی سکھ فوجی بہادری سے لڑتے ہوئے شہید ہوگئے۔ کیونکہ سکھ فوجیوں میں سے کوئی بھی زندہ نہیں بچا اس لیے یہ ممکن ہے لڑائی کے دوران ہونے والے واقعات کے بیان میں فلمسازوں کو کچھ تخلیقی آزادی لینے کی چھوٹ مل گئی۔ مگر یہ فلم تو جوتاریخی شواہد موجود ہیں ان کے بھی برخلاف ہے جیسے کہ 36سکھ ریجیمنٹ کے کمانڈر لیفٹیننٹ کرنل جان ہوٹن نے پوری لڑائی کا بیان اپنی ڈائری میں لکھا تھا جس کو ان کی موت کے بعد ان کے جونیئر آفیسر میجر A.C Yatef نے 1900 میں شائع شدہ ہوٹن کی سوانح میں شامل کیا ہے۔ فلم کیسری میں تاریخ کے برعکس پٹھانوں کے قلعہ چھوڑنے کے موقعہ کو دھوکا دکھایاگیا ہے جس کی آڑ لے کر دو پٹھان قلعے کی دیوار تک پہنچ کر اسے بارود سے اڑا دیتے ہیں۔فلم میں ایک تصوراتی واقعہ اور جوڑدیاگیا ہے جس میں اکشے کمار اپنے جوانوں سے جھوٹ بول کر یہ کہہ دیتا ہے کہ انگریز افسروں نے اسے قلعہ چھوڑ کر پیچھے ہٹنے کاحکم دیا ہے۔
ناظرین کوبتایا جاتا ہے کہ اس نے ایسا اس لیے کیا تاکہ سکھ فوجی انگریزوں کی غلامی کے بندھن سے آزاد ہوجائیں اور آزاد سپاہیوں کی طرح موت کے منہ سے جانے کا فیصلہ خود کریں۔ یہاں سے سکھ سپاہیوں کے مکالموں میں آزادی اپنی مٹی، اور قوم جیسے لفظ بار بار آتے ہیں۔ ایک تو پٹھانوں سے مجاہد آزادی ہونے کا فخر لے لیاگیا، اس پر ستم ظریفی یہ کہ انگریزی سپاہی آزادی کی زبان بول رہے ہیں۔ اس جنگ کے مؤرخ جے سنگھ سوہل Sohal لکھتے ہیں، 36 ریجیمنٹ کی ٹکڑی کے آخری زندہ بچے سپاہی سگنل مین گرومکھ سنگھ نے سگنلی ٹاور میں اپنی گولیاں ختم ہونے پر آخری گولی سے خودکشی کرلی تھی ، لیکن فلم میں جلتا ہوا گرومکھ ٹاور سے نکلتا ہے اورادرک زئیوں کے سردار گل بادشاہ کو پکڑ لیتا ہے اور اس کی بارود کی پوٹلی میں آگ لگادیتا ہے جس سے دونوں دھماکے میں مارے جاتے ہیں۔ اکشے کمار مرتے مرتے ظالم ملا کو موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے۔ حقیقت میں نہ تو گل بادشاہ لڑائی میں مارا گیا تھا اور نہ ہی ملا ہاڈا ، وہ عالم جس نے 1857 میں انگریزوں کے خلاف جنگ کا فتویٰ دیا تھا۔ جہادکے لفظ کو بھی فلم میں بہت غلط روشنی میں دکھایاگیا ہے۔ ظالم ملا فلم میں بار بار اس لفظ کا استعمال کرتا ہے۔ ایک منظر میں تو وہ خود یہاں تک کہہ دیتا ہے کہ جہاد تو میرے ہاتھ میں محض ایک ہتھیار ہے۔ اس طرح اسلامی فوبیا کی جو تصویر ہے وہ مکمل ہوجاتی ہے۔
اول تو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ 1857 کے غدر کی رہنمائی مسلم علماء یا مولویوں نے کی تھی جنھوں نے برٹش حکومت کے خلاف جہاد کا فتویٰ دیاتھا اور غدر کے ناکام ہوجانے پر انھوں نے اپنے خون سے اس کا خوں بہا ادا کیاتھا۔ کہا جاتا ہے کہ دلی سے کلکتہ تک گرانڈ ٹرنک شاہراہ پر ایک بھی ایسا درخت نہیں تھا جس پر انگریزوں کی فتح کی نشانی کے طور پر کسی عالم کی لاش نہ لٹک رہی ہو۔ دوسری بات یہ کہ ہر فوج اپنے معبود کا نام لے کر میدانِ جنگ کا رخ کرتی ہے جیسے کہ سکھوں کا نعرہ ’’جو بولے سونہال، ست سری اکال‘‘ اور مراٹھوں کا ’’جے بھوانی‘‘ یا ’’ ہرہر مہادیو‘‘ ۔ یہ روایت ہندوستانی فوج میں آج تک چلی آرہی ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ فلم ہمارے لیے باعث فکر کیوں ہے، کیونکہ فلمیں تو تفریح کا ذریعہ ہوتی ہیں ساتھ ہی فلم سازوں کو بھی آزادی اظہار رائے کا حق حاصل ہے۔ یہ فلم اس لیے باعث فکر ہے کیونکہ یہ اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرتی ہے۔ یہ فلم ایک تاریخی واقعے کو لے کر اس کے گرد جھوٹی کہانی بنتی ہے جس میں مسلمان دشمن اور ولن ہے اور اسلام کٹہرے میں کھڑا ہے ۔ آخری اورسب سے ضروری بات یہ ہے کہ جب کوئی فلم یہ دعویٰ کرتی ہے کہ اس میں تاریخی واقعات پیش کیے گئے ہیں تو اس کے فلمسازوں پر یہ ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کہ وہ تاریخ کو صحیح واقعات کے ساتھ پیش کریں۔ کہا جارہا ہے کہ کیسری نے دو کروڑ روپیہ کمائے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ اس فلم کو ایک کروڑ لوگوں نے سنیما کے پردے پر جاکر دیکھا ہے اور آنے والے دنوں میں کروڑوں لوگ اسے ٹی وی پر دیکھیں گے۔ ہمارے ملک میں بلکہ پوری دنیا میں فلمیں جتنے لوگوں تک پہنچتی ہیں اتنی کوئی تاریخ کی کتاب نہیں پہنچتی۔ لہٰذا کیسری کی نمائش کے بعد لوگوں کے ذہنوں میں ساراگڑھی کی جنگ کی یہی تاریخ نقش ہوگی۔ پٹھانوں کی جنگ آزادی ہمیشہ کے لیے تاریخ کے صفحات سے کالعدم ہوجائے گی اورلوگوں کی نظر میں اس جنگ میں لڑنے والے پٹھان دھوکے باز غیر تہذیب یافتہ اورملک دشمن قرار پائیں گے جو اسلام کے نام پر ظلم وجبر پھیلانے کے لیے شریک جنگ ہوئے تھے۔
(نظام پاشا سپریم کورٹ کے وکیل ہیں۔)