فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے پانچ جنوری کو جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں کیے گئے تشدد کی پہچان نشانہ بناکر کئے گئے حملے کے طورپر کی ہے، جس کا مقصد طلبہ وطالبات اور فیکلٹی ممبروں کو ڈرانا – دھمکانا تھا۔ یہ سب یونیورسٹی وی سی کی حمایت اور حوصلہ افزائی کے ساتھ کیا گیا تھا۔
جےاین یو اور وائس چانسلر جگدیش کمار (فوٹو بہ شکریہ : ٹوئٹر)
نئی دہلی: پانچ جنوری کو جواہر لال نہرو یونیورسٹی(جے این یو)میں ہوئے تشدد پر ایک فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کی رپورٹ نے تشدد کی پہچان نشانہ بناکر کئے گئے حملے کے طورپر کی ہے، جس کا مقصد طلبہ وطالبات اور فیکلٹی کے ممبروں کو ڈرانا اور دھمکانا تھا۔ یہ سب یونیورسٹی وی سی کی حمایت اور حوصلہ افزائی کے ساتھ کیا گیا تھا۔5 جنوری کے نقاب پوش غنڈوں کے حملے کے فوراً بعد، کانگریس نے آل انڈیا وومین کانگریس کی صدرسشمتا دیو کی صدارت میں فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بنائی تھی۔کمیٹی میں دیو کے علاوہ ایرناکلم کے ایم پی ہیبی ایڈن، پارٹی کی رہنماامرتا دھون اور راجیہ سبھا ایم پی ڈاکٹر سعید نصیر حسین شامل تھے۔
جانچ کمیٹی کے ذریعے جمع کئے گئے شواہد سے پتہ چلا ہے کہ ہتھیار بند حملہ آوروں کو ڈیوٹی پر سکیورٹی کمپنی (سائکلاپس پی لمٹیڈ) کے ذریعے منظم طورپراندر اور کیمپس میں اکٹھا کیا گیا تھا۔ اس نے تشدد کو آسان بنانے میں کچھ فیکلٹی ممبروں کی فعال شرکت بھی پائی۔
رپورٹ میں حملے میں رائٹ ونگ کے شامل ہونے کا اشارہ دیا گیا۔ رپورٹ میں کہا گیا، ‘یہ ماننے کی ہرممکن وجہ ہے کہ کیمپس میں طلبہ وطالبات اوراساتذہ پر حملہ کرنے والی بھیڑرائٹ ونگ گروپ سے تھی۔ وہاٹس ایپ گروپ جیسے ‘فرینڈس آف آر ایس ایس’ اور ‘یونٹی اگینسٹ لیفٹ’ کا استعمال لوگوں کو اکٹھا کرنے اور کیمپس میں طلبہ وطالبات اور فیکلٹی پر حملہ کرنے کے لیے اور اکسانے کے لیے کیا گیا تھا، جو حملے میں شامل لوگوں کے نظریات کو ظاہر کرتا ہے۔’
اس نے دعویٰ کیا کہ حملہ آوروں نے ان طلبہ وطالبات اور فیکلٹی ممبروں کو نہیں چھوا، جو ایک خاص مذہب کے طلبہ وطالبات پر صحیح اور بامقصد حملوں کی حمایت میں تھے۔رپورٹ میں الزام لگایا گیا کہ یونیورسٹی کے وی سی ایم جگدیش کمار نے اس تشدد کی سازش کی تھی۔رپورٹ میں لکھا ہے، ‘2016 میں اپنی تقرری کے بعد سے، انہوں نے (وی سی) یونیورسٹی میں فیکلٹی میں ایسے لوگوں کو بھرا جو ان عہدوں کے اہل نہیں تھے اورصرف انہیں کو پرموشن دیا جو ان کے موافق ہوں اور رائٹ ونگ نظریات کے لیے جھکاؤ ہو۔’
انہوں نے جان بوجھ کر بنا کسی پروسس کے یونیورسٹی کے طلبہ وطالبات اوراساتذہ پر اپنافیصلہ تھوپا اور پھر اسٹوڈنٹ اورٹیچرس یونین کے اصول کے مطابق چنے ہوئے طلبہ وطالبات اوراساتذہ یونین کے ساتھ جڑنے سے انکار کر دیا، جس کی وجہ سے رکاوٹ پیدا ہوئی۔دیو نے کہا کہ انہوں نے کئی بار وی سی سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن وہ بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہوئے۔
فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کو اس وقت وی سی اور پولیس کے بیانات میں غلطیاں ملیں جب پولیس کو کیمپس میں داخل ہونے کی اجازت دی گئی تھی۔رپورٹ میں ذکر کیا گیا ہے، ‘5 جنوری 2020 کو وی سی کی پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ انتظامیہ نے پولیس کوتقریباً 4.30 بجے بلایا تھا، لیکن پولیس نے بیان دیا ہے کہ انہیں تقریباً7.45 بجے کیمپس میں داخل ہونے کی اجازت دی گئی تھی۔’
رپورٹ نے 5 جنوری کو کیمپس میں سرور اور بجلی کاٹے جانے پر بھی سوال اٹھائے۔ رپورٹ میں کہا گیا، ‘اس بارے میں کوئی وضاحت نہیں ہے کہ سرور 5 جنوری کو ڈاؤن کیوں ہوا تھا۔ یہ لگ بھگ ویسا ہی ہے جیسے کہ وی سی نے سرور ٹھپ پڑنے کا فائدہ سی سی ٹی وی فوٹیج کی ریکارڈنگ نہ کرکے حملہ آوروں کو بچانے کے لیے اٹھایا۔’
رپورٹ کے مطابق، کیمپس میں تعینات پولیس نے حملہ آوروں کو کھسکتے ہوئے چپ چاپ دیکھا۔ طلبہ وطالبات نے پولیس کو جو ایمرجنسی کال کئے گئے ان کا جواب نہیں دیا گیا۔رپورٹ کے مطابق، دہلی پولیس نے 5 جنوری کو واضح طورپر وزارت داخلہ کوشک کے گھیرے میں لا دیا ہے۔ شہریت ترمیم قانون اوراین آرسی کی تحریک اور ٹکڑے ٹکڑے گینگ ’کو سزا دینے کے لیے وزیر داخلہ کے تبصرے نے بھی 5 جنوری کو جے این یو کیمپس میں مجرموں کا حوصلہ بڑھایا۔
کمیٹی کی سفارشات:
کمیٹی نے وی سی کوفوراً برخاست کرنے اور 27 جنوری، 2016 (کمار کی تقرری کی تاریخ) سے لےکر اب تک کی مدت کار میں کی گئی سبھی تقرریوں اور ان کے مدت کار کے دوران لیے گئے سبھی مالی اورانتظامی فیصلوں کو دیکھنے کے لیے ایک آزادانہ جانچ کمیٹی کے تشکیل کی سفارش کی ہے۔اس نے کیمپس میں سکیورٹی سروس فراہم کرنے والی کمپنی، وی سی اور فیکلٹی کے ممبروں کے خلاف مجرمانہ جانچ کی مانگ کی، جنہوں نے تشدد کرنے کے لیے حملہ آوروں کے ساتھ مل کر سازش کی۔ اس نے دہلی پولیس کے کمشنراور دوسرے پولیس حکام کی جوابدہی طے کرنے کی بھی مانگ کی، جنہوں نے جے این یوکیمپس سے طلبہ وطالبات اور فیکلٹی ممبرو ں کے ذیعے ایمرجنسی کال پر 5 جنوری کو فوری کارروائی نہیں کی۔
اس کے ساتھ ہی کمیٹی نے ایک منتخب یونٹ کے طورپر جواہر لال نہرو یونیورسٹی اسٹوڈنٹ یونین کو منظوری دینے اورفیس میں اضافہ کو فوری طورپر واپس لیے جانے کی بھی مانگ کی ہے۔