ہندوستان کی تاریخ میں یہ درج کیا جائے گا کہ جب ہندوستانی سیکولرازم کی عمارت گرائی جارہی تھی تو ہمارے کئی جج صاحبان نے اس کی بنیاد کھودنے کا کام کیا تھا۔ اس میں جسٹس چندر چوڑ کا نام سرخیوں میں ہوگا۔
(تصویر بہ شکریہ: یوٹیوب/وکی پیڈیا)
خبر ہے کہ بابری مسجد کی زمین کی ملکیت کے تعین کے معاملے میں جب کوئی راستہ نہیں نکل رہا تھا، تب ملک کے چیف جسٹس
ڈی وائی چندر چوڑ اپنے بھگوان کے سامنے مراقبہ میں بیٹھ گئے تھے اور کہا تھا کہ اب تم ہی کوئی راستہ دکھلاؤ۔ یہ چندر چوڑ صاحب نے اپنے گاؤں والوں کو بتلایا۔ مطلب یہ کہ جو فیصلہ جسٹس چندر چوڑ اور ان کے جج برادران نے دیا، وہ ان کا نہیں تھا، ایشورکالکھوایا ہوا تھا۔
لیکن یہ کہہ کر چندرچوڑ صاحب نے ایک طرح سے یہ تسلیم کر لیا ہے کہ فیصلہ ان کا لکھا ہوا تھا، جس پر باقی 4 جج برادران راضی ہوگئے۔ ان کے اس بیان سے اس سوال کا بھی جواب مل گیا کہ کیوں فیصلے پر کسی جسٹس کے دستخط نہیں تھے۔ یعنی آج تک لوگ صرف اندازہ لگا رہے تھے کہ فیصلہ کس نے لکھا۔فیصلے کی زبان اور اسلوب کو دیکھ کر یہ سرگوشیاں ہو رہی تھیں کہ یہ اسی کا کمال ہو سکتا ہے، جو فصاحت و بلاغت کا ہنر رکھتاہو، جو خیالات کی قلابازیوں کا ماہر ہو۔ اب معلوم ہوا کہ یہ تو ایشور نے لکھوایا تھا، جج صاحبان نے صرف محرر کا کام کیا تھا۔
جسٹس چندر چوڑ نے یہ نہیں کہا کہ وہ اکیلے ایشورکے سامنے گئے یا پانچوں ججوں نے اجتماعی طور پر ایشور سے پرارتھنا (دعا)کی۔ اپنی اجتماعی نااہلی کا اظہار کیا اور ایشور سے مداخلت کی درخواست کی۔ کیا سب کو بھگوان کی آواز ایک ہی طرح سے سنائی پڑی؟
یہ سن کرایشور کو ماننے والے کئی لوگوں کی آستھا چور چور ہوگئی ہوگی۔ میں اپنے جیسوں کی بات نہیں کر رہا، لیکن کئی کرم کانڈی (مذہبی اعمال کرنے والے) اور دوسرے مذہبی لوگ اس فیصلے کو پاپ مان رہے تھے۔ رام کے کئی عقیدت مند بھی دکھی تھے کہ یہ ناانصافی ان کے بھگوان کے نام پر کی گئی۔ انہیں اس بات سے دکھ ہوا تھا کہ وشو ہندو پریشد کو رام کا سرپرست یا دوست مان لیا گیا اور رام ہمیشہ کے لیے نابالغ مان لیے گئے جن کے مفادات کے بارے میں ان سے زیادہ پریشد کو پتہ ہے ۔رام خود اپنے مفادات کی حفاظت نہیں کر سکتے۔
چندرچوڑ صاحب نے یہ نہیں بتایا کہ انہوں نے کس بھگوان سے درخواست کی۔ انہوں نے اپنے گاؤں والوں کو بتایا کہ وہ کافی عرصے سے پوجا کر تے آ رہے ہیں۔ ہم نے حال ہی میں اس کا ایک ثبوت دیکھا۔ وہ ملک کے وزیر اعظم کے ساتھ گنیش کی پوجا کر رہے تھے۔ اس تصویر سے ایسا لگ رہا تھا کہ بنیادی طور پر پوجا تو وزیر اعظم کر رہےتھے۔ وہ اور ان کی اہلیہ معاون کے طور پروزیر اعظم کے سر سے سر ملانے اور گھنٹی بجانےکا کام کر رہے تھے۔
کیا ان کے ساتھ ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ کوئی طاقتور آکر دیوتا یا دیوی کے آگے کی جگہ لے لیتا ہے اور وہ اس کے ساتھ والی جگہ؟
کسی نے کہا کہ ان کے ایشور کے حل کواللہ کو ماننے والے جج نے بھی مان لیا، تو کیا چندرچوڑ صاحب نراکار(جس کی شکل وشباہت نہ ہو) کے سامنے مراقبہ کر کے حل کی درخواست کر رہے تھے؟
اس سے پہلےانہوں نے اپنے مذہبی ہونے کا ثبوت دیا تھاگجرات کے دورے میں۔ دوارکادھیش اور سومناتھ کے مندروں کا دورہ انہوں نے اہلیہ کے ساتھ کیا اور اس بات کو یقینی بنایا کہ اسے ریکارڈ کرکے بڑے پیمانے پ نشر کیا جائے۔ یہ ممکن نہیں تھا کہ ان کے علم اور اجازت کے بغیر ان کا یہ ذاتی سفر عوامی بحث کا موضوع بن جائے۔
گجرات کے اپنے سفر کے دوران، انہوں نے مندروں پر لہراتے مذہبی جھنڈوں کو دیکھ کر تحریک حاصل کی۔ انہوں نے کہا کہ دوارکادھیش پر جھنڈا دیکھ کر انہیں جگن ناتھ پوری کا جھنڈا یاد آیا: ‘ہمارے ملک کی روایت کی آفاقیت کو ذرا دیکھیے،یہ ہم سب کو باندھتی ہے۔ یہ جھنڈا ہم سب کے لیے ایک خاص معنی رکھتا ہے۔ ہم سب کے،(وکیل، جج، شہری) اوپر ہمیں متحد کرنے والی ایک قوت ہے جو قانون کی حکمرانی اور ہندوستان کے آئین کے تحت چلتی ہے۔’
ممکن ہے دوارکادھیش مندر کے اوپر جھنڈا دیکھ کر چندرچوڑ صاحب کو پوری کا جھنڈا یادآ جائے۔ لیکن کیا یہ اسی ملک کی متحد کرنے والی روایت ہے؟ ہم سب کے اوپر کی طاقت کو ن ہے؟ کیا اس کی علامت مذہبی جھنڈا ہو سکتا ہے؟
وزیر اعظم کا اپنے ووٹروں کے سامنے اپنی مذہبیت کا اظہار کرنا سمجھ میں آتا ہے، لیکن اگر جج ایسا کرنے لگیں اور اپنے فیصلوں کی تحریک اپنے مذہب یا ایشور کو بتانا شروع کر دیں تو سب کا عدالت پر سے بھروسہ اٹھ جائے گا۔
بابری مسجد کیس کو حل کرنے کی ذمہ داری لے کر ہی ہمارے ججوں نےغلطی کی تھی۔ یہ ان کی استطاعت سے باہر کا معاملہ تھا۔ ان کے سامنے بابری مسجد کی زمین کی ملکیت کا فیصلہ کرنے کا معاملہ تھا۔ انہوں نے خود اعتراف کیا کہ مسجد اس زمین پر صدیوں سے کھڑی تھی۔ یہ ایک زندہ مسجد تھی، وہاں 400 سال سے عبادت کی جا رہی تھی۔ عدالت نے یہ بھی قبول کیا کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ اسے کسی مندر کو گرا کر بنایا گیا تھا۔ اس کو انہوں نے متعلقہ بھی نہیں مانا تھا۔ یہ بھی اعتراف کیا کہ 1949 میں ہندو دیوی دیوتاؤں کی مورتیوں کو رات کے اندھیرے میں
چوری چوری مسجد میں رکھا گیا تھا۔ ججوں کے مطابق یہ جرم تھا۔
اسی طرح 6 دسمبر 1992 کو مسجد کا انہدام بھی ایک مجرمانہ فعل تھا، یہ تمام ججوں نے کہا۔ لیکن یہ سب کہنے کے بعد انہوں نے کہا کہ مسجد کی زمین رام کے سرپرست یا دوست کو دے دینی چاہیے۔ یعنی اسی کو جس نے عدالت کی زبان میں دو بار جرم کیا تھا:ایک بار 1949 میں اور پھر 1992 میں۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ بے چارے بار بار جو فساد یا جرائم بابری مسجد میں کر رہے تھے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ اس پر مسلسل اپنا دعویٰ پیش کر رہے ہیں۔ اس دعوے کو کیسےٹھکرایا جا سکتا ہے؟
اس عدالتی قلابازی کے ذریعے بابری مسجد کی
زمین کی ملکیت انہی کو دی گئی جنہوں نے وہاں جرائم کیے تھے۔
کیا ایشور نے، وہ رام ہو یا شیو یا کرشن، نے ہمارے جج صاحبان کو اس عدالتی ہوشیاری کو انجام دینے کی ترغیب دی تھی؟ کیا اس نے انہیں آئینی انصاف کا راستہ چھوڑ کر تعداد اور اقتدار کو خوش کرنے کا حکم دیا تھا؟ جو بات ایک عام آدمی دیکھ سکتا تھا، کیا کسی قادر مطلق ایشور کی نگاہ سے یہ بات اوجھل رہ سکتی تھی کہ یہ جج دراصل انصاف کے نام پر ناانصافی کر رہے تھے۔
یہ ناانصافی جسٹس چندر چوڑ نے جاری رکھی جب انہوں نے گیان واپی مسجد کے سروے کی اجازت دیتے ہوئے کہا کہ درخواست گزاروں کے تجسس کی تکمیل ضروری ہے۔یہ بے چارے صرف یہ جاننا چاہتے ہیں کہ مسجد کے اندر کیا ہے۔ اب مسجد کے تہہ خانے میں پوجا ہو رہی ہے اور اس کے ایک حصے پر مسلمانوں کی ملکیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ کیا اس فیصلہ کی تحریک بھی ایشور نے دی تھی؟
ہمیشہ مسکراتے چہرے والے چندر چوڑ صاحب نے جیلوں میں بند عمر خالد جیسےلوگوں کی ضمانت عرضی ویسے بنچ کو دی جو کبھی حکومت کے ناقدین کو راحت نہیں دیتی،تو انہوں نے طے کردیا کہ عمر کے ساتھ ہونے والی ناانصافی جاری رہے۔ یہ سچ ہے کہ انہوں نے سائی بابا کی بریت پر روک لگانے سے انکار کیا تھالیکن یہ بھی سچ ہے کہ انہوں نے اس معاملے کوکھلا رکھا۔
پریم چند کی کہانی ‘پنچ پرمیشور’ میں لوگوں کے اس عقیدے کو ثابت کیا گیا ہے کہ پنچ میں پرمیشور ہوتا ہے۔ یعنی وہ دنیاوی محبت، لالچ اور خوف سے اوپر اٹھ جاتا ہے۔ لیکن جسٹس چندر چوڑ اور ان کے برادران کے طرز عمل سے یہ نہیں معلوم ہوتا، وہ دنیاوی معاملات سے بری طرح لپٹے ہوئے ہیں۔ بابری مسجد کی زمین اہل اقتدار کو تحفے میں دینے کے بدلے میں ان میں سے ایک کو راجیہ سبھا کی رکنیت ملی۔ ایک کو گورنر کا عہدہ ملا۔ پھر ابھی اگر لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ جسٹس چندر چوڑ جو اپنی مذہبیت کا مظاہرہ کرنے لگے ہیں ، وہ کسی روحانی وجہ سے نہیں تو کیا وہ غلط ہیں؟
لیکن جسٹس چندر چوڑ کو معلوم ہونا چاہیے کہ عدالت کے ادارے کی عمر ان سے کہیں زیادہ ہے۔ جس طرح تاریخ نے ان کے والد کی ناانصافی کو قلمبند کیا ہے، ایک وقت ضرور آئے گا جب وہ ان کی اور ان کے کئی برادران کی اخلاقی پستی کو نوٹ کرے گی۔ تب یہ درج کیا جائے گا کہ جب ہندوستانی سیکولرازم کی عمارت گرائی جا رہی تھی تو ہمارے کئی جج صاحبان نے اس کی بنیاد کھودنے کا کام کیا۔ جسٹس چندر چوڑ کا نام اس میں سرخیوں میں ہوگا۔
یہ توقع نہیں ہے کہ ہندوستان میں کبھی نیورمبرگ مقدمہ ہوگا، لیکن تاریخ ضرور لکھی جائے گی۔ حال ہی میں چندر چوڑ صاحب کو یہ فکر بھی ہونے لگی ہے کہ تاریخ انہیں کیسے یاد رکھے گی۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ خودکو اس لائق تو مانتے ہی ہیں کہ وہ تاریخ کے فٹ نوٹ میں نہیں رہیں گے۔ تاریخ انہیں کیسے یاد رکھے گی اس کاانتظام تو وہ خود کیے دے رہے ہیں۔ وہ اتنے شفاف ہو چکے ہیں کہ اب کسی کھوج بین کی ضرورت نہیں بچی۔
(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)