سال 2019سے سرکاری طور پر ان شہدا کو نظر انداز کرکے یہ ثابت کر دیا گیا کہ عوام ابھی بھی حقیقی آزادی سے محروم ہیں۔ وہ ابھی اپنے خوا بوں اور خواہشوں کے مطابق نظام حیات تعمیر نہیں کرسکے جس کے لیے بے انتہا قربانیاں دی گئیں۔
میں قیام گاہ کی طرف جانے ہی والا تھا کہ اچانک آندھی آگئی۔ ساری فضا میں زمین سے آسمان تک گرد و غبار چھا گیا۔ قہر خداوندی کا سلسلہ تقریباً پاو گھنٹے تک جار ی رہا۔ اس کے بعد فضا ساکن ہوگئی۔ آسمان سیاہی اور زرد تانبے کی شکل میں تبدیل ہوگیا۔ میرا دل بیٹھا جا رہا تھا۔ میں محسوس کر رہا تھا کہ کوئی خوفناک مصیبت آنے والی ہے۔ میں اسی ادھیڑ بن میں تھا کہ دیکھا کہ عوام کی ٹولیاں باہم سرگوشیاں کر رہے ہیں، معلوم ہو اکہ حکومت نے سینٹرل جیل کے باہر نہتے اور ناکردہ گناہ مسلمانوں پر گولی چلادی ہے۔ یہ خبر سنتے ہی میں جامع مسجد پہنچا تو معلوم ہوا کہ 17افراد داعی اجل کو لبیک کہہ چکے ہیں اور بیسیوں حالت نزاع میں تھے۔ جامع مسجد کے صحن میں ایسا منظر تھا کہ سنگ دل سے سنگ دل انسان بھی اس اندوہناک منظر کو دیکھ کر متاثر اور اشک بار بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔اس اثنا میں میر پور اور راجوری میں فرقہ وارانہ صورت حال بد سے بد تر ہو گئی۔ اس خطے میں ہندو ساہو کار ایک عرصے سے مسلمانوں کا خون چوس رہے تھے۔ اس علاقے کی مسلم آبادی عملاً کنگال اور قلاش ہو چکی تھی۔ ناروا سلوک کی وجہ سے نفرت اور انتقام کے لاوے کا پھوڑا مسلمانوں کے دلوں میں پھٹنے کی حد تک پک چکا تھا۔ عدم ادائے مالیہ کی تحریک نے ان کو مہاجنوں اور ساہو کاروں کی خلاف صف آرا کردیا تھا۔ چودھری غلام عباس کے بقول اس دوران میر پور اور راجوری پر جو ستم ڈھالے گئے، ان کی یاد سے بدن کا رواں رواں تڑپ اٹھتا ہے۔ ‘تمام علاقہ میں ڈوگرہ فوج پھیل گئی تھی، اور سینکڑوں افراد کو موت کے گھاٹ اتارا گیا تھا۔ بے بسی کا عالم کی سینکڑوں لاشوں کو جلایا گیا، تاکہ بیرونی دنیا کو شہدا کی تعداد کا علم نہ ہو۔ اس دوران سرینگر میں امن ہو گیا تھا۔ شیخ محمد عبداللہ نے حکومت کہ یہ یقین دلانے پر کہ ان کا میر پور کی تحریک سے کوئی تعلق نہیں ہے، ان کو جیل سے رہا کر دیا گیا۔ انہوں نے تار کے ذریعے اس تحریک سے لاتعلقی کا اظہار کر دیا تھا۔ جس کی وجہ سے حکومت کا رویہ میر پور کے خلاف اور بھی سخت ہوگیا۔’ شیخ محمد عبداللہ نے اپنی سوانح حیات آتش چنار کا انتساب ہی 13جولائی کے ایک شہید کے نام کیا ہے اور لکھا ہے کہ ؛
اس جان بلب سرفروش کے نام جس نے شہادت سے پہلے آخری ہچکی لیتے ہوئے راقم سے کہا تھا۔۔’شیخ صاحب ہم اپنا فرض ادا کرچکے۔آگے آپ کی ذمہ داری ہے۔قوم سے کہئے کہ اپنا فرض نہ بھولے‘۔
یہ بھی پڑھیں: تیرہ جولائی: پیرس کے باسطل سے سرینگر کی سینٹرل جیل تک
اس کے خلاف کئی اجتماعات ہو ہی رہے تھے کہ جموں کی پولیس لائن میں کانسٹبل لبھو رام نے ایک دوسرے مسلمان کانسٹبل کے سامان سے قران پاک چھین کر اس کی بے حرمتی کی۔ اس کے ساتھ جموں سے 15میل دور ڈگھور میں مسلمانوں کو نماز جمعہ پڑھنے سے روک دیا گیا۔ ابھی تک کشمیر میں کوئی منظم تنظیم قائم نہیں ہوئی تھی۔ مگر ان واقعات پر احتجاج درج کرنے کے لیے انہوں نے کئی نوجوانوں کے ساتھ پوسٹر چسپاں کرنے کا پروگرام بنایا۔ پوسٹر چسپاں کرتے ہوئے پولیس نے محمداسماعیل نامی ایک شخص کو گرفتار کیا اور جب اس کو تھانے لے جایا جارہا تھا تو ایک جم غفیر اس کے پیچھے چل دیا۔ بھیڑ کو دیکھ کر تھانے دار نے اسماعیل کو تو چھوڑ دیا، مگر ہجوم اس کو جلوس کی صورت میں سرینگر کی جامع مسجد لے گیا، جہاں 15ہزار افراد کے ہجوم کے سامنے شیخ عبداللہ نے پہلی عوامی تقریر کی۔ لحن داؤدی میں قران کی تلاوت اور یہ شعر؛
آہ جاتی ہے فلک پر رحم لانے کے لیے بادلوہٹ جاؤ، دے دو راہ جانے کے لیےپڑھ کر ہجوم پر رقت طاری کروائی۔ ان حالات کے پیش نظر مہارجہ ہری سنگھ نے سیاسی مشیر ای سی ویکفیلڈکے مشورہ پر ریاستی مسلمانوں کا ایک نمائندہ وفد طلب کیا، جو اپنی شکایات اور مطالبات پیش کرے۔ جموں سے مستری یعقوب علی، سردار گوہر رحمان، چودھری غلام عباس اور شیخ عبدالحمید کو نامزد کیا گیا۔ کشمیر سے نمائندوں کو طے کرنے کے لیے سرینگر میں خانقاہ معلی کے صحن میں ایک جلسہ منعقد کیا گیا۔ اس اجتماع کو کشمیر کی تحریک آزادی کا رسمی افتتاح اور اصل آغاز بھی سمجھا جاتا ہے۔ 600سال قبل میر سید علی ہمدانی نے اس خطے میں اسی جگہ نہ صرف اسلام کے نور کی مشعل فروزاں کی تھی، بلکہ وہ اپنے ساتھ صنعت و حرفت، تمدن کی درس گاہ بھی ساتھ لائے تھے۔ اس جلسہ میں سات افراد میر واعظ یوسف شاہ، میر واعظ احمداللہ ہمدانی، آغا سید حسن جلالی، خواجہ غلام احمد عشائی، منشی شہاب الدین، خواجہ سعدالدین شال اور شیخ محمد عبداللہ کو اتفاق رائے سے نمائندگی کے لیے منتخب کیا گیا۔ یہ گروپ میمورنڈم و مطالبات کو تحریری شکل دینے کے لیے پاس کے ہمدانیہ مڈل اسکول میں چلا گیا۔ تقریباً ایک لاکھ افراد ابھی بھی خانقاہ کے صحن میں جمع تھے کہ ایک غیر ریاستی پٹھان عبدالقدیر اسٹیج پر وارد ہوگیا۔ یہ شخص پشاور میں یورک شائر رجیمنٹ کے ایک انگریز میجر کے ساتھ خانساماں کے طور پر کشمیر آیا تھا۔چونکہ وہ نسیم باغ میں ایک ہاؤس بوٹ میں ٹھہرا تھا، اس لیے درگاہ حضرت بل میں وہ نماز ادا کرنے آتا تھا اوروہاں کئی بار اس نے شیخ عبداللہ سے ملاقات کرکے کشمیر ی مسلمانوں کی زبوں حالی پر تاسف کا اظہار کیا۔ بقول شیخ عبداللہ، جب وہ دیگر نمائندگان کے ساتھ چائے نوش کر رہے تھے، تو دریائے جہلم کے کنارے خانقاہ کے صحن سے زور و شور سے نعرے بلند ہو رہے تھے۔ معلوم ہوا کہ عبدالقدیر سٹیج سے تقریر کررہا ہے۔ پولیس کے خفیہ محکمہ سی آئی ڈی نے اس کی تقریر کچھ یوں ریکارڈ کی ہے۔
مسلمانو اب وقت آگیا ہے، کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے۔ یاداشتوں اور گذارشوں سے ظلم و ستم میں کوئی فرق آئےگانہ توہین قرآن کا مسئلہ حل ہوگا۔ تم اپنے پیروں پر کھڑے ہوجاؤ اور ظلم کے خلاف لڑو۔ راج محل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے عبدالقدیر نے بتایا کہ اس کی اینٹ سے اینٹ بجادو۔اسی رات عبدالقدیر کو بغاوت کے جرم میں گرفتار کرکے سرینگر سینٹرل جیل میں قید کر دیا گیا۔ عوامی غیض و غضب کو دیکھ کر ڈوگرہ حکمرانوں نے جیل کے احاطہ کے اندر ہی عدالتی کاروائی13جولائی کو مقرر کی۔ کسی کال کے بغیر ہی ہزاروں لوگ اس دن سینٹرل جیل کے باہر احاطہ میں صبح سویرے سے ہی جمع ہوگئے۔ جب ہجوم نماز ظہر کی تیاری کر رہا تھا کہ گورنر رائے زادہ تلوک چند سپاہیوں کی ایک پلٹن کے ساتھ نمودار ہو اورگولی چلانے کا حکم دیا۔ بندوقوں کے دہانے ان لوگوں کی طرف کردیے گئے، جو باغ میں نماز ادا کرنے کے لیے صف بستہ تھے۔
یہ بھی پڑھیں: چند نام نہاد دانشور 13 جولائی 1931 کے واقعات کو فرقہ وارانہ رنگ میں پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں
ایک شخص دیوار کی بلندی سے اذان دے رہا تھا کہ پولیس کی گولی سے ڈھیر ہوگیا۔ شیخ عبداللہ کے مطابق جو ش جنوں کا یہ عالم تھا کہ اس کی جگہ دوسرے آدمی نے لی اور اذان وہاں سے جاری رکھی، جہاں سے پہلا شخص گولی لگنے سے شہید ہو گیا تھا۔ اس کو بھی گولی سے بھون دیا گیا۔ اس طرح 22افراد جام شہادت نوش کر گئے۔ زخمیوں کی تعداد تو سینکڑوں میں تھی۔ شہید کے ایک لہو سے تر کرتے کو پرچم بنا کر ہجوم جامع مسجد کی طرف روانہ ہوگیا۔ نیشنل کانفرنس نے بعد میں اس رنگ کو اپنے پرچم کے طور پر منتخب کیا۔ بقول چودھری غلام عباس؛
یاس و قنوط و مجبوری اور انحطاط قومی جب آخری حد تک پہنچ جاتے ہیں اور عوام میں شکست خوردگی اور یاس پرستی کی ذہنیت پیدا ہو جاتی ہے اس وقت دو قسم کے رد عمل پیدا ہو جاتے ہیں۔ ایک یہ کہ ایسی قوموں پر بدحالی مستقلاً مسلط ہو جاتی ہے، ان کے دلوں پر مہر لگ جاتی ہے۔ ان کے کان بہرے، ان کی زبانیں گنگ اور ان کے قوی شل ہو جاتے ہیں اور آخر کار وہ غلامی ور محکومی پر قانع ہو جاتے ہیں۔ ایسی قوموں کا مرنا، جینا ان کے اختیار کی بات نہیں رہتی۔ وہ مرنا چاہیں، تو مر نہیں سکتیں، جینا چاہیں، تو جی نہیں سکتیں۔ ان کے لیے جینا بھی ذلت اور مرنا بھی حرام ہوتا ہے۔ لیکن بسا اوقات ایسا بھی رد عمل ہوجاتا ہے کہ قومیں اپنی حالت زوال و انحطاط اور کیفیت بے چارگی و عاجزی کے طلسم کر توڑنے پر آمادہ ہو جاتی ہیں اور جب ان کے دلوں میں یہ خواہش پیدا ہو جاتی ہے تو وہ زندہ رہنے کے لیےجدوجہد کرتی ہیں یا اسی جدوجہد میں فنا ہو جاتی ہیں۔ان شہدا کی سرخ روئی کا اس سے اور کیا بڑ ا ثبوت ہو سکتا ہے کہ ویکفیلڈ نے اعتراف کیا کہ سبھی شہیدوں کے سینوں پر گولیوں کے نشانات تھے۔ شہیدوں کو زیارت گاہ خواجہ نقشبند صاحب کے احاطہ میں،جو مزار شہداء سے موسوم ہے میں، دفنایا دیاگیا۔ سال 2019سے سرکاری طور پر ان شہدا کو نظر انداز کرکے یہ ثابت کر دیا گیا کہ عوام ابھی بھی حقیقی آزادی سے محروم ہیں۔ وہ ابھی اپنے خوا بوں اور خواہشوں کے مطابق نظام حیات تعمیر نہیں کرسکے جس کے لیے بے انتہا قربانیاں دی گئیں۔