کشمیر ٹائمز کے دفتر پر چھاپہ کیا بتاتا ہے

01:10 PM Nov 26, 2025 | افتخار گیلانی

کشمیر ٹائمز کے دفتر پر چھاپہ صرف ایک اور آزادیِ صحافت کو خوف زدہ کرنے کی کوشش نہیں۔ یہ اس بات کی یاد دہانی بھی ہے کہ جب ایک ایسا اخبار، جو دہائیوں سے کشمیر کی سیاسی اتھل پتھل، انسانی تکالیف اور حکمتِ عملی کے مباحث کو دستاویزی شکل دیتا آیا ہے، اچانک کمزور حالت میں دھکیل دیا جائے تو کیا کچھ داؤ پر لگ جاتا ہے۔

جمعرات، 20 نومبر 2025 کو ایس آئی اے کے چھاپے کے دوران کشمیر ٹائمز کے دفتر کے باہر اہلکار۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

سال 1999کی کرگل جنگ کے بعد فوراً بعد جب نئی دہلی میں اس کے مختلف مضمرات اور اس سے حاصل شدہ سبق کا جائزہ لیا جا رہا تھا، تو قومی سلامتی مشیر برجیش مشرا میڈیا اور بین الاقوامی سطح پر ہندوستانی بیانیہ کی پذیرائی سے مطمئن نہیں تھے۔

ان کو اندازہ ہوگیا تھا کہ بین الاقوامی سطح پر انڈین میڈیا کی ساکھ خاصی نیچے ہے اور اس پر کوئی یقین کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا ہے۔پرائیوٹ چینلوں کا دور شروع ہو چکا تھا۔ نیوز چینلوں میں اسٹار نیوز اور زی نیوز آن ایر ہو چکے تھے۔

اسٹار نیوز کے انگریزی شعبہ کو این ڈی ٹی وی مواد اور اینکر فراہم کرتا تھا۔ جنگ کے فوراً بعد مشرا نے این ڈی ٹی وی کے سربراہ پرنائے راے کو بلا کر ان کو اپنا الگ چینل شروع کرنے کا مشورہ دیا۔

ان دنوں ہندوستان سے اپ-لنکنگ کی اجازت نہیں تھی۔ مشرا نے مداخلت کرواکے اپ-لنکنگ کا مسئلہ حل کروادیا۔ این ڈی ٹی وی کے بجٹ کے ایک حصہ کا بار حکومت نے اپنے ذمہ لے لیا۔ طے ہوا کہ این ڈی ٹی وی ایک سینٹر ٹو لیفٹ کی پوزیشن لےکر ٹی وی صحافت میں ایک اعلیٰ معیار قائم کرے۔

حکومت کی کارکردگی کی جتنی بھی تنقید کرنا چاہیے کرسکتا ہے، اس میں حکومت کبھی مداخلت نہیں کرےگی، مگر نازک اوقات میں حکومت کی مدد کرنے کے لیے ایک ایسا بیانیہ وضع کرے جس کوبین الاقوامی سطح پر قبولیت ہو۔

این ڈی ٹی وی اور اس کے اینکروں نے واقعی اس دوران اپنی کوریج اور حکومت کے ہمہ وقت احتساب کروانے کی وجہ سے ساکھ بنائی۔ جس کا استعمال نازک اوقات، خاص طور پر کشمیر میں شورش کو موڑ دینے کے لیے بیشتر اوقات کیا گیا۔

بین الاقوامی سطح پر اس نے بی بی سی، سی این این کی طرح معتبریت قائم کرنے میں خاصی کامیابی حاصل کرلی۔ یعنی ایک غیر جانبدار میڈیا مشکل حالات میں ملک کے لیے اکسیر کا کام کرتا ہے۔

مگر ابھی حال ہی میں جموں میں ریاست جموں و کشمیر کے سب سے پرانے اور مؤقر انگریزی اخبار کشمیر ٹائمز کے دفتر پر جس طرح پولیس نے ریڈ کی اور اس کی ایڈیٹر انورادھا بھسین کے خلاف مبینہ طور پر کیس درج کیا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومتوں کو یہ ادراک ہو گیا ہے کہ اطلاعات یا بیانیہ کے لیے ان کو اب کسی میڈیا کے سافٹ پاور کی ضرورت نہیں ہے۔بلکہ یہ طے ہوا ہے صرف اسی میڈیا کی نہ صرف سرپرستی بلکہ شائع ہونے دیا جائے گا، جو بالکل حکومت کی گود میں بیٹھا ہو اور اس کی تعریفوں کے پل بغیر کسی ابہام کے باندھے۔

نوے کی دہائی میں جب کشمیر میں عسکریت زوروں پر تھی، تو ایک نئے سکریٹری اطلاعات نے اس وقت کے ڈائریکٹر اطلاعات کو حکم دیا کہ سرینگر سے شائع ہونے والے اخباروں پر نکیل کس دے، کیونکہ وہ عسکریت کے بارے میں خبریں شائع کرتے ہیں۔

ڈائریکٹر اطلاعات ایک جہاندیدہ کشمیری پنڈت کنہیا لال دھر تھے۔ انہوں نے سکریٹری صاحب کو ہدایت دی کہ اس بارے میں گورنر سے حکم نامہ حاصل کریں۔ جب سکریٹری صاحب پنڈت جی کو لےکر گورنر گریش چندر سکسینہ کے پاس پہنچے، تو اس نے سکریٹری کو ڈانٹ پلائی اور کہا کہ اگر اخباروں پر نکیل کس دی جائے،تو گراؤنڈ انفارمیشن یا فیڈبیک ان کو کہاں سے ملے گا۔

کم از کم دکھاوے کے لیےبھی ضروری ہے کہ میڈیا کا ایک حصہ آزاد ہو، اور اس میں اسلوب و سوچ کی وہ تخلیقی کشمکش زندہ رہے جو اسے حکومتی ڈھانچے سے الگ اور خودمختار دکھا سکے۔ تاکہ جب بحران کی گھڑی آئے تو یہی آزادانہ لہجہ کام آسکتا ہے۔ اسی سے دنیا میں بھی اعتبار بنتا ہے اور اسی کے بل پر اپنے لوگوں کے دلوں میں بھی سچائی کی کوئی جگہ قائم رہتی ہے۔اطلاعاتی جنگ کا ایک بنیادی پہلو’اعتبار’ہوتا ہے۔ یہ اُسی وقت پیدا ہوتا ہے جب کچھ سچائی بھی پروسی جائے۔

کشمیر ٹائمز کے دفتر پر چھا پہ صرف ایک اور آزادیِ صحافت کو خوف زدہ کرنے کی کوشش نہیں۔ یہ اس بات کی یاد دہانی بھی ہے کہ جب ایک ایسا اخبار، جو دہائیوں سے کشمیر کی سیاسی اتھل پتھل، انسانی تکالیف اور حکمتِ عملی کے مباحث کو دستاویزی شکل دیتا آیا ہے، اچانک کمزور حالت میں دھکیل دیا جائے تو کیا کچھ داؤ پر لگ جاتا ہے۔

ایسے وقت میں سوال صرف یہ نہیں ہوتا کہ ایک اخبار کو کیوں نشانہ بنایا گیا۔ اصل بات یہ ہے کہ ان آوازوں، تحریروں اور ریکارڈ شدہ یادداشتوں کو خاموش کرانے کی یہ ایک کوشش ہے جنہوں نے کشمیر کی اجتماعی یادداشت کو تشکیل دیا ہے۔

ایک ایسی سوچ کی علامت ہے، جو صحافت کو رکاوٹ سمجھتی ہے، ضرورت نہیں۔ یہ اس بڑی لڑائی کا حصہ ہے کہ کشمیر کی کہانی کون لکھے گا، اور کون اس راستے سے ہٹایا جائے گا تاکہ سرکاری بیانیہ مضبوط رہے۔

فائل فوٹو: ایکس / انورادھا بھسین

ویسے تو 2020میں ہی اس اخبار کے سرینگر کے دفتر کو سیل کر دیا گیا تھا،مگر اس کا جموں کا دفتر قائم تھا۔ وہ بھی تین سال سے بندپڑا تھا، کیونکہ اخبار کی مدیر انورادھا بھسین امریکہ منتقل ہو گئی تھی، جہاں سے انہوں نے اخبار کا دیجیٹل ایڈیشن پچھلے سال دوبارہ شروع کر دیا تھا۔

طاقت ور طبقہ یعنی پاورز کے ساتھ اس اخبار کا ہمیشہ سے ہی چھتیس کا آنکڑا رہا ہے۔ جب نکیل عسکریت پسندوں کے پاس تھی، تو کبھی جے کے ایل ایف تو کبھی حزب المجاہدین نے کشمیر ٹائمزکی ترسیل پر پابندی لگادی تھی۔ جب سرکار نواز بندوق برداروں کا دور آگیا توان کے کمانڈر محمد یوسف المعروف کوکہ پرے نے اس اخبار کے سرینگر دفتر میں کام کرنے والے صحافیوں کے موت کے فرمان صاد ر کر دیے تھے۔

  فاروق عبداللہ کی حکومت نے  1996ء سے لے کر 2002 ء تک اس اخبار کے ریاستی اشتہارات بند رکھے۔ 2008ء کی امر ناتھ ایجی ٹیشن‘ اوربعد میں 2010ء میں کشمیر میں برپا عوامی احتجاج کے بعد تو ہندوستانی وزارت داخلہ نے باضابطہ ایک حکم نامہ، تمام سرکاری اور پبلک سیکٹر اداروں کو جاری کیا کہ کشمیر ٹائمز چونکہ ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہے، اس لیے اسے اشتہارات دینا بند کر دیا جائے؛ حتیٰ کہ پرائیوٹ سیکٹر کو بھی ہدایت دی گئی کہ وہ بھی کشمیر ٹائمز سے دور رہیں۔

مجھے دہلی میں کئی بار حکومتی اداروں کے ذمہ داران نے کہا کہ کشمیر ٹائمز ٹرسٹ کے سرپرست وید بھسین  جی کو وزیر اعظم منموہن سنگھ یا وزیر داخلہ پی چدمبرم سے ملنا چاہیے، مگر وید جی صرف اشتہارات بحال کرانے کے لیے وزیروں سے ملنے پر کبھی راضی نہیں ہوئے۔ دنیاوی نقصانات سہنے کے باوجود اس درویش کی گردن خم نہ ہوئی‘ حالت یہاں تک پہنچی کہ انہیں سری نگر کا انتہائی جدید پریس زمین سمیت بیچنا پڑا۔ اخبار کی سرکولیشن خاصی کم کرنی پڑی‘ مگر اقدار اور اصولوں پر کبھی اس درویش نے حرف نہ آنے دیا۔

ویسے تو اس اخبار کو وید بھسین نے 1955 میں ہفت روزہ کی صورت میں شروع کیا تھا اور بعد میں 60کی دہائی میں اس کو روزنامہ کردیا۔ مگر اس نام کا اخبار 1934میں سری نگر سے بلدیو پرساد شرما اور پنڈت کھوسہ لال کول نے شروع کیا تھا، جس کو بعد میں بمبئی کے ایک کانگریسی لیڈر عبدالرحمان مٹھا نے خریدا۔ انہوں نے جنوبی ہندوستان کے ایک صحافی جی کے ریڈی کو اس کا ایڈیٹربنادیا۔ 1947میں وہ عجیب و غریب حالات میں پاکستان پہنچے اور پاکستانی زیر انتظام کشمیر کا ان کو ناظم اطلاعات بنادیا گیا۔اخبار انہی دنوں بند ہوگیا۔

وید بھسین جموں و کشمیر کی سیاست میں گہری دل چسپی رکھتے تھے۔ 1945 سے 1949 تک وہ جموں و کشمیر اسٹوڈنٹس یونین کے صدر رہے۔

بعد ازاں 1950 سے 1953 تک جموں و کشمیر یوتھ نیشنل کانفرنس کے صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں، اور اسی عرصے میں نیشنل کانفرنس کی جنرل کونسل کے رکن بھی رہے۔1951میں ہندوستان میں ہوئے پہلے لوک سبھا کے انتخابات میں وہ جواہر لال نہرو کے انتخابی حلقہ پھول پور میں اندرا گاندھی کے ساتھ کیمپین کے انچارج تھے۔  1953 کے بعد انہوں نے عملی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرلی اور اپنی توجہ ریاست کی سماجی اور ثقافتی ترجیحات پر مرکوز کر دی۔

انہوں نے اپنے صحافتی سفر کا آغاز 1952 میں نیا سماج کے نام سے ایک اردو ہفت روزہ کے ذریعے کیا، جسے وہ 1954 تک چلاتے رہے۔ 1954 میں یہ اخبار دفاعِ ہند کے قوانین کے تحت اس لیے بند کر دیا گیا کہ اُس نے اُس وقت کے جموں و کشمیر کے وزیر اعظم شیخ عبداللہ کی برطرفی اور گرفتاری کو ”غیر جمہوری“ قرار دیتے ہوئے سخت مخالفت کی تھی۔ بعد ازاں 1955 میں انہوں نے کشمیر ٹائمز کی بنیاد درکھی اور 2000 تک اس کے ایڈیٹر رہے۔

تاہم، آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد جب جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کر دیا گیا، اخبار کی قسمت کو اور گہن لگ گیا۔

انو رادھا بھسین نے انٹرنیٹ کی طویل بندش کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔جس نے ایک بار پھر ثابت کردیا ہے کہ وہ ریاست جموں و کشمیر کے جدید صحافت کے بانی وید بھسین کی بیٹی کہلانے کی واقعی حقدار ہیں۔

انورادھا نے معروف وکیل ورندا گروور کے ساتھ پٹیشن تیار کرکے انٹرنیٹ بندشوں کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔ کشمیر میڈیا کی طویل خاموشی نے بھی ایک آزاد اور خودمختار میڈیا کے مستقبل کے امکانات کے بارے میں خوف اور خدشات کو جنم دیاتھا۔

ایک میڈیا پروفیشنل کی حیثیت سے، کشمیر ٹائمز کے سب سے سینئر ایڈیٹرز میں سے ایک کے طور پر،اس پر آواز اٹھانا ان کے فرائض میں شامل تھا۔ انہوں نے استدعا کی تھی کہ پریس اور میڈیا کی آزادی کو یقینی بنانے کے لیے انٹرنیٹ اور ٹیلی کمیونی کیشن سروسز اور فوٹو جرنلسٹ اور رپورٹرز کی نقل و حرکت پر عائد سخت پابندیوں میں فوری نرمی کی جائے۔

ٹھیک پانچ ماہ بعد، 10 جنوری 2020 کو، عدالت نے کہا کہ حکومت طویل عرصے تک انٹرنیٹ یا لوگوں کی نقل و حرکت پر پابندیاں نہیں لگا سکتی۔

ان کی کتاب ڈسمانٹلیڈ اسٹیٹ: دی ان ٹولڈ اسٹوری آف کشمیر آفٹر آرٹیکل 370   پر حال ہی میں جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر انتظامیہ نے 24 دیگر کتابوں کے ساتھ پابندی عائد کر دی تھی۔ 2019  کے بعدسے جموں و کشمیر میں سیاسی پیش رفت اور میڈیا پر پابندیوں کے بعد کشمیر ٹائمزکا پرنٹ ایڈیشن‘تقریباً بند’ہو چکا تھا۔

اسی  اورنوے کی دہائیوں میں ‘کشمیر ٹائمز‘ مقبولیت کی بلندیوں کو چھو رہا تھا۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سوپور میں اسکول کی چھٹی کے بعد، میں ہر روز بس ڈپو سے متصل یونیورسل نیوز ایجنسی کے باہر بھیڑ دیکھتا تھا۔ لوگ ‘کشمیر ٹائمز‘ حاصل کرنے کے لیے چھینا جھپٹی کر رہے ہوتے تھے۔ چونکہ اخبار جموں سے شائع ہوتا تھا، اس لیے سوپور اکثر دوپہر کو ہی پہنچتا تھا۔ کئی بار ہجوم کو قابو میں رکھنے کے لیے پولیس کو مداخلت کرنا پڑتی۔

 اپنے سات دہائیوں پر محیط صحافتی کیریئر کے دوران وید جی نے لاتعداد صحافیوں کی سرپرستی کی، جو اب قومی اور بین الاقوامی میڈیا کی مؤثر آوازیں ہیں۔ جب بھی وہ دہلی آتے تھے، تو ہمیں بلا کر پریس کلب میں چائے یا لنچ کا اہتمام کرتے۔ جبکہ میں کب کا کشمیر ٹائمز چھوڑ چکا تھا۔  الگ الگ اداروں میں کام کرتے ہوئے بھی وید جی کی وجہ سے، ہم اپنے آپ کو ‘کشمیر ٹائمز‘ فیملی تصور کرتے تھے۔

خبروں کے حوالے سے انہیں چکمہ دینا بہت ہی مشکل ہوتا تھا۔ وہ اس ٹریڈ کی سبھی ترکیبوں کو جانتے تھے۔ اگر کوئی رپورٹر انٹلی جنس ذرائع کے حوالے سے خبر فائل کرتا تو اس کی خوب خبر لیتے۔ میں خود کئی بار ان کے عتاب کا نشانہ بنا‘ مگر جلد ہی پدرانہ شفقت ان میں عود کر آتی۔ انہوں نے ہمیشہ یہی تلقین کی کہ میڈیا کو اختلاف رائے کا ذریعہ بناؤ اور حکومت کا ساتھ دینے کے بجائے ہر وقت اس کا احتساب کرتے رہو‘ چاہے تمہارے دوست ہی حکومت میں کیوں نہ ہوں۔

 باضمیر افراد کے لیے یہ ایک بڑا سوال ہے، وہ کب اپنی خاموشی توڑ دیں گے یا اپنی باری کا انتظار کریں گے۔ اگر اب بھی نہ جاگے تو یادرکھیں، وہ جرمن پادری مارٹن نیومولر کی اس نظم کی عملی تفسیر بن جائیں گے؛

پہلے وہ سوشلسٹوں کے پیچھے آئے، اور میں خاموش رہا — کیونکہ میں سوشلسٹ نہیں تھا۔

پھر وہ ٹریڈ یونین کے کارکنوں کے پیچھے آئے، اور میں خاموش رہا — کیونکہ میں ٹریڈ یونین کا کارکن نہیں تھا۔

پھر وہ یہودیوں کے پیچھے آئے، اور میں خاموش رہا — کیونکہ میں یہودی نہیں تھا۔

پھر وہ میرے پیچھے آئے — اور بولنے والا کوئی نہ بچا تھا۔