کشمیری صحافی کا الزام – مظاہرہ کر رہے ڈاکٹروں نے کی بدسلوکی، میڈیا اداروں سے مداخلت کی اپیل

سری نگر کے ایک اسپتال کے باہر مظاہرہ کر رہے ڈاکٹروں نے کشمیر کی ایک خاتون صحافی اور چار دیگر صحافیوں کے ساتھ مبینہ طور پر بدسلوکی کی تھی۔ اس کے بعد متاثرہ صحافی صوفی ہدایت نے پی سی آئی، ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا سے جموں و کشمیر حکومت کے سامنے اس معاملے کو اٹھانے اور ملزم ڈاکٹروں کے خلاف کارروائی کرنے کی اپیل کی ہے۔

سری نگر کے ایک اسپتال کے باہر مظاہرہ کر رہے ڈاکٹروں نے کشمیر کی ایک خاتون صحافی اور چار دیگر صحافیوں کے ساتھ مبینہ طور پر بدسلوکی کی تھی۔ اس کے بعد متاثرہ صحافی صوفی ہدایت نے پی سی آئی، ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا سے جموں و کشمیر حکومت کے سامنے اس معاملے کو اٹھانے اور ملزم ڈاکٹروں کے خلاف کارروائی کرنے کی اپیل کی ہے۔

سری نگر کے ایس ایم ایچ ایس اسپتال میں  ڈاکٹروں کے درمیان صوفی ہدایت۔  (تصویر: سوشل میڈیا ویڈیو کا اسکرین شاٹ)

سری نگر: کشمیر کی ایک خاتون صحافی نے جمعرات (24 جولائی) کو پریس کونسل آف انڈیا (پی سی آئی) سمیت دیگرمیڈیا گروپ سے رابطہ کیا۔ اس سےایک دن پہلے سری نگر کے ایک اسپتال کے باہر مظاہرہ کر رہےڈاکٹروں نے مبینہ طور پر ان کے ساتھ اور کم از کم چار دیگر صحافیوں کے ساتھ بدسلوکی کی تھی۔

اس واقعے کو میڈیا کے حقوق کی خلاف ورزی اور کشمیر میں صحافیوں کے وقار اور تحفظ کی ‘براہ راست توہین’ قرار دیتے ہوئے سری نگر میں واقع ایک مقامی نیوز پورٹل کے ساتھ کام کرنے والی صحافی صوفی ہدایت نے پی سی آئی، ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا اور نیٹ ورک آف ویمن ان میڈیا سے جموں و کشمیر حکومت کے سامنے اس معاملے کو اٹھانے اور ملزم ڈاکٹر کے خلاف تادیبی کارروائی کرنے کی اپیل کی ہے۔

اپنے خط میں انہوں نے لکھا،’ڈیوٹی پر ایک صحافی کے طور پر اپنی شناخت بتانےکے باوجود، میرے ساتھ معاندانہ اور جارحانہ سلوک کیا گیا، پریس کی آزادی یا میرے تحفظ کا کوئی خیال نہیں رکھا گیا۔ اس سے بھی زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ یہ حملہ صنفی اور ٹارگٹیڈ لگ رہاتھا۔ نہ صرف میرے کام میں رکاوٹ  پیدا کی گئی گیا بلکہ سب کے سامنے میری توہین کی گئی اور مجھے دھمکایا بھی گیا۔’

کشمیر کے ایک سرکاری کالج سے ڈیجیٹل میڈیا کا کورس کر ری ہدایت نے پریس تنظیموں سے میڈیا اہلکاروں سے، خصوصی طور پر خواتین پر ایسے حملوں کی مذمت کرنے اور ایک آزادانہ تحقیقات کا حکم دینے کی گزارش کی۔

انہوں نے صحافیوں کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے – خاص طور پر ہائی اسٹیک کوریج کے دوران – اداروں کووسیع پیمانے پر توجہ مبذول کرانے کی اپیل کی۔

اپنے خط میں انہوں نے لکھا، ‘پریس ڈراور دھمکی کے سایے میں کام نہیں کر سکتا۔ میں کونسل سے درخواست کرتی ہوں کہ وہ اس معاملے کو پوری سنجیدگی کے ساتھ لے اور اس بات کو یقینی بنانے میں مدد کرے کہ کوئی بھی صحافی خواہ وہ مرد ہو یا عورت، اپنے فرض کو انجام دیتے ہوئے اس طرح کے ناروا سلوک کا سامنا نہ کرے۔’

خط میں جن دیگر صحافیوں کا ذکر کیا گیا ہے ان کی شناخت فردوس قادری، منظور ڈار، جاوید پٹھان، رضوان حمید اور عارف کے طور پر کی گئی ہے، یہ سبھی مقامی اخبارات اور ڈیجیٹل میڈیا آؤٹ لیٹس کے ساتھ کام کرتے ہیں۔

یہ واقعہ بدھ کو سری نگر کے شری مہاراجہ ہری سنگھ (ایس ایم ایچ ایس) اسپتال کے باہر پیش آیا، جہاں ڈاکٹروں کے ایک گروپ نے ایک مریض کے اٹینڈنٹ(تیماردار) کے ذریعہ اپنے ایک ساتھی پر حملے کے خلاف احتجاج کیا تھا۔ مذکورہ مریض کی گزشتہ رات اسپتال میں طبی غفلت کے الزامات کے درمیان موت ہوگئی تھی۔

حملہ سی سی ٹی وی کیمرے میں قید ہو گیا۔ فوٹیج میں، ملزم، عابد حسین بھٹ، جو سری نگر کا رہائشی ہے، مریضوں اور ان کے تیمارداروں سے بھرے ہسپتال کے وارڈ میں تیزی سے داخل ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔

اس میں بھٹ، متوفی مریض کا رشتہ دار، سیدھے ایس ایم ایچ ایس ہسپتال کے ایک ریزیڈنٹ ڈاکٹر ڈاکٹر شاہنواز کے پاس جاتا ہوا نظر آتا ہے، جو اتر پردیش سے تعلق رکھتے ہیں اور مبینہ طور پر جسمانی طور پر معذور ہیں۔ وہ ان کے بائیں گال پر زور سے تھپڑ مارتا ہے، جس سے ڈاکٹر زمین پر گر جاتے ہیں۔

بھٹ نے الزام لگایا کہ ڈاکٹر نے ان کے بہنوئی کا علاج اس مستعدی سےنہیں کیا جس مستعدی کی اس طرح کے معاملات میں ڈاکٹروں سے توقع کی جاتی ہے۔

بھٹ نے کہا، ‘میں نے ان سے دو تین بار دیکھنے کی درخواست کی۔ تاہم، انہوں نے صرف کچھ دوائیں لکھیں اور مجھے لانے کو کہا۔ میرے بہنوئی آکسیجن کے لیے درخواست کر رہے تھے کیونکہ وہ گھٹن محسوس کر رہے تھے، لیکن ڈاکٹر نے پرواہ نہیں کی۔ جب میں واپس آیا تو ان کی موت ہو چکی تھی۔

بدھ کے روز گورنمنٹ میڈیکل کالج (جی ایم سی) سری نگر اور اس سے منسلک اسپتالوں کے ایس ایچ ایم ایس ڈاکٹروں، ٹرینی اور دیگر عملے کے ایک گروپ نے بھٹ کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے اسپتال کے احاطے کے باہر احتجاج کیا۔

دی وائر سے بات کرتے ہوئے ہدایت نے کہا کہ وہ احتجاج کی کوریج کر رہی تھیں اور اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں نبھا رہی تھیں، اسی دوران احتجاج کرنے والے ڈاکٹروں کے ایک گروپ نے انہیں اسپتال کے باہر گھیر لیا اور انہیں وہاں سے جانے کو کہا۔

نئے قوانین کے تحت کام کی جگہ پر تعینات صحافیوں کے لیے طبی سہولیات تک رسائی محدود کردی گئی ہے تاہم یہ احتجاج ایس ایم ایچ ایس اسپتال کے لان میں ہورہا تھا۔

انہوں نے کہا، ‘میں نے انہیں بتایا کہ میں صرف اپنی ذمہ داری نبھا رہی ہوں، لیکن انہوں نے میرے کپڑے کھینچنے کی کوشش کی اور مجھے وہاں سے جانے پر مجبور کیا۔ ان میں سے ایک نے چیخ کر کہا کہ میڈیا کو یہاں سے چلا جانا چاہیے۔ انہوں نے ہمیں غیر پیشہ ور کہا اور مریضوں کو ہم سے بات کرنے سے بھی روکا۔’

ہدایت نے کہا کہ واقعے کے وقت ان کے پیچھے کھڑے ڈاکٹروں نے انہیں دھکا بھی دیا، جو کیمرے میں ریکارڈ نہیں ہوا۔

انہوں نے کہا، ‘انہوں نے میرے ساتھ مار پیٹ کی، مجھے گالیاں دیں اور مجھے ہراساں کیا۔ اس واقعے نے مجھے ہلا کر رکھ دیا ہے۔’

سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں گورنمنٹ میڈیکل کالج (جی ایم سی) سری نگر نے کہا کہ سری نگر پولیس نے بدھ کو ایک ایف آئی آر (نمبر 11/2025) درج کی ہے۔

پوسٹ میں کہا گیا، ‘پولیس معاملے کی جانچ کر رہی ہے۔ مزید کارروائی کی جائے گی۔ جی ایم سی اور دیگر اسپتال مریضوں کی دیکھ بھال کے لیے وقف پبلک پراپرٹی ہیں اور ہسپتالوں میں کام کرنے والا ہیلتھ عملہ مریضوں کی دیکھ بھال کے لیے انتھک محنت کرتا ہے۔ ہم مریضوں اور اٹینڈنٹ سے صحت کے عملے کے ساتھ تعاون کرنے کی اپیل کرتے ہیں۔’

ڈاکٹروں کی جانب سے بدتمیزی کے الزامات ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب کشمیر کے سرکاری اسپتالوں میں مبینہ طبی لاپرواہی کی وجہ سے رواں ماہ کم از کم تین مریضوں کی موت ہوچکی ہے۔

پلواما سے پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے ایم ایل اے وحید پارا، جہاں تین میں سے دو اموات ہوئیں، نے ان اموات کے لیے حکومت کی ‘بدانتظامی’ اور ڈاکٹروں کی’غفلت’ کو ذمہ دار ٹھہرایا۔

انہوں نے ایکس پر پوسٹ کیا، ‘ایک ہفتے کے اندر بدانتظامی اورڈاکٹروں کی لاپرواہی کی وجہ سے پلواما اسپتال میں دوسری موت ہوگئی ہے۔ یہ اسپتال جو کبھی جدید ترین سہولیات کا حامل تھا، اب غفلت، ناقص مشینری اور حکومت کی بے حسی کا شکار ہے۔’

مرکز کے زیر انتظام انتظامیہ اور وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کی قیادت والی حکومت نے ان الزامات کا باضابطہ طور پر کوئی جواب نہیں دیا ہے۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔)