کرناٹک کے وزیر اعلیٰ سدارمیا نے ریاست میں 23 دسمبر سے حجاب پر پابندی کے فیصلے کو واپس لینے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ بی جے پی لباس اور ذات پات کی بنیاد پر لوگوں اور سماج کو تقسیم کرنے کا کام کر رہی ہے۔ حجاب پر پابندی بسواراج بومئی کی قیادت والی پچھلی بی جے پی حکومت نے عائد کی تھی۔
نئی دہلی: کرناٹک کے وزیر اعلیٰ سدارمیا نے جمعہ کو کہا کہ انہوں نے سنیچر سے ریاست میں حجاب پر پابندی کے فیصلے کو واپس لینے کی ہدایت دی ہے۔ یہ پابندی بسواراج بومئی کی قیادت والی سابقہ بی جے پی حکومت نے لگائی تھی۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، یہ کہتے ہوئے کہ ریاست کے تعلیمی اداروں میں حجاب پہننے پر پابندی 23 دسمبر سے ہٹا دی جائے گی، سدارمیا نے بتایاکہ لباس اور کھانے کا انتخاب شخصی ہے اور کسی کو بھی اس میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔
ایک افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سدارمیا نے بی جے پی کو نشانہ بناتے ہوئے کہا، ‘وہ کہتے ہیں ‘سب کا ساتھ، سب کا وکاس’ لیکن ٹوپی، برقع پہننے اور داڑھی رکھنے والوں کے ساتھ امتیازی سلوک کرتے ہیں۔ کیا ان کا یہی مطلب ہے؟’
جب بھیڑ میں سے کسی نے حجاب پہننے پر پابندی کے بارے میں پوچھا تو وزیر اعلیٰ نے کہا، ‘نہیں (پابندی)۔ آپ حجاب پہن سکتی ہیں۔ میں نے (افسران کو ) ہدایت دے دی ہے کہ کل سے کوئی پابندی نہیں ہوگی۔ آپ جو چاہیں پہن سکتے ہیں اور کھا سکتے ہیں۔ یہ آپ پر منحصر ہے۔’
انہوں نے مزید کہا ‘آپ کی پسند آپ کی ہے اور میری پسند میری ہے۔ یہ اتنا آسان ہے۔ میں دھوتی اور کُرتا پہنتا ہوں اور آپ پتلون اور قمیض۔ یہ آپ کی پسند ہے۔اس میں غلط کیا ہے؟’
ایکس پر ایک پوسٹ میں سدارمیا نے وزیر اعظم نریندر مودی کے نعرے ‘سب کا ساتھ، سب کا وکاس’ کو ‘فرضی’ قرار دیا۔ مزید یہ کہتے ہوئے کہ انہوں نے حجاب پر پابندی کے فیصلے کو واپس لینے کی ہدایت دی ہے، انہوں نے کہا، ‘بی جے پی لوگوں اور معاشرے کو لباس اور ذات پات کی بنیاد پر تقسیم کرنے کا کام کر رہی ہے۔’
واضح ہو کہ فروری 2022 میں مسلم طالبات کو حجاب پہننے سے روکنے والے ریاستی تعلیمی اداروں کے فیصلے کی توثیق کرتے ہوئے کرناٹک کی اس وقت کی بی جے پی حکومت نے کہا تھا کہ ‘مساوات، سالمیت اور عوامی امن و امان کو متاثر کرنے والے کپڑے نہیں پہننے چاہیے۔ ریاستی حکومت کے مطابق، کلاس رومز میں حجاب پہننے پر پابندی آئین کے ذریعے دی گئی مذہبی آزادی کے بنیادی حق کی خلاف ورزی نہیں تھی۔
اس پابندی کے بعد ریاست میں زبردست احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے اور بہت سے طلباء نے اس حکم کے خلاف کرناٹک ہائی کورٹ کا رخ کیا تھا۔ عدالت نے مارچ 2022 میں پابندی کو برقرار رکھا تھا اور ان درخواستوں کو مسترد کر دیا تھا جن میں کہا گیا تھا کہ حجاب پہننا اسلام میں ضروری مذہبی عمل کا حصہ نہیں ہے۔
اکتوبر 2022 میں سپریم کورٹ نے ریاست میں تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی ہٹانے سے انکار کرنے والے کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کرنے والی درخواستوں پر منقسم فیصلہ سنا یا تھا اور اس معاملے کو چیف جسٹس کے پاس بھیج دیاتھا، تاکہ اس کی سماعت ایک بڑی بنچ کے ذریعے کی جا سکے۔
منقسم فیصلہ دینے والی بنچ میں شامل جسٹس ہیمنت گپتا (اب ریٹائرڈ) نے ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کو مسترد کر دیا تھا، جبکہ جسٹس سدھانشو دھولیا نے اس کی اجازت دی تھی۔
جسٹس گپتا نے کہا تھا کہ یہ صرف یکسانیت کو فروغ دینے اور سیکولر ماحول کی حوصلہ افزائی کے لیے تھا۔ وہیں،جسٹس دھولیا نے ریاست اور ہائی کورٹ کے احکامات کو رد کر دیا تھا اور کلاسوں میں حجاب پہننے کے حق کو ‘پسند کا معاملہ’ اور ‘بنیادی حق’ قرار دیا تھا۔
قابل ذکر ہے کہ حجاب کو لے کر یہ تنازعہ سب سے پہلے اُڈپی ضلع کے ایک سرکاری پری یونیورسٹی کالج میں اس وقت شروع ہوا تھا، جب دسمبر 2021 میں حجاب پہن کر چھ لڑکیاں کلاس میں آئیں اور انہیں کالج میں داخلے سے روک دیا گیا۔ ان کے حجاب پہننے کے جواب میں ہندو طالبعلم بھگوا اسکارف پہن کر کالج آنے لگے اور آہستہ آہستہ یہ تنازعہ ریاست کے دیگر حصوں تک پھیل گیا، جس سے کئی مقامات پر تعلیمی اداروں میں کشیدگی پیدا ہوگئی تھی۔
بی جے پی نے پابندی ہٹانے کی مخالفت کی
کرناٹک کے وزیر اعلیٰ کے تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی ہٹانے کے اعلان پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کرناٹک بی جے پی نے کہا کہ سدارمیا ریاست میں مذہب کا زہر بو رہے ہیں۔
ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، کرناٹک بی جے پی نے کہا، ‘اسکولوں اور کالجوں میں یکساں پالیسی نافذ کی گئی ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ بچوں کو مساوی تعلیم ملے۔ سپریم کورٹ نے بھی اس کی تائید کی ہے۔ تاہم، وزیر اعلیٰ یونیفارم کے معاملے پر اسکولی طلبہ کے ذہنوں میں اختلافات پیدا کررہے ہیں۔’
کرناٹک بی جے پی نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا، ‘سدارمیا پی ایف آئی کے غنڈوں اور اقلیتوں کو خوش کرنے کے لیے ووٹ بینک کے لیے آئین میں ہی ترمیم کرنے جا رہے ہیں۔ آنے والے دنوں میں عوام خود اسے سبق سکھائیں گے۔’
وہیں، ریاستی بی جے پی کے سربراہ وجیندر یدیورپا نے تعلیمی اداروں کی سیکولر فطرت کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا۔
انہوں نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا، ‘تعلیمی اداروں میں حجاب پر عائد پابندی کوواپس لینے کے وزیر اعلیٰ سدارمیا کے فیصلے سے ہمارے تعلیمی اداروں کی سیکولر فطرت کے بارے میں تشویش پیدا ہوتی ہے۔ تعلیمی اداروں میں مذہبی لباس کی اجازت دے کر، کرناٹک حکومت نوجوانوں کے ذہنوں کو مذہبی خطوط پر پروان چڑھا رہی ہے اور تقسیم کر رہی ہے، جو ممکنہ طور پر ایک جامع تعلیمی ماحول میں رکاوٹ پیدا کر رہی ہے۔’
انہوں نے کہا کہ تفرقہ انگیز طریقوں پر تعلیم کو ترجیح دینا اور ایک ایسے ماحول کو فروغ دینا ضروری ہے جہاں طلباء مذہبی طریقوں کے اثر و رسوخ کے بغیر تعلیم پر توجہ مرکوز کر سکیں۔