پرسنل ڈیٹا پروٹیکشن بل بےحد خطرناک، یہ ملک کو ’آرویلین اسٹیٹ‘ میں بدل سکتا ہے: جسٹس شری کرشنا

08:00 PM Dec 13, 2019 | دی وائر اسٹاف

جسٹس بی این شری کرشنا کی صدارت میں پرسنل ڈیٹا پروٹیکشن بل کے پہلے مسودہ کو تیار کیا گیا تھا۔ حالانکہ حکومت نےاس میں کئی ترمیم کر دیے ہیں، جس کے تحت مرکز کو یہ حق ملتا ہے کہ وہ ‘ ملک کی خودمختاری اور سالمیت کے مفاد میں’کسی سرکاری ایجنسی کو پرائیویسی کے اصولوں کےدائرے سے باہر رکھ سکتے ہیں۔

جسٹس بی این شری کرشنا،فوٹو بہ شکریہ:Rizvi Institute of Management Studies and Research

نئی دہلی: ہندوستان کے پرسنل ڈیٹا پروٹیکشن بل(پی ڈی پی) کے پہلے مسودہ کو تیار کرنے والے پینل کے صدر جسٹس(سبکدوش) بی این شری کرشنا نے بل کے آخری ایڈیشن کی تنقید کرتے ہوئے اس کو ‘خطرناک’ بتایا اور کہا کہ یہ قانون ملک کو ‘آرویلین اسٹیٹ’میں بدل سکتا ہے۔اس بل کو پرائیویسی بل بھی کہا جاتا ہے۔’آرویلین’اس حالت، خیال یا سماجی صورتحال کو کہتے ہیں جوکہ ایک آزاد اور کھلے سماج کے فائدے کے لئے تباہ کن ہے۔ جارج آرویل کی مشہور کتاب ‘1984’ کی بنیاد پر یہ صفت تیار کی گئی ہے۔

اکانومک ٹائمس کو کیے گئے ایک تبصرہ میں، سبکدوش جج نے ذکر کیا کہ نریندر مودی حکومت نے اصل مسودہ میں موجودحفاظتی تدابیر کو ہٹا دیا ہے۔ بی این شری کرشنا نے کہا، ‘انہوں نے حفاظتی تدابیر کو ہٹا دیا ہے۔ یہ سب سے خطرناک ہے۔ حکومت کسی بھی وقت خودمختاری کی بنیاد پر پرسنل ڈیٹا یا سرکاری ایجنسی کے ڈیٹا کا استعمال کر سکتی ہے۔ اس کے خطرناک اثرات ہو سکتے ہیں۔ ‘

اس بل کے آخری ایڈیشن کو اسی ہفتے لوک سبھا میں پیش کیا گیا اور بعد میں اس کو پارلیامنٹ کی مشترکہ کمیٹی کے پاس بھیج دیا گیا۔ یہ بل مرکز کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ ‘ ملک کی خودمختاری اورسالمیت کے مفاد میں’کسی سرکاری ایجنسی کو پرائیویسی اصولوں کے دائرے سے باہر رکھ سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر جسٹس شری کرشنا کمیٹی نے ڈرافٹ بل میں کہا تھا کہ کسی کو بھی چھوٹ تبھی دی جانی چاہیے جب اس کو مخصوص قانون کا سہارا دیا گیا ہو۔

 کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہاتھا، ‘ریاست کی حفاظت کے مفادات میں پرسنل ڈیٹا کی پروسیسنگ کرنے کی اجازت تب تک نہیں دی جائے‌گی جب تک کہ یہ قانون کے مطابق مجاز نہ ہو، اور قانون سازمجلس کےذریعے بنائے گئے اور اس طرح کے قانون کے مطابق ہو۔ ‘رپورٹ میں آگے کہا گیا،’کسی بھی جرم یا قانون کے کسی اور طرح  کی خلاف ورزی کو روکنے، پتہ لگانے، تفتیش اور مقدمہ چلانے کے مفادات میں پرسنل ڈیٹا کی پروسیسنگ کی اجازت نہیں دی جائے‌گی، جب تک کہ یہ قانون سازمجلس اور ریاستی مجلس قانون ساز کے ذریعے بنائے گئے قانون کے ذریعےمجازنہ ہو اور اس کے لئے ضروری ہو۔ ‘

حالانکہ حکومت نے ان نکات پر ترمیم کرکے اس کو بےحد کمزور کر دیا ہے۔

 بل کے آخری ایڈیشن کے مطابق،’جہاں مرکزی حکومت مطمئن ہے کہ اس میں ہندوستان کی خودمختاری اور سالمیت، ریاست کی حفاظت، غیر ملکی ریاستوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات، عوامی انتظام کا مفاد ہے یاہندوستان کی خودمختاری اور سالمیت سے متعلق کسی بھی سنگین جرم کو روکنے کے لئے،ریاست کی حفاظت، غیر ملکی ریاستوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات، عوامی انتظام کا معاملہ ہے تو ایسی حالت میں ہدایت دی جا سکتی ہے کہ اس قانون کے تمام یا کوئی بھی اہتمام ایسے پرسنل ڈیٹا کی پروسسنگ کے متعلق  حکومت کی کسی بھی ایجنسی پر نافذ نہیں ہوں‌گے۔ ‘

جسٹس شری کرشنا نے کہا کہ ایسے اہتماموں کو ہٹایا جانا چاہیے۔ ریٹائر جج نے کہا، ‘ مشترکہ سلیکٹ کمیٹی کےپاس اس میں تبدیلی کرنے کا حق ہے۔ اگر وہ مجھے بلاتے ہیں تو میں ان کو بتاؤں‌گاکہ یہ بکواس ہے۔ میرا ماننا ہے کہ سرکاری پہنچ پر عدالتی نگرانی ہونی چاہیے۔ ‘انہوں نے کہا، ‘ یہ بل کوکمزور کر دے‌گا اور ہندوستان کو آرویلین اسٹیٹ میں تبدیل کر دے‌گا۔ ‘