
سال 2018 میں جموں و کشمیر کے سرحدی علاقوں میں انڈر گراؤنڈ بنکروں کی تعمیر کے منصوبے میں کروڑوں روپے کی مالی بے ضابطگیوں کے الزامات سامنے آئے ہیں۔کئی بنکر زمین پر موجود ہی نہیں ہیں،جبکہ کاغذات پر انہیں ‘مکمل’ دکھایا گیا ہے۔ تفتیش جاری ہے۔

جموں و کشمیر میں لائن آف کنٹرول (ایل او سی) اور بین الاقوامی سرحد (آئی بی) پر پاکستانی فوج کی جانب سے بدھ، 7 مئی 2025 کو بھاری فائرنگ کے بعد تباہ شدہ ڈھانچہ۔ (تصویر: ضلع راجوری/پی ٹی آئی)
سری نگر: سال 2018 میں مرکزی حکومت نے جموں و کشمیر کے سرحدی علاقوں میں رہنے والے لوگوں کے لیے انڈرگراؤنڈ بنکر بنانے کے منصوبے کو منظوری دی تھی۔ دی وائر کو موصولہ جانکاری کے مطابق، اس پروجیکٹ میں مالی بے ضابطگیوں کے الزامات سامنے آئے ہیں، جن کی جانچ چل رہی ہے۔
یہ الزامات ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب گزشتہ دنوں سرحد پر پاکستان کی جانب سے اندھادھند فائرنگ میں کم از کم 20 شہری ہلاک اور درجنوں زخمی ہو چکے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان نے جموں و کشمیر کے ان علاقوں کو نشانہ بنایا جہاں ان انڈرگراؤنڈ بنکروں کی تعمیر کا منصوبہ تھا۔
اس مسئلے نے جموں اور کشمیر کے حکام کے کردار پر بھی سوالیہ نشان لگا دیا ہے، جو مبینہ طور پر اس اہم منصوبے پر عملدرآمد کو یقینی بنانے میں ناکام رہے – ایک ایسا منصوبہ جو لائن آف کنٹرول (ایل او سی) اور بین الاقوامی سرحد کے قریب رہنے والے شہریوں کی زندگیوں کو بچانے کے مقصد سے شروع کیا گیا تھا۔
کبھی نہیں ہوا آڈٹ، اب تحقیقات کا حکم
دی وائر سے بات کرتے ہوئے حکمران نیشنل کانفرنس کے ایم ایل اے (پونچھ) اعجاز جان نے کہا کہ وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے ان مبینہ بے ضابطگیوں کی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔
‘اب تک پانچ ماہ گزر چکے ہیں، لیکن کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔’جان نے کہا۔ انہوں نے الزام لگایا کہ کچھ بنکر جنہیں کاغذات پر ‘مکمل’ دکھایا گیا ہے، وہ حقیقت میں زمین پر موجود ہی نہیں ہیں۔
بتادیں کہ سال 2018 میں جموں ڈویژن کے سامبا، جموں، کٹھوعہ، پونچھ اور راجوری اضلاع میں سرحدی باشندوں کے لیے کل 14460 بنکر منظور کیے گئے تھے، جن کی تخمینہ لاگت 415.73 کروڑ روپے تھی۔ ان میں سے 13029 ذاتی بنکر تھے اور 1431 کمیونٹی بنکر تھے۔
دی وائر کو موصولہ سرکاری دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ پچھلے سال تک ایک بھی بنکر کا آڈٹ نہیں کیا گیا تھا، جب وزارت داخلہ نے اس منصوبے میں بے ضابطگیوں کی تحقیقات کے لیے ایک ٹیم تشکیل دی تھی۔ بنکروں کا آڈٹ کرنے کا حکم اس وقت آیا جب جموں میں مقیم وکیل آشوتوش کھنہ نے 2023 میں جموں و کشمیر پولیس کرائم برانچ میں ایک شکایت درج کرائی، جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ یہ پروجیکٹ، جسے جموں و کشمیر کے سرحدی باشندوں کے ‘مصائب کو کم کرنے’ کے طور پر پیش کیا گیا تھا، مالی بدعنوانی اور انتظامی بے ضابطگیوں سے دوچار ہے۔
یہ شکایت کرائم برانچ کے اکنامک آفینس ونگ میں نمبر جے14003/2023 کے تحت درج کی گئی تھی، جسے بعد میں عدالتی مداخلت کے بعد جموں و کشمیر کے اینٹی کرپشن بیورو کے حوالے کر دیا گیا۔
کھنہ نے اپنی شکایت میں، جو انہوں معلومات کے حق قانون (آر ٹی آئی) کے تحت حاصل کردہ سرکاری اعداد و شمار کی بنیاد پرتیار کی تھی، الزام لگایا کہ راجوری ضلع کے مختلف بلاکوں کو ضرورت سے زیادہ رقم جاری کی گئی، اور کچھ خریداریوں کے ریکارڈ سرکاری ریکارڈ میں موجود نہیں تھے۔
جب پولیس کی تفتیش میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی تو کھنہ نے دی وائر کو بتایا کہ انہوں نے جموں کی ایک مقامی عدالت سے رجوع کیا اور سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) کو محکمہ تعمیرات عامہ (پی ڈبلیو ڈی) اور دیہی ترقی کے محکمے کے اہلکاروں کے خلاف بدعنوانی کا مقدمہ درج کرنے کی ہدایت دینے کے لیے درخواست دائر کی۔
کھنہ نے کہا، ‘کرائم برانچ نے اپنی اسٹیٹس رپورٹ میں عدالت کو بتایا کہ اس نے متعلقہ محکموں سے خریداری سے متعلق ریکارڈ مانگا ہے، جو بہت بڑی مقدار میں ہیں اور ان کی جانچ میں وقت لگے گا۔’ انہوں نے مزید کہا کہ اس کے بعد عدالت نے ایس ایس پی کرائم برانچ کو ‘ایکشن رپورٹ’ داخل کرنے کی ہدایت دی، جس کے بعد کیس کو جموں و کشمیر کے اینٹی کرپشن بیورو (اے سی بی) کے حوالے کر دیا گیا۔
انہوں نے کہا، ‘عدالت نے اس معاملے میں مزید تحقیقات اے سی بی کے ذریعے کرانے کی ہدایت دی ہے۔’
اخراجات کی تفصیلات
کھنہ کی شکایت میں کہا گیا ہے، ‘سندربنی کے بلاک ڈیولپمنٹ آفیسر (بی ڈی او) نے آر ٹی آئی کے جواب میں کہا ہے کہ ادائیگی کے لیے 9482900 روپے کے بل پاس کیے گئے تھے، جبکہ سندر بنی کے ٹریژری افسر کا دیا گیا جواب بی ڈی او آفس کے دعوے سے میل نہیں کھاتا ہے۔
خزانچی کے مطابق،11537645 روپے کی رقم انٹرنل سکیورٹی مد کے تحت جاری کی گئی،یعنی 2054745 روپے زائد ادا کیے گئے۔ یہی صورتحال ڈونگی، قلعہ درہال، سیری، پنجگراں اور منجاکوٹ کے بی ڈی او دفاتر کا ہے جہاں دی گئی معلومات میں کروڑوں روپے کا فرق ہے اور متعلقہ خزانے سے موصول ہونے والی معلومات سے بالکل میل نہیں کھاتی۔’
کھنہ نے دی وائر کو بتایا،’اگر ایک ضلع میں یہ صورتحال ہے تو دوسرے اضلاع میں بے ضابطگیوں کے امکان سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔‘
دریں اثنا، جب اے سی بی کی تحقیقات جاری تھی، تو مرکزی وزارت داخلہ نے اس پروجیکٹ کے آزادانہ آڈٹ کا حکم دیا، جو 2026 تک مکمل ہونا ہے۔
بنکر کہاں گئے؟
اعجاز جان نے کہا کہ بہت سے بنکر جن کے لیے فنڈز جاری کیے گئے تھے زمین پر موجود ہی نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر یہ بنکر موجود ہوتے تو پونچھ میں گولہ باری سے ہونے والی تباہی کو کافی حد تک روکا جا سکتا تھا۔
غورطلب ہے کہ ‘آپریشن سیندور’ کے بعد پاکستان کی جانب سے سرحد پار سے ہونے والی گولہ باری سے پونچھ سب سے زیادہ متاثرہ ضلع تھا ، جہاں چار بچوں سمیت کم از کم 14 شہری ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے ۔
جان نے کہا کہ پی ڈبلیو ڈی نے دعویٰ کیا کہ پونچھ کے کچھ علاقوں میں سیمنٹ اور اسٹیل جیسے تعمیراتی سامان بھیجے گئے تھے۔ان میں سے کچھ بنکر زمین پر موجود ہی نہیں ہیں ، اور کوئی نہیں جانتا کہ یہ تعمیراتی سامان کہاں گیا۔ حکومت کوایسے عارضی انتظامات کرنے کی بجائے ایل او سی کی زیرو لائن پر آنے والے علاقوں کے لیے مستقل بنکر بنانا چاہیے ، تاکہ سرحدی علاقوں کے لوگوں کے مسائل کا مستقل حل نکل سکے۔’
اس سال کے شروع میں ، جموں و کشمیر اسمبلی نے مرکزی حکومت کی جل جیون مشن اسکیم میں مبینہ بے ضابطگیوں کی تحقیقات کے لیے ایک ہاؤس کمیٹی تشکیل دی تھی۔ اس اسکیم کے تحت یونین ٹیریٹری انتظامیہ نے 582.50 کروڑ روپے کے پائپ خریدے تھے ، جو مبینہ طور پر جموں و کشمیر کے پہاڑی علاقوں کے لیے غیر موزوں تھے۔ اس کے علاوہ اس اسکیم میں دیگر بے ضابطگیوں کے الزامات بھی سامنے آئے تھے۔
(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔ )