بڑا سوال ہے کہ اوبامہ نے مشرق وسطیٰ میں جس طرح امیدیں جگائیں تھیں، کیا بائیڈن ان میں کوئی رمق پیدا کرنے میں کامیاب ہو پائیں گے؟ بارہ سال قبل کا خوشگوار ماحول اب نفرت میں تبدیل ہو گیا ہے۔
بارہ سال قبل جب ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار براک اوبامہ نے امریکہ میں عہدہ صدارت سنبھالا، تو عرب ممالک خصوصاًفلسطین میں خاصی امیدیں بندھی ہوئی تھیں۔ مجھے یاد ہے کہ مسلم آؤٹ ریچ کے پلان کے تحت ا مریکی انتظامیہ نے چنندہ ہندوستانی مسلمانوں کے ایک وفد کو واشنگٹن بلایا تھا۔
واپسی پر اس کے ایک رکن انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر کے صدر سراج قریشی نے باضابطہ ایک پریس کانفرنس منعقد کرکے یہ مژدہ سنایا کہ بس ایک برس کے اندر عالم اسلام کا سب سے بڑا مسئلہ فلسطین حل ہونے والا ہے۔ جب ان سے مزید استفسار کیا گیا، تو ان کا کہنا تھا کہ خود صدر اوبامہ نے وہائٹ ہاوس میں ان کو یہ یقین دہائی کروائی ہے۔
نوبل انعام کمیٹی نے بھی شاید انہی امیدوں کی وجہ سے2009 میں اوبامہ کو پیشگی نوبل پرائز برائے امن سے سرفراز کیا تھا۔ کمیٹی نے سند میں لکھا تھا: ”شاذو ناز ہی کسی فرد نے اس حد تک دنیا کی توجہ حاصل کی ہے اور عوام کو بہتر مستقبل کی امید دی ہے۔ ان کی(اوبامہ) سفارت کاری کی اساس ان اصولوں پر قائم ہے کہ رہنمائی کرنے والے افراد کو ایسے اقدار اور رویے اپنانے چاہیے، جو دنیا کی اکثریتی آبادی کے ساتھ مشترک ہو۔“
مگر ان کے عہدہ صدارت کے اختتام تک سبھی امیدیں معدوم ہو چکی تھیں۔ امن تو دور کی بات، جاتے جاتے وہ مشرق وسطیٰ کو مزید گردآب میں چھوڑ کر گئے۔ یمن،شام اور لیبیا میں خانہ جنگی، ترکی میں منتخبہ حکومت کے خلاف فوجی بغاوت کی پشت پناہی اور مصر میں نئی نویلی جمہوریت کو قتل کرنے جیسے کئی نہ مٹنے والے داغ لےکراوبامہ وہائٹ ہاوس سے رخصت ہوگئے۔
اوبامہ کی تخت نشینی کے بارہ سال بعد جوں جوں جوبائیڈن کی صدات سنبھالنے کی تاریخ قریب آرہی ہے، ایک بار پھر مشرق وسطیٰ امید اور تذبذب کی کیفیت میں ہے۔ گو کہ یہ لگ رہا ہے کہ وہائٹ ہاوس میں کرسی سنبھالنے کے بعد وہ ڈونالڈ ٹرمپ کی پالیسیوں سے روگردانی نہیں کریں گے، مگر بتایا جا رہا ہے کہ عرب ممالک کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی دوڑ میں فلسطینیوں کو چند رعایتیں دینا ان کے پلان میں شامل ہوگا۔
صدر ٹرمپ نے عرب ممالک کو مجبور کیا تھا کہ بغیر کسی شرط کے وہ اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کریں۔ اس کے علاوہ انہوں نے مغربی کنارہ میں مزید یہودی بستیوں کی آباد کاری کی حمایت، یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے، فلسطینی علاقوں کےلیےامداد بھی روک دی۔ اس کے علاوہ ”ڈیل آف سنچری“ کی نقاب کشائی کرکے مسئلہ فلسطین کو دفن کرنے کے سامان مہیا کروائے۔ ٹرمپ نے تو حلیف یورپی ممالک کی ناراضگی جھیلتے ہوئے، امریکی مڈل ایسٹ پالیسی کو پوری طرح الٹا کردیا۔
گو کہ اکثر ممالک نے ٹرمپ کے اپروچ کو امن عالم کےلیے خطرہ بتایا، مگر چند مبصرین کا کہنا ہے کہ ایک عرصے کے بعد کسی امریکی صدر نے فیصلے لینے کےلیے خود اعتمادی اور قوت ارادی دکھائی۔ بتایا جاتا ہے کہ ڈیموکرٹیک پارٹی کے لیڈروں میں قوت ارادی کی کمی ہوتی ہے اور وہ زیادہ تر اپنی اسٹیبلشمنٹ کے ہی دست نگر رہتے ہیں۔
ایک عرصے کے بعد وہائٹ ہاوس میں کسی نے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ، سی آئی اے اور پنٹاگون کو درکنار کرتے ہوئے فیصلے لئے۔ ٹرمپ نے امریکی افسر شاہی کو بھی زچ کیا تھا، اور پچھلے چار سالوں میں 500کے قریب افسران و وزیروں کو احکامات بجا نہ لانے پر یا تو برخاست کیا یا ان کو کم رتبہ والے عہدوں پر ٹرانسفر کیا۔ ٹرمپ کے عہدہ صدارت کے دوران یہ تو احساس ہوا کہ وہ آزادانہ فیصلے کرتے ہیں۔
اس لیے دنیا بھر کے حکمران امریکی سفیروں اور وزیروں کو درکنار کرتے ہوئے، ٹرمپ کے داماد جیرڈ کوشنر تک رسائی حاصل کرکے اپنا مطلب نکلواتے تھے۔ بائیڈن کے اقتدار میں آنے سے ایک بار پھر محکمہ خارجہ، دفاع و خفیہ اداروں کے دن پھرجائیں گے۔ ان کے تجزیے صدر کے فیصلوں پر اثر انداز ہوں گے۔ بائیڈن کے عہدہ صدارت میں امریکہ کی روایتی سفارت کاری ایک بار پھر صف اول میں آجائےگی۔
نئے امریکی وزیر خارجہ انتھونی جان بلنکن بھی ایک روایتی سفارت کار ہیں۔ مگر اس کا مطلب ہوگا کہ مختلف اداروں یعنی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ، پنٹاگون، اور سی آئی اے کے درمیان مخاصمت، رسہ کشی اور رقابت کا دور بھی واپس آجائےگا۔
بڑا سوال ہے کہ اوبامہ نے مشرق وسطیٰ میں جس طرح امیدیں جگائیں تھیں، کیا بائیڈن ان میں کوئی رمق پیدا کرنے میں کامیاب ہو پائیں گے؟ بارہ سال قبل کا خوشگوار ماحول اب نفرت میں تبدیل ہو گیا ہے۔ اسرائیل نے فلسطینی اور عرب بستیوں کو الگ تھلگ کرنے کے لیے نہ صرف دیواریں کھڑی کری دی ہیں بلکہ چند برس قبل اس خطے کا دورہ کرکے میں نے دیکھا کہ پرانے یروشلم شہر میں رہنے والے کٹر انتہا پسند یہودیوں نے بازار کے اوپر چھت تعمیر کرکے اپنے لیے الگ گزر گاہیں بنائی ہیں، تاکہ نیچے گلیوں سے گزرتے ہوئے، فلسطینی دکانداروں یا راہگیروں کے ساتھ آمنا سامنا نہ ہو۔
اس شہر سے مسلسل کسی نہ کسی بہانے عرب آبادی کو بے دخل کیا جا رہا ہے۔ 20سا ل قبل یہاں یہودیوں کی آبادی دو لاکھ تھی، جو اب چھ لاکھ سے زیادہ تجاوز کر چکی ہے اور مسلم آبادی کا تناسب 36فیصدتک گھٹ گیا ہے۔ گو کہ ڈیموکریٹک پارٹی کا ایک بااثر حلقہ یورپی ممالک کی طرح اوسلو اکارڈ کے دو اسٹیٹ فارمولہ کو تسلیم کرتا ہے، اور اس کو لاگو کروانے کو بضد ہے، مگر ڈیل آف سنچری نے سب سے پہلے اسی ایکارڈ کو دریا برد کر دیا ہے۔
اس دوران فلسطین میں بھی محمود عباس کی قیادت میں فلسطینی اتھارٹی کے وقار و اثر و نفوذ میں خاصی کمی آگئی ہے۔ اسرائیل کے نوآبادیاتی طرز عمل اور نسلی امتیاز کی پالیسی نے مسائل کو اور بھی پیچیدہ بنادیا ہے۔
جو بائیڈن کے لیے وافر موقع ہے کہ وہ اپنے متعلق منفی سوچ رکھنے والے تجزیہ کاروں کو غلط ثابت کریں۔ جو امیدیں 2009میں اوبامہ کے ساتھ لگائی گئی تھیں اور جن کو وہ سلاکر چلے گئے، ان کو جگا کر،دنیا کو ایک پیغام دیں۔ چونکہ کشمیر اور فلسطین دنیا اور عالم اسلام کے کلیدی مسائل ہیں اور جن کی وجہ سے مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا تذبذب کی کیفیت میں مبتلا ہے، اگر بائیڈن ان کو حل کی طرف گامزن کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، تودنیا ان کی احسان مند رہےگی۔
چین کے ساتھ نپٹنے یا کامرس کے نام پر اگر بائیڈن ہندوستان کو رعا یتیں دلواتے ہیں، تو ان کی نتظامیہ کے لیے لازم ہے کہ اس کے بدلے وزیر اعظم مودی کی حکومت کو اقلیتوں کے تئیں اپنے رویہ میں تبدیلی کرنے اور کشمیر کے حوالے سے کسی مثبت پیش رفت کرنے پر مجبور بھی کریں۔ یہ رعایتیں یک طرفہ نہیں ہونی چاہیے۔ کورونا وائرس اور اس سے نمٹنے میں دینا کی بے بسی نے یہ تو ثابت کر دیا ہے کہ دنیا سیاسی بے چینی اور ہتھیاروں کی دوڑ کی اب متحمل نہیں ہوسکتی ہے۔ سبھی ممالک کو صحت عامہ، اور ماحولیات کےلیےخطیر سرمایہ کی ضرورت ہے۔
کیونکہ خورد بینی دشمن سرحدوں کو مانتا ہے نہ انسانی نسل اور مذہب میں تفریق کرتا ہے۔ یہ امیر اور غریب میں بھی فرق نہیں کرتا ہے۔ کیا یہ اچھا ہوتا کہ بائیڈن دنیا کے سیاسی تنازعات کو ان علاقوں میں رہنے والے غالب اکثریتی عوام کی امنگوں کے مطابق حل کروانے میں رول ادا کریں، تاکہ دنیا امن کا گہواہ بن کر دیگر اہم امور کی طرف توجہ مرکوز کر سکے۔ شاید اسی سے نوبل کمیٹی کی طرف سے اوبامہ کو دیے گئے پرائز کی سند کی توثیق بھی ہوگی۔