آر ٹی آئی قانون کی16ویں سالگرہ کےموقع پر ایک تقریب میں سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس مدن لوکور نے کہا کہ ایک جمہوری ملک کے کام کاج کے لیےانفارمیشن اہم چیزہے۔اس کا مقصد گڈ گورننس ، شفافیت،احتساب اور جوابدہی کو قائم کرنا ہے۔پی ایم کیئرس فنڈ کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس پر آر ٹی آئی ایکٹ لاگو نہ ہونے کی وجہ سےشہریوں کو پتہ ہی نہیں ہے کہ اس کا پیسہ کہاں جا رہا ہے۔
نئی دہلی: سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس مدن بی لوکور نےسرکار کے ذریعےمنظم طریقے سے آر ٹی آئی قانون کو کمزور کرنے کی کوششوں کو لےکرشدیدتشویش کا اظہار کیا ہے۔
انہوں نے پی ایم کیئرس فنڈ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اس پرآر ٹی آئی ایکٹ نافذ نہیں ہونے کی وجہ سے شہریوں کو پتہ ہی نہیں ہے کہ اس کا پیسہ کہاں جا رہا ہے۔
لائیولاء کے مطابق جسٹس لوکور نے کہا،‘اسے لےکر کوئی جانکاری عوامی کیوں نہیں ہے کہ اس فنڈ میں آئے کروڑوں روپے کو کہاں خرچ کیا جا رہا ہے؟’
انہوں نے کہا،‘اگرآپ پی ایم کیئرس کی ویب سائٹ پرجا ئیں گےتو وہاں28.03.2020 سے 31.03.2020 کے بیچ آئے پیسے کی آڈٹ رپورٹ ملےگی۔اس میں کہا گیا ہے کہ چار دن میں3000 کروڑ روپے آئے تھے۔اگر آپ اس کا اوسط نکالیں تو پتہ چلےگا کہ ہر دن سینکڑوں ہزاروں کروڑ روپے اس فنڈ میں آئے ہیں۔ یہ پیسہ کہاں جا رہا ہے؟ ہمیں نہیں پتہ چل رہا ہے۔’
جسٹس لوکور نے کہا کہ مالی سال2020-21 کے لیے پی ایم کیئرس فنڈ کی آڈٹ رپورٹ ابھی تیار نہیں کی ہے۔انہوں نے کہا،‘ایک سال گزر چکا ہے۔ آج 12اکتوبر(آر ٹی آئی ڈے)ہے، لیکن کسی کو آڈٹ رپورٹ کا کچھ بھی پتہ نہیں ہے۔’
#WATCH| Public Lecture by Justice Lokur on the RTI Act https://t.co/QRzHfR5ciu
— GoNewsIndia (@GoNews_India) October 12, 2021
آر ٹی آئی قانون کی16ویں سالگرہ کے موقع پر شفافیت کی سمت میں کام کرنے والےادارےاین سی پی آر آئی کےزیر اہتمام منعقد ایک تقریب کو خطاب کرتے ہوئے جسٹس لوکور نے یہ تبصرہ کیا۔
معلوم ہو کہ پی ایم کیئرس فنڈ کی مخالفت کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ سرکار اس سے متعلق انتہائی بنیادی جانکاریاں، جیسے اس میں کتنے پیسے آئے، اس کو کہاں کہاں خرچ کیا گیا، تک بھی فراہم نہیں کرا رہی ہے۔
وزیر اعظم دفتر(پی ایم او)آر ٹی آئی ایکٹ کے تحت اس فنڈ سے متعلق تمام جانکاری دینے سے لگاتار منع کرتا آ رہا ہے۔
ساتھ ہی یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ پی ایم کیئرس آر ٹی آئی ایکٹ، 2005 کے تحت پبلک اتھارٹی نہیں ہے۔یہ حالت تب ہے جبکہ وزیر اعظم اس فنڈ کےصدر ہیں اور حکومت کے اعلیٰ ترین عہدوں پر بیٹھےوزیر داخلہ،وزیر دفاع،وزیر خزانہ جیسے لوگ اس کے ممبر ہیں۔اس کے علاوہ اس فنڈ کا سرکاری دفتربھی پی ایم او میں ہی ہے۔
لیکن حکومت کا کہنا ہے کہ اس فنڈ کی تشکیل‘ایک پرائیویٹ چیرٹیبل ٹرسٹ’کے طور پر کی گئی ہے، اس لیے اس کی جانکاری نہیں دی جا سکتی ہے۔
جسٹس لوکور نے کہا کہ ایک جمہوری کام کاج کے لیے انفارمیشن اہم ہے۔ اس کا مقصد گڈ گورننس ، شفافیت اور جوابدہی کو قائم کرنا ہے۔
سابق جج نے کہا کہ مثالی صورتحال تو یہ ہونی چاہیےتھی کہ عوام کو سرکار سے جانکاری مانگنی ہی نہ پڑتی۔ سرکار کو خود ہی سبھی ضروری جانکاری مہیا کرانی چاہیے۔آر ٹی آئی ایکٹ کی دفعہ چار میں واضح طور پر اس کا اہتمام کیا گیا ہے۔
انہوں نے جانکاری مہیا نہ کرانے کی وجہ سے عام لوگوں پر پڑنے والے اثرات کی مثال کے طور پر کووڈ 19 مہاماری کی صورتحال کی مثال دی۔
جسٹس لوکور نے کہا کہ ملک کے شہریوں کو ابھی بھی یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ مہاماری کے دوران کتنے لوگوں کی آکسیجن کی کمی یا کورونا سے موت ہوئی تھی۔ یہ جانکاری بےحد ضروری ہےتاکہ مستقبل میں ایسی کوئی صورتحال پیدا ہونے پر بہتر پلاننگ کی جا سکے۔
انہوں نے سرکاری مشینری کو خفیہ بنانے کی مثالوں کاذکر کرتے ہوئے انتخابی بانڈ کا بھی ذکر کیا، جو امیروں کے ذریعے خفیہ طریقے سے سیاسی پارٹیوں کو چندہ دینے کے لیے لایا گیا ہے۔
سابق جج نے کہا کہ سال 2013 میں سینٹرل انفارمیشن کمیشن نے حکم دیا تھا کہ سیاسی پارٹی آر ٹی آئی ایکٹ کے تحت ‘پبلک اتھارٹی’ ہے اور انہیں عوام کے ذریعے مانگی جا رہی جانکاریوں کا جواب دینا ہوگا۔
انہوں نے حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا،‘آٹھ سال گزر چکے ہیں لیکن ایک بھی پارٹی نے اس پرعمل نہیں کیا ہے۔’
معلوم ہو کہ آر ٹی آئی قانون کی16ویں سالگرہ کےموقع پر شفافیت کی سمت میں کام کرنے والے اداروں ویجیلنٹ سٹیزنز آرگنائزیشن اور ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل انڈیا کی جانب سےتیارکردہ ایک رپورٹ اس قانون کے نفاذ کی ایک قابل رحم تصویر پیش کرتی ہے۔
عالم یہ ہے کہ ملک کے 26انفارمیشن کمشین میں255602 اپیل اور شکایتیں زیرالتوا ہیں۔اس میں کہا گیا ہے کہ آنے والے سالوں میں سب سے بڑا چیلنج انفارمیشن چاہنے والوں کے تحفظ کو یقینی کرنا ہے۔