گڑگاؤں: نماز کی جگہ  پر پوجا کے لیے ہندوتوا گروپ نے کپل مشرا اور نرسنہا نند کو مدعو کیا

گڑگاؤں میں پچھلے کچھ مہینوں سےہندوتوا گروپ کھلے میں نماز کی مخالفت کر رہے ہیں۔انتطامیہ نے گزشتہ تین نومبرکو 37طے شدہ مقامات میں سے آٹھ پر نماز ادا کرنے کی منظوری کو منسوخ کر دیا ہے ۔ اس بیچ سنیکت ہندو سنگھرش سمیتی نے سیکٹر12اے میں اس مقام پرگئووردھن پوجا کا اہتمام کیا ہے، جہاں پچھلے کچھ دنوں سے نماز کی مخالفت کی جا رہی ہے۔

گڑگاؤں میں پچھلے کچھ مہینوں سےہندوتوا گروپ کھلے میں نماز کی مخالفت کر رہے ہیں۔انتطامیہ نے گزشتہ تین نومبرکو 37طے شدہ مقامات میں سے آٹھ پر نماز ادا کرنے کی منظوری کو منسوخ کر دیا ہے ۔ اس بیچ سنیکت ہندو سنگھرش سمیتی نے سیکٹر12اے میں اس مقام پرگئووردھن پوجا کا اہتمام کیا ہے، جہاں پچھلے کچھ دنوں سے نماز کی مخالفت  کی جا رہی ہے۔

نرسنہانند اور کپل مشرا۔

نرسنہانند اور کپل مشرا۔

نئی دہلی: ایک ہندوتوا تنظیم نےگڑگاؤں کے سیکٹر12اے میں جمعہ کو ‘گئوردھن پوجا’کا اہتمام کیا، جہاں پچھلے کچھ دنوں سے نمازکی مخالفت  کی جا رہی ہے۔خاص بات یہ ہے کہ اس پوجا میں بی جے پی رہنما کپل مشرا اورشدت پسند ہندوتوالیڈریتی نرسنہانند کو مدعو کیا گیا۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، بی جے پی رہنما کپل مشرا نے کہا  کہ وہ پروگرام  میں شامل ہو ں گے، حالانکہ نرسنہانند نے وہاں جانے سے انکار کیا۔ سنیکت ہندو سنگھرش سمیتی، جس میں 22 گروپ  شامل ہیں،کی جانب سے طے شدہ  نماز کی جگہ  پر پوجا کا اہتمام کیا گیا ہے۔

گزشتہ 31 اکتوبر (اتوار)کو اس سمیتی نے اعلان  کیا تھا کہ وہ پانچ نومبر کو اس پوجا کا اہتمام  کریں گے، جس میں تقریباً 5000 لوگ شامل ہو سکتے ہیں۔ اس کے صدر نے کہا، ‘پوجا کے بعد ڈھول اور نگاڑے بجائے جا ئیں گے اور پرساد بانٹا جائےگا۔’

رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ مسلم کمیونٹی کے نمائندوں نے کہا تھا کہ (نماز کے لیے)اگرمتبادل جگہ فراہم  کی جاتی ہے یا وقف بورڈ سے متعلق  املاک  کو تجاوزات  سے آزاد کر دیا جاتا ہے، تو وہ ہٹ جائیں گے۔

کپل مشرا نے کہا، ‘کسی کو بھی ہر ہفتے سڑکوں کو جام کرنے کا حق نہیں ہے ۔’

یہ پہلا موقع نہیں ہے جب کپل مشرانے سڑک خالی کرانے کی بات کی ہے۔اس سے پہلے پچھلے سال فروری مہینے میں جب دہلی کے مختلف حصوں میں متنازعہ شہریت قانون کے خلاف مظاہرے چل رہے تھے، تو انہوں نے موج پور میں کہا تھا کہ اگر پولیس سڑک نہیں خالی کراتی ہے، وہ(اور ان کےحامی) خود سڑک پر اتر جائیں گے۔

دہلی میں دنگا بھڑکنے سے ایک دن پہلے 23 فروری کو کپل مشرا نے ایک ویڈیو ٹوئٹ کیا تھا، جس میں وہ موج پور ٹریفک سگنل کے پاس سی اےاےکی حمایت میں جمع بھیڑ کو خطاب کرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس دوران ان کے ساتھ شمال-مشرقی  دہلی کے ڈی ایس پی ویدپرکاش سوریہ بھی کھڑے ہیں۔

مشرا کہتے دکھتے ہیں،‘وہ(مظاہرین)دہلی میں کشیدگی  پیدا کرنا چاہتے ہیں، اس لیے انہوں نے سڑکیں بند کر دی ہیں۔اس لیےانہوں نے یہاں دنگے جیسے حالات پیدا کر دیے ہیں۔ ہم نے کوئی پتھراؤ نہیں کیا۔ ہمارے سامنے ڈی ایس پی کھڑے ہیں اور آپ کی طرف سے میں ان کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے ہندوستان میں رہنے تک ہم علاقے کو پرامن  چھوڑ رہے ہیں۔اگر تب تک سڑکیں خالی نہیں ہوئیں تو ہم آپ کی(پولیس)بھی نہیں سنیں گے۔ہمیں سڑکوں پر اترناپڑےگا۔’

معلوم ہو کہ سال 2018 میں گڑگاؤں میں بھی کھلے میں نماز ادا کر رہےمسلمانوں پر لگاتار حملے ہوئے تھے۔ کچھ لوگوں نے عوامی مقامات پر نماز ادا کر رہے مسلمانوں پر حملہ کیا تھا اور ان سے مبینہ  طور پر جئے شری رام کے نعرے لگوائے تھے۔

اس حملے کے بعد غازی آباد میں ڈاسنہ دیوی مندر کے پجاری یتی نرسنہانند جیسے ہندوتوالیڈروں  نے ہریانہ میں مسلم نوجوانوں کے خلاف بھومی جہاد کےالزام بھی لگائے گئے تھے۔کھلی جگہوں پر نماز کو صوبے کی منظوری بتاتے ہوئے نرسنہانند نے کہا تھا،‘یہ گڑگاؤں کو تباہ کرنے کی سازش ہے، کیونکہ یہ ایک نیا اقتصادی مرکز ہے۔’

نرسنہانند نے گئووردھن پوجا کی  بھی حمایت کی تھی۔

گزشتہ ستمبر مہینے کے بعد سے رائٹ ونگ گروپ  کھلے میں نماز کی  لگاتار مخالفت کر رہے ہیں،یہاں تک کہ نماز کے لیےطےشدہ جگہوں کی بھی مخالفت ہو رہی ہے۔رائٹ ونگ گروپ اس کو لےکر بھومی جہاد اور مقامی خواتین کے ساتھ بدسلوکی کا الزام  لگاتے ہیں۔

گزشتہ29 اکتوبر کو گڑگاؤں میں نماز کوروکنے کی کوشش میں 30 لوگوں کو حراست میں لیا گیا تھا۔ یہ لوگ نعرےبازی کر رہے تھے اور ان کے ہاتھوں میں پلےکارڈ تھے۔

دی وائر نے اپنی رپورٹ میں پہلے بھی بتایا تھا کہ ہندوتوا رہنما اورتنظیم  ان کے مرکز میں رہے ہیں اور انہوں نے مسلم کمیونٹی کے خلاف جھوٹے الزام  لگائے ہیں۔

ان کی قیادت کر رہے بھارت ماتا واہنی کے صدردنیش بھارتی کا دعویٰ تھا کہ کھلے میں نمازادا کرنا بین الاقوامی  سازش ہے۔

اس کے بعد ہندوتواتنظیموں  کے دباؤ کے بیچ گڑگاؤں ضلع انتظامیہ  نے گزشتہ  منگل(تین نومبر)کو 37 طے شدہ مقامات میں سے آٹھ پر نماز ادا کرنے کی اجازت  رد کر دی تھی۔

گڑگاؤں مسلم کمیونٹی کی طرف سے بولتے ہوئے الطاف احمد نے دی وائر کو بتایا کہ انتظامیہ مسلم کمیونٹی  پر صرف مسجدوں میں نماز ادا کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہی تھی اور اگر ان37مقامات میں سے کسی پراعتراض  کیا جاتا ہے تو منظوریاں  واپس لے لی جائیں گی۔

احمدگڑگاؤں میں ایک سول سوسائٹی گروپ‘گڑگاؤں ناگرک ایکتا منچ’کےممبر ہیں، جس نے گزشتہ منگل کو دائیں بازو کے گروپوں کی طرف سے مسلمانوں کو مسلسل ہراساں کیے جانے کے خلاف ایک بیان جاری کیا ہے۔

اس بیان میں کہا گیا ہے، ‘ہم اپنے شہر کے مقدر کو کچھ نفرت پھیلانے والوں کے ہاتھوں میں نہیں رکھ سکتے، جنہوں نے اپنے  ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے تشدد کا راستہ چنا ہے۔’

گڑگاؤں کے آواز نامی کمیونٹی ریڈیو کے ڈائریکٹر اور اسٹیج ممبر آرتی جیمن نے کہا کہ یہ بنیادی طور پر آرٹیکل 25 کے مطابق کسی کے اپنے مذہب پر عمل کرنے کے آئینی حق کا مدعا ہے۔

انہوں نے کہا، ‘اگر مجھے جگن ناتھ یاترا اور کانوڑ یاترا اور 10دنوں تک میدان میں رام لیلا کا حق ہے تو پھر مسلمانوں کو بھی میدان میں نماز پڑھنے کا حق ہے، جو 10 دنوں تک چلنے والی رام لیلا سے کم ہے۔’

(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)