جموں و کشمیر میں لگی پابندیوں کو لےکر استعفیٰ دینے والے سابق آئی اے ایسافسر کنن گوپی ناتھن نے کہا کہ چارج شیٹ میں انہی الزامات کو شامل کیا گیا ہے، جواستعفیٰ دینے کے دو مہینے بعد محکمہ جاتی تفتیش کے لئے بھیجے گئے میمورنڈم میں تھے۔
نئی دہلی: جموں و کشمیر میں لگی پابندیوں کو لےکر آئی اے ایس سے استعفیٰ دینے والے آئی اے ایس افسر کنن گوپی ناتھن نےٹوئٹ کر کے جانکاری دی ہے کہ مرکزی وزارت داخلہ نے ان کے خلاف ایک چارج شیٹ داخل کیاہے۔ گوپی ناتھن نے بتایا کہ پہلے انھیں دمن انتظامیہ سے ایک فون کال آیاجس میں چارج شیٹ کو بھیجنے کے لئے ان کا پتہ پوچھا گیا۔ جب انہوں نے کہا کہ ان کےپاس کوئی مستقل پتہ نہیں ہے اور وہ ایک کرایے کے مکان میں رہتے ہیں تب وہ چارج شیٹ انھیں ای میل کیا گیا اور انہوں نے چارج شیٹ ملنے کی جانکاری دے دی۔
So they emailed me the chargesheet. Well @HMOIndia, I know it must be tough as you are unable to manage what’s happening between lawyers and police right under your nose.
So in the interest of the nation I do not want to trouble you more in your weak time. I acknowledge receipt. https://t.co/JKgtdOcWE5
— Kannan Gopinathan (@naukarshah) November 6, 2019
گوپی ناتھن نے حکومت پر استحصال کی ناکام کوشش کا الزام لگایا ہے۔ اس کےساتھ ہی گوپی ناتھن نے دہلی کے تیس ہزاری کورٹ میں پولیس اور وکیلوں کے درمیان ہوئے جھڑپ کےحوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ ایک مشکل وقت میں وزیر داخلہ امت شاہ کوپریشان نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ گوپی ناتھن نے کہا کہ آئی اے ایس خدمات سے استعفیٰ دینے کے دو مہینے بعد ان کو محکمہ جاتی تفتیش کے لئے میمورنڈم بھیجا گیا تھی۔ اب چارج شیٹ میں جو الزام لگائےگئے ہیں وہ اسی سے ملتے جلتے ہیں۔
Here it is warning me to not bring any political influence. Who is capable of politically influencing @HMOIndia other than @AmitShah.
Now if only I could influence him.
But let me try anyway. Sir, please restore fundamental rights in Kashmir. pic.twitter.com/EIa3iZS2nV
— Kannan Gopinathan (@naukarshah) November 6, 2019
ان کے ذریعے ٹوئٹ کی گئی تصویروں کے مطابق، جو الزام لگائے گئے ہیں وہ دادر اور ناگر حویلی کے کلکٹر رہنے کے دوران دیری کرنے اور حکم نہ ماننے سے جڑےہیں۔ ان کے خلاف لگائے گئے الزامات میں میڈیا سے بات کر کے سرکاری خدمات کی غلط امیج پیش کرنے کا بھی الزام شامل ہے۔
اس کے جواب میں انہوں نے ٹوئٹ کرکے کہا، ‘آپ کے کاموں نے ایسی تصویر بنائی ہے نہ کہ میرے بیانات نے۔ اس کے ساتھ ہی گوپی ناتھن نے اپنے اوپر لگائے گئےالزامات کے تعلق سے ایک تفصیلی جواب ٹوئٹ کیا۔ ‘ سابق آئی اے ایس افسر نے کہا کہ ان سے کہا گیا ہے کہ وہ کسی سیاسی اثرو رسوخ کااستعمال نہ کریں۔ اس کے جواب میں انہوں نے پوچھا، امت شاہ کے علاوہ وزارت داخلہ پرسیاسی دباؤ بنانے میں اور کون اہل ہو سکتا ہے۔ اب اگر میں ان کو متاثر کر سکتا ہوں تو میں ایک کوشش کرتا ہوں۔ سر، برائے مہربانی کشمیر میں انسانی حقوق کو بحال کردیجئے۔
Next is that they are upset that I did not continue in Daman after submission of resignation.
Fakeer aadmi hu na ab. Jhola uthake chal pada. Fakeeri yaad hoga.
Don’t feel bad. If Daman administration needs help to I still offer my services. Pro-bono though. pic.twitter.com/c4GjQQxu7t
— Kannan Gopinathan (@naukarshah) November 6, 2019
اپنے اوپر لگائے ایک الزامات کی ایک فہرست کو ٹوئٹ کرتے ہوئے گوپی ناتھن نے کہا کہ کوئی تعجب نہیں ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی مبینہ طور پر اپنی حکومت کےپانچ سال کی مدت برباد کرنے کے لئے نوکرشاہوں سے پریشان ہیں۔انہوں نے کہا، ‘پانچ سال کی قیادت کے بعد کوئی بھی امید کرےگا کہ آپ دھمکی دینے اور پریشان کرنے میں مہارت حاصل کر چکے ہوںگے۔ ‘
اس سے پہلے ستمبر مہینے میں گوپی ناتھن کو ساوتری بائی پھلے پونےیونیورسٹی (ایس پی پی یو) کی جے کر نالج ریسورس سینٹر (جے کے آر سی) لائبریری میں جانے سے روک دیا گیا تھا جبکہ کالج کے طالب علم چاہتے تھے وہ وہاں آئیں۔ بتا دیں کہ، پچھلے مہینے کنن گوپی ناتھن نے کشمیر میں آرٹیکل 370 کے بعد لگی پابندیوں پر یہ کہتے ہوئے استعفیٰ دے دیا تھا کہ وہ ایسی حالت میں کام نہیں کر سکتےہیں جہاں لوگوں کے حقوق اور آزادی کو پامال کرنے کے لئے نوکرشاہی مشینری کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک طرح سے غیراعلانیہ ایمرجنسی ہے۔
گوپی ناتھن نے کہا تھا، ‘یہ یمن نہیں ہے، یہ 1970 کی دہائی کا دور نہیں ہے جس میں آپ پوری عوام کو اصل حق دینے سے انکار کر دیںگے اور کوئی کچھ نہیں کہےگا۔ ‘انہوں نے یہ بھی کہا تھا، ‘ایک پورے علاقے میں تمام طرح کی پابندیوں کولگاکر اس کو پوری طرح سے بند کئے ہوئے پورے 20 دن ہو چکے ہیں۔ میں اس پرخاموش نہیں بیٹھ سکتا ہوں چاہے کھلکر بولنے کی آزادی کے لئے مجھے آئی اے ایس سےہی استعفیٰ کیوں نہ دینا پڑے اور میں وہی کرنے جا رہا ہوں۔ ‘