انٹرویو: اتر پردیش کے مرزاپور کے ایک سرکاری اسکول میں مڈ-ڈے میل کے تحت بچوں کو نمک اور روٹی دئے جانے کی خبر کرنے کی وجہ سے صحافی پون جیسوال کے خلاف ضلع انتظامیہ نے مقدمہ درج کرا دیا ہے۔ دی وائر سے خصوصی بات چیت میں پون نے اس معاملے اور اپنی صحافتی زندگی کے بارے میں بتایا۔
گزشتہ 23 اگست کو اتر پردیش کے مرزاپور کے ایک سرکاری اسکول میں مڈ-ڈے میل اسکیم کے تحت بچوں کو
نمک اور روٹی دیے جانے کا معاملہ سامنے آیا تھا۔ اس معاملے کا ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر کافی وائرل ہوا تھا۔اپنے اخبار جن سندیش ٹائمس کے لئے اس کی رپورٹنگ کرنے والے صحافی پون جیسوال نے یہ ویڈیو بنایا تھا۔ مڈ-ڈے میل میں بچوں کو نمک-روٹی بانٹنے کے قصوروار لوگوں کے خلاف کارروائی کے بعد ضلع انتظامیہ نے پون کے خلاف بھی کئی دفعات میں معاملہ درج کرا دیا ہے۔ اس پورے تنازعے پر پون جیسوال سے وشال جیسوال کی بات چیت۔
آپ نے مرزاپور کے ایک پرائمری اسکول میں مڈ-ڈے میل میں بچوں کو نمک-روٹی دیے جانے کی اسٹوری کی۔ اس پر انتظامیہ نے آپ کے خلاف مقدمہ درج کرا دیا ہے۔ یہ پورا معاملہ کیا ہے؟
22 اگست کی صبح تقریباً11 بجے میرے سورس کا فون آیا۔ اس نے مجھے ایک اطلاع دیتے ہوئے بتایا کہ یہاں پر بہت زیادتی ہو رہی ہے، بچوں کو کئی دنوں سے نمک-روٹی اور نمک-چاول دیا جا رہا ہے۔اس اطلاع پر میں تقریباً 12 بجے گھر سے نکلا۔ اسکول پہنچنے سے پہلے میں نےاے بی ایس اے برجیش سنگھ کو فون کر اطلاع دی کہ میں ہنوتا گرام سبھا واقع شیور پرائمری اسکول جا رہا ہوں۔ اس پر اے بی ایس اے نے ٹھیک ہے کہہکر فون کاٹ دیا۔
اسکول پہنچنے کے بعد سب لوگ مجھے ایک ٹک دیکھنے لگے تو میں نے ان سے کہا کہ آپ لوگ اپنا کام کیجئے اور ہمیں اپنا کام کرنے دیجئے۔ حالانکہ اس وقت وہ سمجھ نہیں پائے تھے کہ میں صحافی ہوں یا ٹیچر یا کوئی اور۔اس کے بعد میں نے پورا واقعہ اپنے کیمرے میں ریکارڈ کرنا شروع کر دیا۔ میں نے وہاں دیکھا کہ ایک بالٹی میں روٹی رکھی ہوئی ہے۔ بچے تھالی لےکر اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔ بچوں کو پہلے روٹی دی گئی اور پھر نمک دیا گیا۔
یہ سب دیکھکر میرا سینہ چھلنی ہو گیا لیکن پھر بھی میں نے ویڈیو پورا کیا۔ کھانے کے بعد میں نے 10-15 بچوں سے بات کی۔ میں نے اسکول کے شکچھامتر اور وہاں موجود گاؤں والوں سے بھی بات کی۔ وہاں سے آنے کے بعد میں نے اپنے اخبار کے لئے رپورٹ فائل کر دی۔
رپورٹ فائل کئے جانے کے بعد انتظامیہ کی طرف سے کیا رد عمل آیا اور انہوں نے کیا کارروائی کی؟
اپنے اخبار کے لئے رپورٹ کرنے کے بعد میں نے اس کی اطلاع ضلع کے الکٹرانک میڈیا کے دوستوں کو دی۔ اس پر کچھ صحافی دوست کلکٹر کے پاس گئے اور ان سے اس معاملے پر سوال پوچھا۔ اس پر کلکٹر نے تفتیش کراکے بتانے کی بات کہی۔ انہوں نے تحصیل دار اور ایس ڈی ایم چنار کو ہدایت دی کہ آپ اس کی تفتیش کرکے بتائیے کہ پورا معاملہ کیا ہے۔جانچکے بعد تحصیل دار اور ایس ڈی ایم چنار نے کلکٹر کو بتایا کہ معاملہ صحیح ہے۔ اسکول میں مڈ-ڈے میل میں نمک-روٹی ہی دیا گیا۔ وہاں سے تفتیش رپورٹ آنے کے بعد 5-6 بجے کلکٹر نے بیان دیا کہ یہ معاملہ صحیح ہے۔
انہوں نے دو اساتذہ، این سی آر پی افسر (نیا پنچایت ری سورس سینٹر)اور مڈ-ڈے میل انچارج کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے ان کو معطل کرنے کی بھی بات کہی۔ ان دو اساتذہ کو معطل کئے جانے کے بعد لگاتار پانچ-چھ تفتیش ہوئی، جس میں محکمہ تعلیم کے پانچ-چھ افسروں کے خلاف کارروائی کی گئی۔اس کے بعد 23 اگست کو کلکٹر خود اسکول کی تفتیش کرنے گئے۔ وہاں انہوں نے بند کمرے میں بچوں، شکچھامتروں اور میس کے ملازمین سے پوچھ تاچھ کی۔ اسکول کے کمرے سے باہر نکلنے کے بعد ہم لوگوں نے ان کا بیان لیا جس میں انہوں نے کہا کہ یہ بات سچ ہے کہ نمک روٹی دی گئی تھی۔ اس دوران کلکٹر نے خود قبول کیا کہ اس واقعہ سے ایک دن پہلے بچوں کو نمک-چاول دیا گیا تھا۔
بچوں کو نمک-روٹی دینے کے ذمہ دار لوگوں کے خلاف کارروائی کرنے کے بعد انتظامیہ نے اچانک آپ کے خلاف کارروائی کرنے کا دل کیوں بنا لیا؟
کلکٹر کی تفتیش کرنے کے چار-پانچ دن بعد 27 اگست کو ایک اور تفتیش ہوتی ہے۔ اس بار چیف ڈیولپمنٹ افسر (سی ڈی او) میڈم آتی ہیں۔ وہ باقی لوگوں کا بیان لیتی ہیں۔ سب لوگ ویڈیو میں بیان صحیح دیتے ہیں لیکن وہ رپورٹ میں پورا بیان بدل دیتی ہیں۔
فوٹو: بہ شکریہ ویڈیو گریب، ٹوئٹر
پورے معاملے کی دوبارہ تفتیش کرنے کے بعد وہ رپورٹ سونپ دیتی ہیں۔ اس طرح خبر چھپنے کے تقریباً 10 دن بعد 31 اگست کی رات کو کلکٹر کی ہدایت پربی ایس اے دفتر کے ذریعے میرے، میرے سورس اور ایک سینئر معاون کے خلاف مقدمہ درج کرایا جاتا ہے کہ ہم نے سازش کے تحت ویڈیو تیار کروایا ہے۔میرے خلاف 420، 120بی، 193، 186 کا مقدمہ درج کرایا گیا۔ اس سے میں اور میرے اہل خانہ کافی پریشان ہیں۔ سات-آٹھ دن سے فکر کی وجہ سے میں کچھ کھا-پی نہیں پا رہا ہوں۔ مجھے مقامی اور قومی میڈیا اور صحافیوں کی کافی حمایت مل رہی ہے۔
ضلع کے کئی صحافیوں نے مجھے بتایا کہ اسکول میں بند کمرے کے پیچھے کلکٹر انوراگ پٹیل نے کہا کہ اس صحافی نے میری امیج خراب کی ہے، میں اس کو برباد کرکے چھوڑوںگا۔ہمارے کچھ صحافی دوست بتا رہے ہیں کہ جن لوگوں نے اس معاملے میں بیان دیا ہے، ان کو 50 ہزار سے لےکر ایک-ڈیڑھ لاکھ روپے دینے کی لالچ دی جا رہی ہیں۔
کلکٹر نے کہا ہے کہ پرنٹ میڈیا کا صحافی ہوکر آپ نے ویڈیو کیوں بنایا؟ اس پر کہنا چاہتے ہیں؟
میرا اخبار جن سندیش ٹائمس لکھنؤ سے شائع ہوتا ہے۔ اس کی ویب سائٹ اور یوٹیوب چینل بھی ہے۔ وہاں ہمارے ویڈیو بھی جاتے ہیں۔ ان کو کوئی جانکاری ہی نہیں ہے۔ پڑھا-لکھا ہونے کے باوجود اگر کوئی ایسا بیان دے رہا ہے تو وہ انجانے میں نہیں بلکہ کسی سازش کے تحت ہی دے رہا ہوگا۔میں ایک سورس ہوں اور بیورو کو خبریں لاکر دیتا ہوں۔ بیورو ہرجگہ جا نہیں سکتا ہے، اس لئے وہ ہم سے خبریں منگاتے ہیں۔ اس میں یہ شرط ہوتی ہے کہ خبر پکی ہونی چاہیے اور ویڈیو کے ساتھ ہونی چاہیے۔ اتنا حق تو ایک عام آدمی کو بھی ہوتا ہے کہ وہ ویڈیو بناکر کارروائی کے لئے کسی کو بھی دے سکتا ہے۔
یہ مجرمانہ تو نہیں نکسل متاثر ہ علاقہ ہے۔ یہاں معدنیات کی بھی کثرت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں پر غیر قانونی کام اور دیگر واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ قتل وغیرہ تو نہیں لیکن کئی دیگر طرح کے جرائم ہوتے رہتے ہیں۔ ان سب کی اسٹوری کرکے میں باقی میڈیا اداروں کو دیتا ہوں۔ اس طرح سے ہم سماج کی اصلاح کا بھی کام کرتے ہیں تاکہ ایسے کام نہ ہوں۔میری تین-چار خبریں روز اخبار میں چھپتی ہیں۔ حادثہ وغیرہ کی خبروں کو رپورٹ کرتا ہوں اور پولیس تصادم، مافیاگری، غیر قانونی کام، قتل وغیرہ کی بڑی خبروں کا ویڈیو کوریج بھی کرتا ہوں۔
آپ صحافت کے شعبے میں کیسے آئے؟
میں مرزاپور کے اہرورا قصبے کا رہنے والا ہوں۔ میں نے یہاں کے ونستھلی مہاودیالیہ سے پڑھائی کی ہوئی ہے اور میں بی کام فیل ہوں۔ میرے شناسا کئی لوگ صحافی تھے اور ان کے ساتھ جاکر میں ویڈیو بناتا تھا، کوریج کرتا تھا اور اس طرح سے آہستہ آہستہ میں اس لائن میں آ گیا۔شروعاتی دور میں چار سال تک میں بی جے پی کے مقامی یووا مورچہ کا جنرل سکریٹری رہا ہوں، لیکن صحافت میں آنے کے بعد میں نے یہ سب چھوڑ دیا ہے۔
پنجاب نیشنل بینک سے دو لاکھ روپے کا لون لےکر میں نے ایک موبائل کی دکان بھی کھولی ہوئی ہے۔ اپنے اور اپنی فیملی کے گزر بسر کے لئے کما لیتا ہوں۔ میں پچھلے ڈھائی سال سے جن سندیش ٹائمس کے ساتھ جڑا ہوا ہوں۔ اس سے پہلے پانچ-چھ سال تک میں الکٹرانک میڈیا سے جڑا رہا۔ میں دہلی کے بڑے میڈیا اداروں کے صحافیوں کے سورس یا معاون کے طور پر کام کرتا تھا۔میں نے آج تک، اے این آئی، نیوز 24 اور این ڈی ٹی وی جیسے اداروں کے لئے غیرسرکاری طور پر کام کیا ہے۔ یہ لوگ بولتے تھے کہ ایک ویڈیو بناکر دے دو اور ہم تم کو پٹرول کا پیسہ دے دیںگے۔ میں ان کے لئے اسٹرنگر نہ ہوکرصرف معاون یا سورس تھا۔
مرزاپور ضلع کا وہ اسکول، جہاں مڈ-ڈے میل میں بچوں کو نمک-روٹی کھلانے کا معاملہ سامنے آیا۔ (فوٹو بشکریہ : پون جیسوال)
میری فیملی میں چھ بہنیں ہیں اور پانچ بھائی ہیں۔ والد کی اسٹیشنری کی دکان ہے۔ انہی کے ٹھیک بغل میں میری موبائل کی دکان ہے۔ میرا چھوٹا بھائی انجینئرنگ کی پڑھائی کرکے بےروزگار بیٹھا ہوا ہے۔ میرے بڑے بھائی نے کمپاؤنڈر کی پڑھائی کی ہے لیکن وہ بھی بےروزگار ہے۔ایک اور چھوٹا بھائی بی اے کر چکا ہے۔ پانچ بہنوں کی شادی ہو گئی ہے اور سب سے چھوٹی بہن ابھی پڑھائی کر رہی ہے۔ ہر دو-تین سال پر ایک بھائی بہن کی شادی ہوتی ہے۔
اس پورے معاملے میں آپ کے تئیں آپ کے ادارے کا رویہ کیسا رہا؟
ہمارے مدیر، بیورو چیف، تمام صحافی دوست اور ضلع کے تمام اخباروں اور الکٹراانک میڈیا کے صحافی دوست ہمارے ساتھ ہیں۔ ہمارے مدیر نے ہم سے کہا ہے کہ بیٹا ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اسی طرح سے لگے رہو، کام کرتے رہو۔ بہت اچھا کام کر رہے ہو۔ جن اداروں کے لئے میں نے پہلے کام کیا ہوا ہے، انہوں نے بھی میری مدد کی۔
ضلع انتظامیہ نے آپ کے خلاف کارروائی کی ہے لیکن اس پورے معاملے میں حکومت کے کردار کو کیسے دیکھتے ہیں؟
حکومت سے کوئی دقت نہیں ہے۔ ضلع انتظامیہ خود بچنے کے لئے حکومت کو بدنام کر رہا ہے۔ کلکٹر صاحب غلط بیان بازی کر رہے ہیں۔ پوری غلطی سی ڈی او میڈم کی ہے جبکہ کلکٹر سی ڈی او میڈم کی غلطی پر پردہ ڈال رہے ہیں اور خود غلط بن گئے ہیں۔اگر ہمارے ساتھ انصاف نہیں ہوگا تو حکومت کی ہی غلطی ہوگی اور اگر ہمارے ساتھ انصاف ہوگا تو ہمیں حکومت کے اوپر پورا بھروسہ ہے۔ اس کی وجہ ہے کہ میں نے حکومت کو راستہ دکھایا کہ دیکھیے آپ مڈ-ڈے میل کے نام پر پیسہ بھیجتے ہیں اور نیچے والے لوگ پیسہ کھا جا رہے ہیں۔
حکومت کی منشا کے برعکس کام کرنے والوں کے خلاف کام کرنے والے خراب افسروں کے خلاف خبر شائع کرکے کیا میں نے بہت بڑا گناہ کر دیا ہے۔ حسد کی وجہ سے میرے خلاف کارروائی ہو رہی ہے۔میرا ماننا ہے کہ جب ہماری حکومت اچھا کام کر رہی ہے، مودی جی اور یوگی جی اتنا اچھا کام کر رہے ہیں تو یہ خراب افسر اتنی گندگی کیوں کرتے ہیں۔ انہی سب چیزوں کو لےکر میں انکشاف کرتا ہوں۔
پچھلے کچھ عرصہ میں اترپردیش حکومت کے ذریعے کئی صحافیوں کے خلاف کارروائی ہوئی ہے، مقدمہ درج ہوئے ہیں اور ان کی گرفتاری ہوئی ہے۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ اتر پردیش میں صحافیوں کو خاموش کرانے کے لئے یہ کارروائیاں کی جا رہی ہیں؟
ہمیں حکومت کی اچھائیاں نہیں دکھتی ہیں، برائیاں دکھتی ہیں اور ہم برائیوں کو رپورٹ کرتے ہیں۔ اس سے حکومت کو پتہ چلتا ہے کہ یہاں پر خراب افسر ہیں۔ لیکن کچھ افسر حکومت کو خوش کرنے کے لئے یہ مان لیتے ہیں کہ ہم ان کے مخالف ہیں اور ہمارے خلاف کارروائی کرتے ہیں۔حکومت تو تفتیش کرواکے ہی کلین چٹ دیتی ہے لیکن خراب افسروں کے خلاف کارروائی نہیں کرتی ہے، کیونکہ وہ ضلع کے راجا ہوتے ہیں۔ ضلع کے راجا کچھ بھی کر سکتے ہیں، ہمارا آپ کا فون ٹیپ کرا سکتے ہیں، ایک منٹ میں ہمیں فراڈ ثابت کر سکتے ہیں۔
آپ اب آگے کیا دیکھتے ہیں؟
میں پچھلے تین-چار دن سے لگاتار کلکٹریٹ کے چکر لگا رہا ہوں۔ تھانے کے بھی رابطہ میں ہوں۔ حالانکہ پولیس کا کہنا ہے کہ فی الحال میرے خلاف کچھ نہیں ملا ہے۔ میں ابھی اپنا کام کر رہا ہوں۔ ایک بات صاف ہے کہ مجھے ضلع انتظامیہ پر بالکل بھروسہ نہیں ہے کبھی بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے۔کلکٹر، ایس ڈی ایم، پٹواری اور کئی دیگر افسروں نے دورہ کیا اور ان کی رپورٹ میں میرے خلاف کچھ نہیں تھا تو سی ڈی او میڈم اپنی رپورٹ میں ایسا کیا کر دیتی ہیں کہ جس میں مجھے مجرم بنا دیا جاتا ہے۔