فروری2020 میں موج پور میں سی اے اےکی حمایت میں بی جے پی رہنما کپل مشرانے متنازعہ بیان دیا تھا۔ اس دوران شمال-مشرقی دہلی کےاس وقت کے ڈی ایس پی وید پرکاش سوریہ ان کے ساتھ اسٹیج پر موجود تھے۔ اب سوریہ اور ان کے ساتھ تقریباً 25 پولیس افسروں نے دہلی فسادات میں اپنی غیرمعمولی کارکردگی کا ذکر کرتے ہوئے میڈل کے لیےاپنے نام بھیجےہیں۔
موج پور لال بتی کے قریب ڈی سی پی(نارتھ-ایسٹ)وید پرکاش سوریہ کےساتھ بی جے پی رہنما کپل مشرا(فوٹو : ویڈیو اسکرین گریب/ٹوئٹر)
نئی دہلی: شمال-مشرقی دہلی کے سابق ڈی ایس پی وید پرکاش سوریہ نے اس سال بہادری کے لیے دیے جانے والے صدرجمہوریہ میڈل کے لیے اپنا نام بھیجا ہے۔بتا دیں کہ سوریہ دہلی پولیس کے وہی افسر ہیں، جو پچھلے سال 23 فروری کوشہریت قانون(سی اے اے)کی حمایت میں منعقد ریلی میں بی جے پی رہنما کپل مشرا کے ساتھ کھڑے تھے۔ اس دوران مشرا نےمتنازعہ دیا تھا، جس کے بعد دہلی میں دنگے بھڑکے تھے۔
انڈین ایکسپریس کی
رپورٹ کے مطابق،سوریہ نے یہ کہہ کر اس بار بہادری کے لیے صدرجمہوریہ میڈل کے لیے نامزدگی بھیجی ہے کہ انہوں نے دہلی فسادات کے دوران ہزاروں لوگوں کی جان بچائی اوراملاک کی بھی حفاظت کی اور اس دوران ان کی کارکردگی غیرمعمولی رہی۔
معلوم ہو کہ وید پرکاش سوریہ ، ان کے جےسی پی آلوک کمار اور معاونین سمیت لگ بھگ 25 پولیس افسروں نے میڈل کے لیے اپنے نام بھیجے ہیں ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ ان میں سے اکثر پولیس اہلکاروں نے دہلی فسادات کے دوران اپنے رول کا ذکر کیا ہے۔
صدر جمہوریہ کا بہادری میڈل جان و مال کی حفاظت کرنے اور جرائم روکنے اور مجرمین کو گرفتار کرنے کے لیے دیا جاتا ہے۔
ایک سینئر پولیس افسر نے کہا، ایوارڈ کی نامزدگی کے لیےتجویز ضلع سے پولیس ہیڈکوارٹرکو بھیجی جاتی ہے، جہاں اسے سینئر افسروں کی کمیٹی کےسامنے رکھا جاتا ہے اور آخرمیں دہلی پولیس کمشنر کی طرف سے اس کو منظوری دی جاتی ہے۔ اس کے بعد فائل محکمہ داخلہ اور وزارت داخلہ کو بھیجی جاتی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ سوریہ نے کچھ دنوں پہلے ہی اپنی نامزدگی بھیجی ہے اور ان کی درخواست کو 24دیگر پولیس افسروں کے ساتھ پولیس ہیڈکوارٹر بھیجا گیا ہے۔
ذرائع نے بتایا، اس کے علاوہ 23 پولیس اہلکاروں نے غیرمعمولی کاموں کے لیے میڈل اور 14 نے آؤٹ آف ٹرن پرموشن کے لیے درخواست بھیجی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ سوریہ نے اپنی درخواست میں کہا ہے کہ انہوں نے چار دنوں کے اندرفسادات پر قابو پا لیا تھا۔ انہوں نے مدد کے لیے فون کال پر جواب دینے سے لےکر ہزاروں لوگوں کی جان اوران کےاملاک کو بچانے کے لیے اپنی جرأت مندانہ کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ پتھراؤ کے باوجود بھی مضطرب نہیں ہوئے۔
معلوم ہو کہ اس سال 24 فروری کو ویدپرکاش سوریہ کا تبادلہ شمال -مشرقی ضلع سے راشٹرپتی بھون میں بطور ڈی ایس پی کر دیا گیا۔بتا دیں کہ دہلی کے اس وقت کے پولیس کمشنر ایس این شریواستو نے فسادات کے بعد تشدد کے دوران اپنے کام کے لیےاسپیشل سیل کے ساتھ تعینات چار پولیس اہلکاروں کو آؤٹ آف ٹرن پرموشن دیا تھا۔
یہ چاروں پولیس اہلکار اس جانچ ٹیم کا حصہ تھے، جنہوں نے جے این یو کے سابق طالبعلم عمر خالد، جامعہ کوآرڈینیٹنگ کمیٹی کے میڈیاکوآرڈینیٹرصفورہ زرگر اور پنجرہ توڑ کی کارکن دیوانگنا کلیتا اور نتاشا نروال سمیت 21 لوگوں کو گرفتار کیا تھا۔
ایک سینئر پولیس افسر نے کہا، ‘پچھلے مہینے ہیڈ کانسٹبل ہمیندر راٹھی کو حسین قریشی کے بارے میں اہم اطلاع دینے کے لیے پرموشن دیا گیا تھا۔’اس جانکاری کے بعد حسین قریشی کو گرفتار کر لیا گیا تھا، جس پرفسادات کے دوران آئی بی افسر انکت شرما کے قتل کا الزام ہے۔
دہلی پولیس چیف کی اس سال 19فروری کو ہوئی سالانہ پریس کانفرنس میں شری واستو نے فسادات میں پولیس کے رول کی یہ کہتے ہوئے تعریف کی تھی کہ کل 755 ایف آئی آر درج کی گئی تھی اور کسی نے شکایت نہیں کی کہ ان کی شکایت کو قبول نہیں کیا گیا۔
غورطلب ہے کہ دہلی فسادات کے شروع ہونے سے ایک دن پہلے 23فروری کو کپل مشرا نے ایک
ویڈیو ٹوئٹ کیاتھا، جس میں وہ موج پور ٹریفک سگنل کے پاس سی اے اے کی حمایت میں جمع بھیڑ کو خطاب کرتے ہوئےدیکھے جا سکتے ہیں ۔اس دوران ان کے ساتھ شمال- مشرقی دہلی کے ڈی سی پی وید پرکاش سوریہ بھی کھڑے ہیں۔
مشرا کہتے دکھتے ہیں، وہ (مظاہرین)دہلی میں کشیدگی پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ اس لئے انہوں نے سڑکیں بند کر دی ہیں۔ اس لیے انہوں نے یہاں فساد جیسے حالات پیدا کر دیے ہیں۔ہم نے کوئی پتھراؤ نہیں کیا۔ہمارے سامنے ڈی سی پی کھڑے ہیں اور آپ کی طرف سے میں ان کو یہ بتاnا چاہتا ہوں کہ امریکی صدر کے ہندوستان میں رہنے تک، ہم علاقے کو پرامن چھوڑ رہے ہیں۔ اس کے بعد اگر تب تک سڑکیں خالی نہیں ہوئیں تو ہم آپ کی(پولیس کی)نہیں سنیںگے۔ہمیں سڑکوں پر اترنا پڑے گا۔’
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)