ایک مقامی سماجی کارکن کی شکایت پر کرناٹک کے شاہین اسکول اور اس کی انتظامیہ کے خلاف معاملہ درج کیا گیا ہے۔ اسکول انتظامیہ نے پولیس پر طلبا، ان کے گارجین اور استاتذہ کے استحصال کاالزام لگایا ہے۔
علامتی تصویر، فوٹو: پی ٹی آئی
نئی دہلی: بی جے پی مقتدرہ ریاست کرناٹک میں شہریت قانون (سی اےاے)اوراین آر سی کے خلاف طلبا کے ڈراما کرنے پر پولیس نےمبینہ طور پر اسکول کو سیل کر دیا ہے۔ معاملہ ریاست کے بیدر ضلع کا ہے۔پولیس نے اسکول انتظامیہ کے خلاف کیس درج کر لیا ہے اور معاملے کی جانچ کی جا رہی ہے۔رپورٹ کے مطابق ریاستی پولیس نے اسکول انتظامیہ کے خلاف سیڈیشن کا کیس درج کیا ہے۔اس کے علاوہ محمد یوسف رحیم پر اس ناٹک کا ویڈیو سوشل میڈیاپر شیئر کرنے کے لیے کیس درج کیا گیا ہے۔
اسکول کا نام شاہین ایجو کیشنل انسٹی ٹیوٹ ہے۔ آئی پی سی کی دفعہ124اے،504، 505(2)،15اے اور 34 کے تحت معاملہ درج کیا گیا ہے۔ ایف آئی آر اسکول کے ہیڈ اور انتظامیہ کے خلاف درج کی گئی ہے۔معاملے کو لے کر شکایت کرنے والے سماجی کارکن نیلیش نے اپنی شکایت میں کہا ہے کہ ڈرامے میں نابالغ بچوں کو شامل کیا گیا اور اس سے وزیر اعظم نریندر مودی کی‘امیج خراب’ کرنے کی کوشش کی گئی۔ شکایت گزار نے کہا ہے کہ ڈراماکے ذریعے یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی کہ سی اے اے اور این آرسی سے ملک کے مسلمانوں کو باہر کا راستہ دکھایا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر شیئر کیا گیا ویڈیو سماج میں غلط پیغام دے رہا ہے۔ ویڈیو کے ذریعے سرکار کی پالیسیوں اور سرکار کے خلاف ماحول بنایا جا رہا ہے۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق،رکشیال نے سوشل میڈیا پر یہ ویڈیو دیکھا تھا، جس میں بچے مبینہ طور پر ملک مخالف ڈراما پیش کر رہے تھے اور اس کے ایک سین میں سی اے اےکی مخالفت میں وزیر اعظم کی تصویر کو پیٹتے دکھایا گیا ہے۔شکایت میں کہا گیا کہ 21 جنوری کو بیدر کے ایک صحافی محمد یوسف رحیم کے فیس بک اکاؤنٹ سے اس ویڈیو کو پوسٹ کیا گیا۔بیدر کے ایس پی ایل شریدھرا نے کہا، ‘ہم نے ایک معاملہ درج کیا ہے اور اس کی جانچ جاری ہے۔ اسکول میں ایک ناٹک پیش کیا گیا، جس میں سی اے اےکے بارے میں غلط جانکاری دی گئی اور دکھایا گیا کہ اس سے مسلمانوں کو ملک چھوڑکر جانا پڑےگا۔ آئینی انتظامیہ کے لیے غیر مہذب زبان کا استعمال کیا گیا۔ کچھ لوگوں نے فیس بک پر اس کی لائیو اسٹریمنگ کی۔
وہیں، اسکول کے ایک ذمہ دارنے کہا، ‘چوتھی درجےکے طلبا نے ایک ناٹک پیش کیا تھا، جس میں ملک کی موجودہ صورت حال کودکھایا گیا تھا۔ اس صورت حال کو جہاں لوگ روزانہ احتجاج کر رہے ہیں۔ اس ڈرامے میں کچھ لفظوں کا استعمال کیا گیا، جس کو لے کر سیڈیشن کا معاملہ درج کیا گیا۔گزشتہ تین دنوں سے پولیس اس ناٹک کو لےکر بچوں سے پوچھ تاچھ کر رہی ہے۔ یہ طلبا، ان کے والدین اوراساتذہ کے لیے ایک ذہنی استحصال ہی ہے۔’
کچھ مقامی میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ آر ایس ایس کی طلبا تنظیم اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشدنے اسکول کے خلاف مظاہرہ کی بات کہی ہے اور وزیر داخلہ کو ایک میمورنڈم سونپا ہے۔وہیں شاہین ایجو کیشن انسٹی ٹیوٹ کے سی ای او توصیف نے پولیس پر بچوں اور اسکول انتظامیہ کوذہنی اور نفسیاتی طورپر پریشان کرنے کاالزام لگایا ہے۔ توصیف نے کہا کہ، کئی پولیس حکام کئی دنوں سے اسکول آ رہے تھے۔ وہ طلبا اور اسکول انتظامیہ کو نفسیاتی طورپر پریشان کر رہے تھے۔
توصیف نے کہا، پولیس نے اسکول کا کنٹرول روم سیل کر دیا ہے۔ کلاس چار اور پانچ کے بچوں سے پوچھ تاچھ کی جا رہی ہے۔ پانچ چھ بچوں نے ناٹک کا اہتما کیا تھا، جس میں انہوں نے وزیر اعظم مودی پر چٹکی لی تھی۔ کسی نے اس ناٹک کا ویڈیو بناکر سوشل میڈیا پر پوسٹ کر دیا۔ اب ہم پر فرقہ وارانہ تشدد اورنفرت پھیلانے کاالزام لگایا جا رہا ہے۔شاہین اسکول کے انتظامیہ پرآئی پی سی کی دفعہ 124(اے)اور153(اے) کے تحت مختلف کمیونٹی کے بیچ عداوت کو بڑھاوا دینے کے لیے بھی معاملہ درج کیا گیا ہے۔ پولیس نے کہا کہ سماجی کارکن نیلیش رکشیال کی شکایت پر 26 جنوری کو معاملہ درج کیا گیا۔ شکایت گزار نے الزام لگایا کہ اسکول نے 21 جنوری کو ناٹک کیا تھا،جس میں طلبا کا استعمال کیااورانہوں نے شہریت قانون اور این آر سی کو لےکر مودی کے لیے غیر مہذب زبان کا استعمال کیا۔
رکشیال نے کہا کہ انتظامیہ نے مسلمانوں کے بیچ خوف پیدا کرنے کی کوشش کی ہے کہ اگر سی اے اےاور این ٓرسی کونافذ کیا جاتا ہے تو انہیں ملک چھوڑنا ہوگا۔ پولیس نے کہا کہ ابھی تک کسی کو گرفتار نہیں کیا گیا ہے۔ناٹک کے بارے میں بتایا گیا کہ ،اس ناٹک میں ایک بچی اپنی بات رکھتے ہوئے پی ایم نریندر مودی کے خلاف غیر مہذب زبان کا استعمال کرتی ہوئی نظر آئی۔معلوم ہو کہ یہ اسکول شاہین گروپ آف انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام چلتا ہے، جو بیدر کا ایک اہم مسلم ایجوکیشنل گروپ ہے۔ ملک بھر میں اس کے تحت اسکول چلتے ہے۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)