کرناٹک کےشیوموگامیں ‘کوٹے مری کمبا جاترا’ کی آرگنائزنگ کمیٹی نے بی جے پی، بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد کے دباؤ میں دکانیں الاٹ کرنے کے لیے ایک ہندوتوا گروپ کو ٹھیکہ دیا ہے ۔ اس سے پہلے دکانیں مسلمانوں کو بھی دی جاتی تھیں، لیکن ہندوتوا تنظیموں نے اس کے خلاف مورچہ کھول دیا تھا۔
نئی دہلی: ہندوتوا تنظیموں کے دباؤ میں کرناٹک میں ایک تاریخی تہوار کے منتظمین نے میلے کے دوران مسلمان دکانداروں کےیہاں کاروبار کرنے پر پابندی لگا دی ہے۔ یہ پانچ روزہ میلہ 22 مارچ سے شروع ہو رہا ہے۔
دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق، شیو موگا میں ‘کوٹے مری کمبا جاترا’ کی آرگنائزنگ کمیٹی نے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)، بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد کے مطالبات کے سامنےگھٹنے ٹیک دیے ہیں۔ ان تنظیموں نے مطالبہ کیا تھاکہ تہوار کے دوران کسی بھی مسلمان کو کاروبار کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔
اس کی وجہ سے میلے کی آرگنائزنگ کمیٹی نے ایک ہندوتوا گروپ کو ٹینڈر جاری کیا۔
‘کوٹے مری کمبا جاترا’ دو سال میں ایک بار ہوتا ہے، جس میں پڑوسی شہروں اور اضلاع سے لاکھوں لوگ شرکت کرتے ہیں۔ آخری بار اس کا اہتمام فروری 2020 میں کیا گیا تھا۔ اس میں ہر ذات اور کمیونٹی کے لوگ حصہ لیتے ہیں۔ مقامی باشندوں کے مطابق،یہاں مسلمان اور عیسائی بھی اپنی منتوں کو پورا کرانے کے لیے دیوی کے سامنے عبادت کرتے ہیں۔
کمیٹی نے دکانوں کے انتظام اور تمام دکانداروں سے فیس کی وصولی کاٹینڈرچکنہ نامی شخص کوجاری کیا تھا۔ اس نے 9.1 لاکھ روپے جمع کرائے تھے۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی اس نے مسلمان تاجروں کو دکانیں الاٹ کی تھیں، لیکن، جب وہ 17 مارچ کی رات اپنے اپنے اسٹال پر پہنچے تو کچھ ہندو کارکنوں نے ان سے جھگڑا کیا اور ان سے کہا کہ جاترے (میلے) میں دکانیں نہ لگائیں۔
اس پیش رفت سے پریشان ہو کر چکنہ نے اپنا ٹینڈر رد کرکے کمیٹی سے اپنا پیسہ لوٹانے کا مطالبہ کیا۔
قابل ذکر ہے کہ19 مارچ کو کمیٹی نے ہندو تنظیموں کے ساتھ ایک میٹنگ کی، جس میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ ہندو گروپوں کو ٹینڈر دیے جائیں گے تاکہ وہ اپنے طور پر دکانیں الاٹ کر سکیں۔
کمیٹی کے چیئرمین ایس کے مریپا نے دی ہندو کو بتایا کہ کمیٹی نے گزشتہ برسوں میں کبھی کسی خاص مذہب کے خلاف کوئی موقف اختیارنہیں کیا۔ لیکن کچھ لوگوں نے سوشل میڈیا پر مسلمان دکانداروں کے خلاف مہم شروع کی۔ میلہ شروع ہونے میں صرف تین دن باقی ہیں۔ ہم نے تہوار پرامن طریقے سے منعقد کرانے کے لیے ان کے مطالبات کو مان لیا ہے۔
دی ہندو کے مطابق، ایسا ہی فیصلہ ریاست کے اڈوپی ضلع کے کوپ کے ہوسا ماری گوڈی مندر نے بھی کیا تھا۔ کمیٹی نے سالانہ سگی ماری پوجا کے دوران صرف ہندوؤں کو دکان لگانے کی اجازت دی تھی۔
ہندوتوا لیڈروں نے شیوموگا میں ہندوتوا کارکن ہرش کے حالیہ قتل کا حوالہ دیتے ہوئے اپنی دلیل کا دفاع کیا ہے۔
اس سلسلے میں شیوموگا سٹی کارپوریشن کے بی جے پی لیڈر چنابسپا کہتے ہیں،ان تمام سالوں میں ہم نے مسلمانوں کے دکان لگانے کی کبھی مخالفت نہیں کی۔ لیکن حالیہ دنوں میں ان کے طرز عمل نے ہمیں اس کے لیے مجبور کر دیا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ،جب وہ ہمارے کارکن کے قتل کی مذمت نہیں کرتے تو وہ ہمارے تہواروں میں کیوں شرکت کریں؟
صحافی اورآرگنائزنگ کمیٹی کے رکن این روی کمار نے کہا، ذاتی طور پر میں کمیٹی کے فیصلے کے خلاف ہوں۔ اس تہوار میں تمام مذاہب کے لوگوں کی شرکت کی ایک لمبی تاریخ ہے۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ تہوار کے دوران بہت سے مسلمان بھی دیوی کی پوجا کرنے آتے ہیں۔ یہ پیش رفت تقریب سے وابستہ ہم آہنگی کی روایت کے خلاف ہے۔
بہرحال، دی وائر نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا تھاکہ کیسےشہر کے مسلم اکثریتی علاقوں میں ہندو کارکنوں کی طرف سے ایک ہندو کارکن کے قتل کے خلاف مظاہرے کا خمیازہ بھگتنا پڑا، یہاں تک کہ پولیس نے خود تسلیم کیا تھاکہ اس قتل میں کوئی فرقہ وارانہ زاویہ نہیں تھا۔