لشکر طیبہ کے مبینہ بلاگ پر شائع ہونے والا ایک دھمکی آمیز خط، جس کے اسکرین شاٹ سوشل میڈیا پر شیئر کیے گئے ہیں،اورجس میں 21 مالکان، مدیران اور صحافیوں کا نام لیا گیا ہے، ان میں سے زیادہ تر سری نگر کے تین میڈیا ہاؤس سے وابستہ ہیں۔
نئی دہلی: اطلاعات کے مطابق،کالعدم تنظیم لشکر طیبہ کی جانب سے مبینہ طور پر ملی دھمکیوں کی وجہ سے کشمیر میں رہنے والے پانچ صحافیوں کواپنی نوکریوں سے استعفیٰ دینا پڑا ہے۔
دی ٹیلی گراف کے مطابق، یہ دھمکیاں مبینہ طور پر لشکر طیبہ اور اس کی فرنٹل تنظیم دی ریسسٹنس فرنٹ(ٹی آر ایف ) کے ذریعے چلائے جانے والے بلاگ پر پوسٹ کی گئی تھیں۔
پولیس نے معاملے کی تفتیش شروع کر دی ہے۔ سری نگر پولیس نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ تنظیموں کی طرف سے کشمیر کے نامہ نگاروں اور صحافیوں کو براہ راست ‘دھمکی آمیز خط’ بھیجا گیا تھا۔
Case registered against handlers, active terrorists & OGWs of terror outfit LeT & its offshoot TRF for online publication & dissemination of a direct threat letter to Journalists & reporters based in Kashmir. FIR No. 82/2022 U/S 13 UAPA, 505, 153B, 124A & 506 IPC in shergari PS.
— Srinagar Police (@SrinagarPolice) November 12, 2022
پولیس نے تعزیرات ہند کی دفعہ 505، 153بی، 124اے اور 506 کے ساتھ یو اے پی اے کی دفعہ 13 کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔
ایک اہلکار نے این ڈی ٹی وی کو بتایا،ہم نے ٹی آر ایف کے لیے زمین پر کام کرنے والے کارکن ہونے کے شبہ میں کئی افراد کو گرفتار کیا ہے ۔ ان حراستوں کا تعلق میڈیا اداروں کو ملی دھمکیوں سے نہیں ہے۔
ٹیلی گراف نے اطلاع دی ہے کہ جموں و کشمیر میں بلاگ تک رسائی حاصل نہیں کی جا سکتی ہے، لیکن ویب سائٹ پر شائع ہونے والے مبینہ خط کے اسکرین شاٹ سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر شیئر کیے گئے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق، اس میں 21 مالکان، مدیران اور صحافیوں، بنیادی طور پر سری نگر کے تین میڈیا ہاؤس – اخبار گریٹر کشمیر، رائزنگ کشمیر اور نیوز پورٹل اور سوشل میڈیا ٹی وی چینل ایشین نیوز نیٹ ورک کا ذکر کیا گیا۔ ان تینوں کو صحافت کےمیدان میں آزاد میڈیا ہاؤس کا سرخیل سمجھا جاتا ہے۔
اس مبینہ خط میں وارننگ دی گئی تھی کہ ‘ان کا وقت آگیا ہے’۔اس کے ساتھ ہی خط میں مزید 76 لوگوں کی شناخت کا بھی دعویٰ کیا گیا تھا۔
مستعفی ہونے والے صحافیوں میں رائزنگ کشمیر کے تین صحافی جہانگیر صوفی، اشتیاق جو اور شہریار بخاری شامل ہیں۔ جہانگیر دی وائر کے لیے بھی لکھتے رہے ہیں۔
I announce my resignation from Reporter's position and disassociation from Media House Rising Kashmir W.E.F from today 14 Nov 2022. pic.twitter.com/uOzc8R6yvC
— Jahangir Sofi (@JahangirSofi4) November 14, 2022
رائزنگ کشمیر کا آغاز سینئر صحافی شجاعت بخاری نے کیا تھا، جنہیں 2018 میں ان کے دفتر کے باہر حملہ آوروں نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
کشمیر میں صحافی اکثر پریشان کن حالات میں کام کرتے رہے ہیں ،جہاں انہیں شورش اور دہشت گردی کے خطرات سے نبردآزما ہونا پڑتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے کسی حکومت کی طرف سے اب تک کی سب سے طویل انٹرنیٹ شٹ ڈاؤن کا سامنا کیا ہے، اور اپنی رپورٹنگ کے خلاف وحشیانہ حکومتی کارروائیوں کا بھی سامنا کیا ہے۔