سری نگرواقع شری مہاراجہ ہری سنگھ ہاسپٹل کو پی ایم کیئرس فنڈ سے تین کمپنیوں نے 165 وینٹی لیٹرس دیے تھے، جس میں سے کوئی بھی کام نہیں کر رہا ہے۔ ان تین میں سے دوکمپنیوں پر وینٹی لیٹر کے معیار کو لےکر پہلے بھی سوال اٹھ چکے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ اس یونین ٹریٹری کی جانب سے ان وینٹی لیٹرس کی مانگ نہیں کی گئی تھی۔
نئی دہلی: متنازعہ پی ایم کیئرس فنڈ کے تحت بانٹے گئے وینٹی لیٹرس میں ایک بار پھر سے گڑبڑی کا معاملے سامنے آیا ہے۔ جموں وکشمیر کے سری نگر واقع شری مہاراجہ ہری سنگھ (ایس ایم ایچ ایس)ہاسپٹل کو فنڈ سے ایک 165 وینٹی لیٹرس دیے گئے تھے، لیکن ان میں سے سب کے سب خراب پائے گئے ہیں۔
آر ٹی آئی قانون کےتحت موصولہ جانکاری کےمطابق، اسپتال انتظامیہ نے بتایا ہے کہ جب ان وینٹی لیٹرس کا ٹیسٹ کیا گیا تو یہ صحیح نہیں پائے گئے، نتیجتاًاس سے مریضوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
قابل غور پہلو یہ بھی ہے کہ یونین ٹریٹری جموں وکشمیر نے ان وینٹی لیٹرس کی مانگ بھی نہیں کی تھی۔
جموں کے کارکن بلویندرسنگھ کے ذریعےآر ٹی آئی ایکٹ کے تحت موصولہ دستاویزوں کے مطابق، اسپتال نے کہا کہ اس میں سے زیادہ تر ڈیوائس‘ضروری پیمانے پر کھرے نہیں اترے تھے’اور یہ وینٹی لیٹر اچانک سے بند ہو جا رہے تھے، جو مریضوں کی زندگی کو خطرے میں ڈالنے کےبرابر ہے۔
سنگھ نےدی وائر کو بتایا کہ انہیں کئی ڈاکٹروں سے جانکاری ملی تھی کہ ‘یہ وینٹی لیٹرس کسی کام کے نہیں ہیں’۔حالانکہ اسپتال کے لوگ انہیں اس دعوے کی تصدیق نہیں دے سکے، جس کے بعد انہوں نے اس کی تصدیق کرنے کے لیے آر ٹی آئی درخواست دائر کی تھی۔
ایسے وینٹی لیٹرس کو صحیح نہیں مانا جاتا ہے، جو ہوا کی اتنی مقدار کو پھیپھڑوں میں جاری نہیں کر پاتے ہیں، جتنی سانس لینے کے لیےضروری ہوتی ہے۔
سنگھ نے سال 2020 کے بیچ میں کئی آر ٹی آئی دائر کیے،لیکن پہلی اپیل کے بعد ہی انہیں اس کا جواب ملا۔سری نگر کےگورنمنٹ میڈیکل کالج (جی ایم سی)میں اینستھیزیاولوجی اور کرٹیکل کیئر ڈپارٹمنٹ کے ہیڈ نے سنگھ کو بھیجے جواب میں ان دعووں کی تصدیق کی، جو ڈاکٹروں نے انہیں بتایا تھا۔
سری نگر کے اسپتال کو بھارت وینٹی لیٹرس سے 37یونٹ، جیوتی سی این سی آٹومیشن لمٹیڈ سے 125 یونٹ اور اےجی وی اے(AgVa)وینٹی لیٹرس سے تین یونٹ وینٹی لیٹر حاصل ہوئے تھے، جس میں سے سبھی خراب نکلے تھے۔
معلوم ہو کہ جیوتی سی این سی کو 5000 وینٹی لیٹرس دینے کے لیے پی ایم کیئرس فنڈ سے 121 کروڑ روپے ملے تھے۔اسی طرح اے جی وی اے کمپنی کوفی وینٹی لیٹر دینے کے لیے1.8 لاکھ روپے ملے تھے۔ وہیں بھارت الیکٹرانکس لمٹیڈ کے تیار کردہ بھارت وینٹی لیٹرس کو 30000 وینٹی لیٹر دینے کے لیے پی ایم کیئرس فنڈ سے 1513.92 کروڑ روپے ملے تھے۔
اس بنیاد پر تجزیہ کریں تو خراب نکلے کل 165وینٹی لیٹرس کی قیمت304.4 کروڑ روپے ہوتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں، پی ایم کیئرس فنڈ کا اتنا پیسہ عوام کے کسی کام نہیں آیا۔
گورنمنٹ میڈیکل کالج کے اینستھیزیاولوجی ڈپارٹمنٹ کو ایس ایم ایچ ایس اسپتال سے 37 وینٹی لیٹرس ملے تھے، لیکن جب محکمہ نے اس کی جانچ کی تو اس میں سے سبھی خراب نکلے۔ اس کی وجہ سے انہوں نے واپس ایس ایم ایچ ایس اسپتال کو مشینیں لوٹا دیں۔
معلوم ہو کہ جیوتی سی این سی اور اے جی وی اے کمپنی کے وینٹی لیٹرس کافی تنازعہ میں رہے ہیں۔ وزارت صحت نے گجرات کی جیوتی سی این سی آٹومیشن کمپنی کو کووڈ 19علاج کے لیے وینٹی لیٹر پہنچانے کی منظوری نہیں دی تھی۔
پچھلے سال مئی مہینے میں جیوتی سی ایم سی آٹومیشن کے‘دھمن 1’وینٹی لیٹرس اس وقت تنازعہ میں آ گئے جب احمدآباد کے سول اسپتال کے سپرنٹنڈنٹ جےوی مودی نے ریاستی سرکار کے طبی خدمات فراہم کرنے والے کوخط لکھ کر بتایا کہ یہ وینٹی لیٹرس‘مطلوبہ نتائج پیدا کرنے کے قابل نہیں تھے۔’
دی وائر نے اس وقت اپنی ایک خصوصی رپورٹ میں بتایا تھا کہ گجرات سرکار کے ذریعےجس کمپنی (جیوتی سی ایم سی آٹومیشن)نے ‘دس دنوں’میں کووڈ مریضوں کے لیے وینٹی لیٹرس بنانے کا دعویٰ کیا گیا تھا، جنہیں لےکرصوبہ کے ڈاکٹروں میں معیار پر کھرا نہ اترنے کی بات کہی تھی، اس کمپنی کے پرموٹرس اسی انڈسٹریل فیملی سے جڑے ہیں، جنہوں نے سال 2015 میں وزیر اعظم نریندر مودی کو ان کا نام لکھا سوٹ تحفے میں دیا تھا۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ وینٹی لیٹر بنانے والی اس کمپنی کے پرموٹر بی جے پی کے رہنماؤں کے قریبی ہیں۔
وہیں اے جی وی اے ایک ایسی کمپنی تھی، جس نے پہلے کبھی کوئی وینٹی لیٹر نہیں بنایا تھا، لیکن اس کے باوجود اسے پی ایم کیئرس کے ذریعے10000 وینٹی لیٹرس سپلائی کرنے کا کانٹریکٹ دیا گیا تھا۔ وزارت صحت کی تکنیکی کمیٹی کے ذریعے اس کے وینٹی لیٹرس کا اندازہ کرنے کے پہلے ہی ایسا کیا گیا تھا۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب اس طرح کا معاملہ سامنے آیا ہے۔ اس سے پہلے مئی2021 میں اورنگ آباد میڈیکل کالج نے کہا تھا کہ جیوتی سی این سی کی150 دھمن III وینٹی لیٹرس میں سے 58 خراب نکلے تھے۔
اسی طرح جون 2021 میں نیو انڈین ایکسپریس نے رپورٹ کر بتایا تھا کہ پی ایم کیئرس فنڈ کے 5500 وینٹی لیٹر وزارت صحت کے ویئرہاؤس میں دھول کھا رہے ہیں۔
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)