کرناٹک میں حجاب اور ‘حلال گوشت’ مخالف مہم کے بعد بجرنگ دل اور شری رام سینا کی قیادت میں دائیں بازو کی تنظیموں نے اب مساجد میں لاؤڈ اسپیکر پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ شری رام سینا کے کنوینر پرمود متالک نے ایک ویڈیو پیغام جاری کرتے ہوئے کہا کہ مساجد میں نصب لاؤڈ اسپیکر پر پابندی لگائی جائے اور صوتی آلودگی کے خلاف سپریم کورٹ کے حکم پر عمل کیا جائے۔
نئی دہلی: کرناٹک میں ‘حلال گوشت’ مخالف مہم کے بعدبجرنگ دل اور شری رام سینا کی قیادت میں دائیں بازو کی تنظیموں نے اب مساجد میں لاؤڈ اسپیکر پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا ہے۔
مہاراشٹر نونرمان سینا (ایم این ایس) کے سربراہ راج ٹھاکرے کی حمایت کرتے ہوئےانہوں نے خبردار کیا ہے کہ وہ مساجد میں لاؤڈ اسپیکر پر سنائی جانے والی اذان کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے صبح 5 بجے بھجن بجائیں گے۔
راج ٹھاکرے نے سنیچر کو مساجد میں لاؤڈ اسپیکر بند کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
انہوں نے ممبئی کے شیواجی پارک میں منعقدہ گڑی پڑوا ریلی میں کہا تھا، مساجد میں لاؤڈ اسپیکر اتنی اونچی آواز میں کیوں بجائے جاتے ہیں؟ اگر اس کو نہ روکا گیا تو مساجد کے باہر لاؤڈ اسپیکر پر اس سے تیز آواز میں ہنومان چالیسہ بجائی جائے گی۔
شری رام سینا کے کنوینر پرمود متالک نے ایک ویڈیو پیغام جاری کرتے ہوئے کہا، ہندو تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ مساجد میں نصب لاؤڈ اسپیکر پر پابندی لگائی جائے اور صوتی آلودگی کے خلاف سپریم کورٹ کے حکم پر عمل کیا جائے۔
انہوں نے الزام لگایا کہ شری رام سینا نے اس سلسلے میں متعلقہ حکام سے اپیل کی تھی، لیکن کسی نے اس پر غور نہیں کیا۔
متالک نے کہا کہ حکومت مسجد انتظامیہ کو لاؤڈ سپیکر استعمال نہ کرنے کی ہدایت دے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ سپریم کورٹ نے روزانہ رات 10 بجے سے صبح 6 بجے تک لاؤڈ اسپیکر کے استعمال پر پابندی لگا رکھی ہے۔
متالک نے کہا، اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسکول اور اسپتال کے آس پاس کے ‘پرسکون’ علاقوں میں لاؤڈ اسپیکر کا استعمال نہ کیا جائے، لیکن مسجد انتظامیہ کی جانب سے اس حکم کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ اگر مساجد سے لاؤڈ سپیکر نہ ہٹائے گئے تو ہم ہر صبح بھجن بجائیں گے۔
ٹائمز آف انڈیا کے مطابق، کچھ ہندو گروپ اذان کے دوران ‘اوم نمہ شیوائے’، ‘جئے شری رام’، ‘ہنومان چالیسہ’ کے پاٹھ اور دیگر پرارتھناؤں کو نشر کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ معاملے کی حساسیت کے مدنظرریاستی حکومت نے پولیس کو حفاظتی انتظامات مضبوط کرنے کی ہدایت دی ہے۔
بجرنگ دل کے رکن بھرت شیٹی نے کہا کہ مساجد میں لاؤڈ اسپیکر کے خلاف مہم بنگلورو کے انجنیے مندر سے شروع ہوگی اور پھر پوری ریاست میں چلائی جائے گی۔
پرمود متالک کی قیادت والی شری رام سینا نے کہا کہ اس نے حکام سے صبح 5 بجے لاؤڈ اسپیکر کے استعمال کو روکنے کی درخواست کی تھی، لیکن بیلگام کے ضلع تحصیلدار اور آلودگی کنٹرول بورڈ نے کوئی کارروائی نہیں کی۔
انہوں نے کہا، ہم ان کی عبادت کی مخالفت نہیں کرتے۔ لیکن ہم لاؤڈ اسپیکر کے استعمال کی مخالفت کرتے ہیں۔ اگر مساجد سے لاؤڈ اسپیکر نہ ہٹائے گئے تو ہم ہر صبح بھجن بجائیں گے۔
کالی مٹھ کے پجاری یوگیشور رشی کمار سوامی، جنہیں حال ہی میں ایک مسجد کو گرانے کا مطالبہ کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا، نے کہا کہ وہ ریاست کے تمام مندروں میں صبح سویرے شلوکوں کے جاپ کو مقبول بنانے کے لیے ایک مہم شروع کریں گے۔
رپورٹ کے مطابق، بی جے پی کے سینئر عہدیدار اور ریاستی وزیر کے ایس ایشورپا نے کہا کہ اس مسئلہ کا کوئی بھی حل مسلم کمیونٹی کو اعتماد میں لے کر ہی نکالا جاسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کمیونٹی طویل عرصے سے نماز کے لیے لاؤڈ اسپیکر کے استعمال کی روایت پر عمل پیرا ہے، لیکن اس سے طلباء، بچوں اور مریضوں کو پریشانی ہو رہی ہے۔
ایشورپا نے کہا، یہ ہمارے لیے ‘ہنومان چالیسہ’ کو بلند آواز میں بجانے کا مقابلہ نہیں ہے۔ مجھے آپ (مسلمانوں) کے نماز پڑھنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے، لیکن اگر اسی طرح مندروں اور گرجا گھروں میں لاؤڈ اسپیکر کے ذریعےپرارتھناکی جاتی ہے تو اس سے آپس میں تنازعہ پیدا ہوگا۔
ایشورپا کے کابینہ کے ساتھی سی این اشوتھ نارائن نے کہا کہ حکومت اذان سے متعلق کوئی نیا قانون نہیں لائی ہے۔ انہوں نے کہا، ہم قوانین میں بتائے گئے اصولوں کے مطابق کام کر رہے ہیں۔ ہم کسی کے حق یا خلاف کام نہیں کر رہے ہیں۔
غورطلب ہے کہ کرناٹک میں حجاب تنازعہ کے بعد ہندوتوا تنظیموں کے ذریعے حلال گوشت فروخت کرنے والے مسلم دکانداروں کے بائیکاٹ کا معاملہ تنازعہ میں ہے۔ اسی ہفتے بی جے پی کے قومی جنرل سکریٹری سی ٹی روی نے حلال گوشت کو ‘اقتصادی جہاد’ بتایا تھا۔
بجرنگ دل کے ارکان نے مسلمانوں کی دکانوں پر حملہ کرنے اور مسلم ریستوراں کے مالکان کو زدوکوب کرنے کے معاملے بھی سامنے آئے ہیں۔
وہیں، وزیر اعلیٰ بسواراج بومئی نے کہا تھا کہ حکومت حلال گوشت کے خلاف لوگوں کے اعتراضات پر غور کرے گی۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)